منتخب تحریریں

وفاقی وزراء اور اپوزیشن کا احتجاج

Share

ستے خیراں، سب ٹھیک ٹھاک، امن و امان، کوئی فکر کی بات نہیں۔ ماشاء اللہ وفاقی وزیرانِ باتدبیر نے لاہور کا دورہ کیا ہے اور دانش، عقل و حکمت کے وہ موتی، پنجاب انتظامیہ کے حوالے کئے ہیں کہ اب اپوزیشن کا احتجاج حلوہ ثابت ہوگا۔ یہ جلسہ آئے گا اور گزر جائے گا۔ حکومت سینہ تان کر کھڑی رہے گی اور اپوزیشن سر جھکا کر، شرما کر اُس دن کو گزار دے گی۔

بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ سیاست کا مقابلہ سیاست سے نہیں ہوگا بلکہ سیاست کو انتظامی ہتھکنڈوں سے روکا جائے گا۔ اگر تو جلسے پولیس نے روکنا ہوں تو پھر سیاست کا خدا ہی حافظ ہے۔ جب بھی اہلِ سیاست نے خود مقابلہ کرنے یا سیاسی گُر استعمال کرنے کی بجائے پولیس اور بیورو کریسی کو آگے کیا، نتیجہ کبھی اچھا نہیں نکلا مگر وزیرانِ بدتدبیر کا خیال ہے کہ اپوزیشن کے احتجاج کا حل یہی ہے۔

وزراء بظاہر سادہ نظر آئیں، حکومت بےوقوف لگے یا پھر ناتجربہ کار مگر سچ یہ ہے کہ ہر کوئی اپنے مفاد کا پکا ہوتا ہے۔ تمام تر ناتجربہ کاری کے باوجود یہ حکومت بڑی چالاکی سے اپوزیشن اور اداروں کو آمنے سامنے لانا چاہتی ہے، اسی لئے شاہدرہ لاہور میں ہونے والے پرچے کی اونر شپ سے انکار کیا گیا تاکہ لگے کہ اصل لڑائی اداروں اور اپوزیشن کی ہے، حکومت تو ایسی کسی لڑائی میں شریک نہیں۔

حکومت کی اِس چالاکی میں اپوزیشن بھی مدد کر رہی ہے کیونکہ وہ خود بھی کہہ رہی ہے کہ ہماری لڑائی حکومت سے نہیں بلکہ اِس حکومت کو لانے والوں سے ہے مگر مجھے یوں لگتا ہے کہ حالیہ احتجاج میں اپوزیشن کے مقابلے میں ادارے نہیں آئیں گے بلکہ وہ ایک ہفتے کے لئے نیوٹرل ہو جائیں گے جبکہ اصل مقابلہ حکومت اور اپوزیشن کا ہوگا۔ یوں ادارے حکومت اور اپوزیشن دونوں کے ارادوں کو ناکام بنانا چاہتے ہیں۔ ادارے نہ ہدف بننا چاہتے ہیں اور نہ ہی سیاسی لڑائی میں فریق۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں اُنہیں فریق بنانا چاہتے ہیں مگر وہ اِس پر تیار اور آمادہ نظر نہیں آتے۔

وہ اپوزیشن کے پہلے ہلے میں غیرجانبداری سے حکومت اور اپوزیشن کا میچ دیکھیں گے۔ یہ دور جھوٹ، کذب اور افترا کا ہے، کوئی سچی خبر دے کر دیکھ لیں، وفاقی ترجمان پنجے جھاڑ کر پیچھے لگ جاتے ہیں۔ نہ کوئی دلیل، نہ کوئی دعویٰ مگر ہر خبر کی تردید کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ کوئی وفاق سے پوچھے کہ پنجاب میں سی او پی، سی سی اوپی اور آئی جی تو آپ آئے دن تبدیل کرتے ہیں، پانچ یا چار چیف سیکرٹری آپ تبدیل کر چکے ہیں حتیٰ کہ کمشنر کے تبادلوں تک کی منظوری آپ سے آتی ہے، آپ نے میجر ریٹائرڈ اعظم سلیمان جیسے طاقتور چیف سیکرٹری کو ایک جھٹکے میں بدل دیا۔

پنجاب کو وفاق کے ریموٹ کنٹرول سے چلایا جا رہا ہے، ایسے میں کس کی مجال ہے کہ اپوزیشن کے خلاف غداری کا مقدمہ وفاق کو بتائے بغیر درج کر لیا جاتا۔ مصدقہ اطلاع ہے کہ وفاق کو مقدمہ درج کرنے سے پہلے مطلع کیا گیا البتہ پرچے میں کچھ غیرضروری نام مقامی سطح پر پولیس نے شامل کر لئے۔ اب تازہ صورتحال دیکھ لیں، وزیراعظم کے اونر شپ نہ لینے کے باوجود مقدمہ قائم ہے۔

وفاقی وزیروں اور ترجمانوں نے کہا ہم بغاوت اور سازش کے مقدموں کے حق میں نہیں لیکن آپ دیکھئے گا کہ اِس مقدمے کے تحت ہی گرفتاریاں ہوں گی۔ ایک وفاقی وزیر نے تو یہ دعویٰ بھی کیا کہ یہ صوبائی مسئلہ ہے گویا پنجاب صوبائی مسئلے نمٹانے میں آزاد ہے۔ جھوٹ کی بھی حد ہوتی ہے، ہر معاملے میں وفاق پنجاب میں مداخلت کرتا ہے، کوئی الزام لگے تو کہتے ہیں کہ ہمارا کوئی کردار نہیں۔

آنے والے دنوں میں یہ ثابت ہو کر رہے گا کہ غداری اور سازش کا مقدمہ وفاقی حکومت کو بتا کر ہی درج کیا گیا ہے۔ ترجمان جتنی مرضی وضاحتیں کریں سچ کا بول بالا ہو کر رہتا ہے اور وہ ہوگا۔ اپوزیشن کے گوجرانوالہ جلسہ میں چند ہی دن باقی ہیں۔ ایک طرف جاتی امرا میں مریم نواز جلسے کے انتظامات پر میٹنگز کر رہی ہیں، خرم دستگیر خان گوجرانوالہ میں سرگرم ہیں جبکہ لاہور اور گوجرانوالہ کے انتظامی افسر بھی دن رات اِن جلسوں کو محدود رکھنے کی منصوبہ بندی میں مصروف ہیں۔

انتظامیہ چاہے گی کہ مریم لاہور سے جلوس بنا کر گوجرانوالہ روانہ نہ ہوں کیونکہ اِس بات کا اندیشہ ہے کہ کہیں جلوس اور ریلی بہت بڑی نہ ہو جائے۔ انتظامیہ کی کوشش ہوگی کہ رکاوٹیں گرفتاریاں، راستے بند کرکے صرف محدود تعداد کو جلسے جلوس میں شریک ہونے کا موقع دیا جائے۔

ن لیگ نے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا پہلا جلسہ گوجرانوالہ میں سوچ سمجھ کر رکھا ہے کیونکہ یہ شہر مسلم لیگ ن کا گڑھ شمار ہوتا ہے اور علاقے کی تقریباً ساری نشستیں ن لیگ کے پاس ہیں۔ اصل امتحان لوگوں کو باہر نکلنے پر آمادہ کرنا اور اُس دن جلسے کو آباد کرنا ہوگا۔ بظاہر ن لیگ کے لئے اِس میں کوئی مشکل نہیں مگر ن لیگ انتظامی ہتھکنڈوں کا مقابلہ کرنے کا زیادہ تجربہ نہیں رکھتی۔

کہا جا رہا ہے کہ لاہور اور گوجرانوالہ میں بعض افسروں کی تعیناتی ہی اِس لئے کی گئی کہ وہ جلسے جلوسوں کو موثر انداز میں روک سکیں یا کم از کم محدود کر سکیں۔ دوسری طرف ن لیگ کے لئے گوجرانوالہ کا جلسہ ایک ٹیسٹ کیس ہے۔ اُن کے گڑھ میں جلسہ اگر کمزور ہوا تو اپوزیشن کے سارے احتجاجی پروگرام پر اِس کا منفی اثر پڑے گا اور اگر جلسہ کامیاب ہوا تو ظاہر ہے اِس کا سیاسی پیغام اپوزیشن کے حق میں جائے گا۔

حکومت کے حلقے اپنی تشویش کو جتنا بھی خفیہ رکھیں، احتجاجی تحریک اُن کے اعصاب پر اثر انداز تو ہو رہی ہے۔ جلسوں اور جلوسوں سے حکومت گرنے کا تو کوئی امکان نہیں لیکن بڑا جلسہ ہو جائے تو حکومت ہل جاتی ہے، عوامی موڈ ظاہر ہو جاتا ہے، اپوزیشن کا حوصلہ بڑھ جاتا ہے، گلی محلے کے بحث مباحثے میں جان پڑ جاتی ہے اور یوں مردہ سیاست زندہ ہونے لگتی ہے۔

اپوزیشن کی کوشش یہی ہوگی کہ وہ اکتوبر، نومبر اور دسمبر میں سیاسی ماحول کو گرما دے۔ حکومت کو اپوزیشن کا علاج سیاست سے کرنا چاہئے۔ عمران خان پارٹی کنونشن کر سکتے ہیں، کہیں کا دورہ کرکے جوابی حملہ کر سکتے ہیں۔