منتخب تحریریں

ناکامیاں : مودی سرکار آمادۂ جنگ

Share

چند دن قبل اس کالم کے ذریعے یاد دلانے کی کوشش کی تھی کہ بھارت کا ہر چھٹا شہری پیدائشی مسلمان ہے۔ سرکاری طورپر مسلمانوں کی تعداد 20کروڑ تسلیم کی گئی ہے۔ ایک ارب سے زائد والے ملک میں مسلمان یقینا اقلیت میں ہیں۔اقلیت کی اتنی بڑی تعداد کو جن کی بھارت کے ساتھ تعلق کی تاریخ کم از کم ایک ہزار سال پرانی ہے دوسرے درجے کا شہری بنایا ہی نہیں جاسکتا۔

مودی سرکار کی ’’نظریاتی گرو‘‘ RSSنے بھارت کے بے پناہ علاقوں میں مؤثر ترین تصور ہوتے مسلمانوں کے ’’ووٹ بینک‘‘ کو اس کی ’’اوقات‘‘ میں رکھنے کے لئے ہندوتوا کا تصور متعارف کروایا تھا۔ہندوئوں کو اس کے ذریعے باہمی اختلافات بھلاکر سیاسی اعتبار سے ’’متحد‘‘ ہونے کی راہ دکھائی۔ہندومذہب کاDefault Mode مگر ذات پات پر مبنی نظام ہے۔برہمن بالادستی سے انکار ان کے عقیدے کے مطابق ’’لادینیت‘‘ ہے۔اس کے علاوہ جاٹ،جاٹ ہی رہتا ہے اور راجپوت ،راجپوت ہے۔شمال اور جنوب کے جھگڑے بھی ہیں۔ہندی زبان پر مشتمل نام نہاد ’’کائوبیلٹ‘‘ یوپی،بہار اور راجستھان تک محدود ہے۔اس کے بعد تامل،تیلگو،بنگالی اور ملیالم زبان وثقافت کی بنیاد پر اُبھری قوم پرستی ہے۔’’ہندوتوا‘‘اس قوم پرستی کا توڑ ڈھونڈنہیں پائی ہے۔مودی سرکار کے رونما ہونے سے قبل ہم پاکستانیوں کی اکثریت ہندوانتہاپسندی کو بال ٹھاکرے کی ’’شیوسینا‘‘ کی بدولت جانتی تھی۔یہ درحقیقت مرہٹہ قوم پرستی کا اظہار تھا۔بمبئی میں جسے اب ممبئی کہا جاتا ہے شیوسینا کا اصل جھگڑا مدراس وغیرہ سے آئے ’’اجنبیوں‘‘ سے شروع ہوا تھا۔مہاراشٹرفقط مرہٹوں کے لئے مختص کرنے کی بات چلی۔اگرچہ مرہٹہ قوم پرستی کا ذکر ہوتا ہے تو اورنگزیب کے خلاف ہوئی جنگوں کے حوالے سے مسلم دشمنی کو ابھارنا بھی ضروری ہوجاتا ہے۔ہندوانتہاپسندی کے حوالے سے غور کریں تو مودی کی BJPاور بال ٹھاکرے کی یادگار شیوسینا ایک دوسرے کے فطری اتحادی نظر آتے ہیں۔حال ہی میں مہاراشٹرا کی صوبائی اسمبلی کے لئے ہوئے انتخابات کے بعد مگر شیوسینا نے اپنی ’’نظریاتی پہچان‘‘ کو بھلاتے ہوئے ’’سیکولر‘‘ کانگریس سے اتحاد کی بدولت صوبائی حکومت بنائی ہے۔ امیت شا کی مہارتیں اس ضمن میں کوئی کام نہیں آئیں۔ بھارت میں آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑے صوبے یوپی میں اس وقت یقینا BJPکی اجارہ داری ہے۔ایک کٹر ہندو ’’یوگی‘‘ وہاں کا وزیر اعلیٰ ہے۔ریاستی جبر کی بدولت مگر وہ علی گڑھ،میرٹھ، بجنور اور کانپورجیسے شہروں میں شہریت کے ضمن میں بنائے نئے قوانین کے خلاف مزاحمت پر قابو پانے میں بُری طرح ناکام رہا۔یوپی کے بعد بہاربھی ہے۔ یہاں کے نتیش کمار کو کسی زمانے میں عمران خان صاحب نے ’’گڈگورننس‘‘ کے ہنر سیکھنے کے لئے تحریک انصاف کی قیادت کو لیکچر دیلائے تھے۔گڈگورننس کی یہ ’’علامت‘‘وفاقی حد تک مگر مودی سرکار کی حامی ہے۔اپنے صوبے میں لیکن نتیش کمار نے شہریت کے لئے بنائے نئے قوانین کے اطلاق سے انکار کردیا ہے۔بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ کیپٹن امریندرسنگھ کا تعلق کانگریس سے ہے ۔ وہ بھی اپنے صوبے میں مذکورہ قوانین کے اطلاق کو تیار نہیں۔اکالی دل اس کی سیاسی مخالف ہے۔ اسی باعث مودی حکومت میں اس جماعت کے نمائندوں کو وزارتوں میں حصہ دیا گیا ہے۔اکالی دل کی قیادت نے بھی شہریت کے نئے قوانین کی حمایت سے انکار کردیا ہے۔ان تمام حقائق کو نگاہ میں رکھتے ہوئے میں نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ ’’ہندوتوا‘‘ کے نام پر بھارت میں ہندواکثریت کے غلبے کو فسطائی قوم پرستی کی طرح مسلط کرنے میں ناکام ہونے کے بعد مودی سرکار ’’بھارتی قوم پرستی‘‘ کے احیاء کے لئے اب کسی نہ کسی صورت پاکستان کے ساتھ جنگ چھیڑنے کے بہانے ڈھونڈنا شروع ہوجائے گی۔اپنی بات درست ثابت ہونے کی بابت مجھے ہرگز خوشی نہیں ہورہی۔انتہائی دُکھ سے مگر اس حقیقت پر توجہ دلانے کو مجبور ہورہا ہوں کہ گزشتہ تین دنوں سے کشمیر پر قائم لائن آف کنٹرول پر اشتعال انگیز چھیڑچھاڑ شروع کردی گئی ہے۔

وزیر اعظم عمران خان صاحب اپنے ٹویٹس کے ذریعے عالمی رائے عامہ کو False Flagکے بارے میں متنبہ کرنا شروع ہوگئے ہیں۔منہ توڑ جواب دینے کے دعوے برحق۔ اس برس کے آغاز میں 26فروری کو بالاکوٹ پر ہوئے فضائی حملے کا بھی مؤثر جواب دیا گیا تھا۔پاکستان اس رائونڈمیں یقینا One-Up رہا۔بھارت کا پائلٹ پاکستانی حدود میں گرفتار ہوا۔اسے ’’خیر سگالی‘‘ کے جذبے کے تحت رہا کردیا گیا۔اس ’’خیرسگالی‘‘کی مگر قدر نہیں ہوئی۔نئے انتخابات جیتنے کے بعد مودی سرکار نے بلکہ آرٹیکل 370کو ختم کرتے ہوئے ماضی کی ریاستِ جموںوکشمیر کی جداگانہ شناخت ختم کردی۔اس ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے بھارت کو Union Territoryبنادیا گیا ہے۔5اگست2019سے یہ کالم لکھنے تک 80لاکھ کشمیریوں کو دورِ حاضر کے لئے لازمی ٹھہرائی موبائل فونز اور انٹرنیٹ والی سہولتوں سے محروم کردیا گیا ہے۔مقبوضہ کشمیر کی ’’بھارت نواز ‘‘قیادت سمیت وہاں کی روایتی سیاست سے متعلق ہر بڑا نام اس وقت قید میں ہے۔روزانہ کی بنیاد پر رات گئے چھاپے مارتے ہوئے ہزاروں نوجوانوں کو ان کے گھروں سے اٹھاکر ’’نامعلوم‘‘ عقوبت خانوں میں بھیجا جارہا ہے۔پاکستان اپنی ’’شہ رگ‘‘ پر نازل ہوئے نئے عذاب کے کماحقہ ازالے کا بندوبست نہیں کرپایا۔ نام نہاد عالمی میڈیا میں بھارت کی یقینا مذمت ہورہی ہے۔ بنیادی وجہ اس کی مگر ان دنوں مودی سرکارکی جانب سے متعارف ہوا بھارتی شہریت کا نیا قانون ہے کشمیر نہیں۔نئی دلی کی جامعہ ملیہ میں اس قانون کے خلاف اٹھی مزاحمت اب بھارت کے تمام صوبوں میں پھیل چکی ہے۔اس مزاحمت کی قیادت ’’لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے‘‘ گنگناتے نوجوانوں کے پاس ہے۔روایتی ’’سیکولر‘‘ سیاست دان اور دانشور وغیرہ ابتداء میں اس مزاحمت سے لاتعلق رہے۔اب برصغیر کی ٹرینوں سے وابستہ ’’لیٹ نکالنے والی‘‘پھرتیاںدکھائی جارہی ہیں۔بھارت میں جو ہنگامے پھوٹے ہیں وہ فرانس کی مئی 1968میں چلی تحریک کی یاد دلارہے ہیں۔بہت سے ایسے مناظر بھی ابھرے جو ویت نام کی جنگ کے خلاف 1970کی دہائی میں امریکہ کی درس گاہوں میں نظر آئے تھے۔نکسن کو ان کی وجہ سے ویت نام سے ذلت آمیز انداز میں نکلنے کی راہ ڈھونڈنا پڑی۔ ’’واٹرگیٹ‘‘ کی وجہ سے اسے صدارت سے مستعفی ہونا پڑا تو اس کے جانشین جانسن کو اس ضمن میں مزید ذلت نصیب ہوئی۔آج کے امریکی صدر کو اب یوکرین میں ہوئے ایک واقعہ کی وجہ سے مواخذے کی ایک اور تحریک کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔میرا ذاتی خیال ہے کہ اس تحریک کی وجہ سے ٹرمپ کونکسن جیسی خفت کا سامنانہیں کرنا پڑے گا۔اس کی سیاسی مشکلات مگر مودی جیسے انتہاپسندوں کو علاقائی اور مقامی حوالوں سے اپنا کھیل رچانے میں آسانیاں فراہم کررہی ہیں۔پاکستان کو ہمہ وقت چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ہماری معاشی مشکلات نے مگر ہمارے ہاتھ باندھ رکھے ہیں۔ ستمبر2022تک ہمارے تمام تر معاشی فیصلے IMFکو Out Sourceکردئیے گئے ہیں۔’’دوستوں‘‘ کی ٹھوس مدد پر انحصار نے ہمیں یہ موقعہ بھی نہیں دیا کہ ہمارے وزیر اعظم ان ہی کی خواہش پر ملائیشیا میں منعقد ہوئی مسلمان ملکوں کی اس کانفرنس میں شریک ہوسکیں جہاں پاکستان کے ہر موسم میں ساتھ دینے والے ترکی کے صدر بھی موجود تھے۔اس اداس موسم میں اب ’’اداروں کے مابین‘‘کھینچا تانی کی گفتگو شروع ہوگئی ہے۔ایک ’’تاریخی‘‘ فیصلے کو بنیاد بناتے ہوئے اندھی نفرت وعقیدت پر مبنی تقسیم کو مزید گہرا کیا جارہا ہے۔ ’’توسیع‘‘ کے حوالے سے نئے قانون کی ضرورت بھی ہے۔اس ضرورت نے احتساب بیورو کے ذریعے دیوارسے لگائی اپوزیشن کو ’’بھائو تائو‘‘ کے وسیع تر امکانات فراہم کردئیے ہیں۔ ’’تاریخ‘‘ بنانے کی گنجائش اپنی جگہ موجود ہے۔اسے بنانے کے لئے مگر ’’کردار‘‘ بھی درکار ہوتے ہیں۔ہم صحافی تو کب کے ’’منشی‘‘ ہوچکے ہیں۔ہماری اشرافیہ کے طاقت ور ترین نظر آتے لوگ بھی بھلے شاہ کی بتائی ’’آئی صورت‘‘ کے مطابق عمل آزما ہونے کو آمادہ نظر نہیں آرہے۔