کالم

خزاں کے رنگ

Share

پت جھڑ کتنا خوبصورت لفظ ہے۔موسم کا نام ہونے کے ساتھ ساتھ اس رت کے دوران بیتنے والے قدرتی حالات و واقعات کو بھی بیان کردیتا ہے۔جاپان کاچونکہ لگ بھگ(80%)اسی فیصد رقبہ پہاڑوں اور جنگلوں پر مشتمل ہے۔پہاڑبھی سرسبز،درختوں سے ڈھکے ہوئے ہیں۔اسی لیے خزاں کی دستک سے جاپان کا رنگ بدل جاتا ہے۔جدھرنظر دوڑائیں،سبزے کی جگہ زردی اورنارنجی رنگ غالب ہوتا نظر آتاہے۔
یہاں بہارکے جوبن پر جب چیری کے درختوں کی شاخیں پھول اٹھاتی ہیں تو”چیری بلاسم“دیکھنے کے لیے لوگ اہل خانہ اور دوستوں کے ہمراہ پھولوں سے لدے ان درختوں کے نیچے چٹائیاں بچھاکر،سامان خوردونوش کے ہمراہ بیٹھ جاتے ہیں اور ایک تہوار”ہنامی“مناتے ہیں۔اسی طرح خزاں کے موسم میں بھی جب درختوں کے پتوں کا رنگ زرد،نارنجی اور سرخ ہونے لگتا ہے اوروہ پت جھڑ کی ہواؤں سے ٹوٹ ٹوٹ کر گرنے لگتے ہیں،توبہت سارے جاپانیوں کے نزدیک یہ تہوار کا موقع ہے۔روایتی طور پرلوگ جوق درجوق گھروں سے نکلتے ہیں،اور فطرت کے قریب کہیں پناہ لیتے ہیں۔کہیں ٹولیوں کی شکل میں کسی پہاڑی پرپڑاؤ ڈالتے ہیں۔کہیں تنہا تنہاجنگل کا رخ کرتے ہیں۔دریاؤں کے کنارے بھی خزاں کے گرتے پتوں کی آہٹ سننے اور درختوں کے بدلتے رنگ دیکھنے کامقبول مقام ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جیسے بہار میں چیری بلاسم کے تہوار کے لئے رائج لفظ”ہنامی“کالفظی ترجمہ پھول تکنا ہے۔خزاں کے رنگ بدلتے،گرتے پتوں کا نظارہ کرنے کے لئے جانے کو ”زردپتوں کا شکار کھیلنے“کے لئے جاناکہتے ہیں۔یوں کہہ لیجئے کہ سوکھے پات دیکھنے جب لوگ پت جھڑ کے موسم میں گھر سے نکلتے ہیں تو”مومی جگاری“اسے کہتے ہیں۔ایک ہزار سال سے بھی پرانی شاعری میں اس تہوارکے تذکرے موجود ہیں۔
آٹھویں صدی عیسوی جسے یہاں ”نارا“عہد کہتے ہیں،اس زمانے کی شاعری کا یہ محبوب موضوع ہے۔ہمارے ہاں فیض احمد فیض نے اسی موسم میں لکھی ایک معروف نظم میں پاکستان کو”زردپتوں کابن“بھی کہا ہے۔چونکہ مستقل یہاں موسم خزاں کا راج دیکھتے تھے۔اور قانون کے نفاذکے حوالے سے اس دیس کوجنگل محسوس کرتے تھے۔اسی لئے اسے درد کی انجمن بھی لکھتے تھے۔پس دیوارزنداں تحریرکردہ شاعری میں فیض کے کلام کا بہت نمایاں مقام ہے۔
خزاں کا رنگین اوردلکش منظر فقط فطرت کا کرشمہ نہیں ہے۔ان مناظرکی آبیاری بہت سے نیک دل لوگوں نے کی ہے۔اس کی ایک مثال ٹویوٹاکمپنی کی وجہ تسمیہ اور گاڑیاں بنانے والے اسی ادارے کے ہم نام شہر میں جو پت جھڑکاحسین منظرنظرآتاہے،اس نظارے کا سبب سترہویں صدی عیسوی میں ایک بدھ مت کے پیروگاراور معبدکے مہا پنڈت کے ہاتھوں سے لگائے گئے چار ہزارمیپل کے درخت ہیں۔بدھ عبادت گاہ کے اردگردکے علاقے میں پروہت کے لگائے گئے درختوں کے پتے خزاں کے موسم میں زمین پرزرداورنارنجی چادر بچھا دیتے ہیں۔منظر کا حصہ بننے والے ان ادھ مڑے،زرد،خشک،نارنجی پتوں پراگر پیدل چل کر دیکھیں تو احساس یہی ہوتا ہے۔جیسے کسی دبیز قالین پرقدم رکھ رہے ہیں۔
یہاں پر خزاں کا انتخابی نشان باقی دنیا کی طرح میپل کا پتا ہے۔میپل کو اردو اور فارسی میں ”افرا“کہتے ہیں۔مگر میرا خیال ہے کہ قارئین کی اکثریت کے نزدیک ”افرا“کی نسبت میپل زیادہ مانوس ہوگا۔گرچہ آج کل پاکستان سمیت مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک میں افرالڑکیوں کا مقبول نام ہے۔مجھے پروین شاکر کی شاعری سے یہ شکوہ رہتا تھاکہ وہ ان پھولوں اور پیڑوں کے استعارے استعمال کرتی ہے۔جوہم نے دیکھے بھی نہیں ہیں۔ان کی شاعری میں رات کی رانی کی خوشبوکاتذکرہ ہو یا پھراملتاس کے پیڑ پر لگے پھول،کم از کم میں نے کبھی نہیں دیکھے تھے۔اسی لیئے مجھے شوکماربٹالوی کا”شرینہ دا پھل“کے نام سے شعری مجموعہ دیکھ کر زیادہ اچھالگتا اور سمجھ بھی آتی تھی۔مگرواقعہ کچھ یوں ہواکہ ایک حسین شام ایک باغیچے میں بیٹھے تھے۔کہ کہیں سے بڑی دل آویز مہک ناک کے نتھنوں سے ٹکرائی تو کسی نے بتایا کہ یہ رات کی رانی کی خوشبوہے،پچھلے برس لاہور کے ایک رہائشی علاقے میں اہل خانہ کے ساتھ چہل قدمی کرتے ہوئے،اردگردلگے درختوں کی بابت پوچھا،جن پر لدے،پھندے،پیلے رنگ کے پھول اپنے حسن سے مبہوت کئے جا رہے تھے۔پتہ چلا کہ یہ املتاس کے پیڑ ہیں،جن پربسنتی رنگ کے پھول سجے ہیں۔اس روز میں اس نتیجے پر پہنچا کہ کوئی بھی پھول اور پیڑپرایا نہیں ہوتا۔
پہاڑی جنگلوں میں دور تک نکل جانے والے جاپانی لوگوں کے لئے سرخ اور ادھ مڑے پیلے پتوں کامطلب،آنے والے تنہائی اورطویل موسم سرماکے دن ہیں۔یاد رہے کہ شدید سردی اوربرفباری کے باعث یہاں کے زیادہ تر علاقوں میں نقل وحرکت محدودہوجاتی ہے۔پہاڑوں اور جنگلوں میں جاناتوخیرممکن ہی نہیں رہتا ہے۔سرما کی قید سے پہلے آزادی کے چند دنوں کا یہ جشن ہے۔مگرحزن اوراداسی کے رنگ واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔تاریخی طور پر فقط مذہبی مقامات کے گردونواح میں پت جھڑ سے متعلق محفلیں ہوتی تھیں اور خصوصی عبادات کا اہتمام کیاجاتاتھا۔مگر اب مذہبی رنگ اس تہوار میں پھیکاپڑگیا ہے،اور ثقافتی و سماجی رنگ غالب نظر آتا ہے۔