صحتہفتہ بھر کی مقبول ترین

انسانی جسم میں نئے اضافے کا سلسلہ اب بھی جاری

Share

انسانی جسم کسی عجوبے سے کم نہیں مگر یقین کرنا مشکل ہوگا کہ جسمانی طور پر ارتقا کا عمل مسلسل جاری ہے۔

یہ دعویٰ ایک نئی تحقیق میں سامنے آیا ہے۔

ایڈیلیڈ یونیورسٹی کی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ انسانی کہنیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ ہم اب بھی ارتقائی مراحل سے گزر رہے ہیں۔

19 ویں صدی کے اواخر کے بعد سے اس ارتقائی عمل میں نمایاں اضافہ ہوا ہے جس کا تعلق خون کی ایک رگ میڈین آرٹری سے ہے۔‎

ماں کے پیٹ میں یہ مرکزی شریان ہوتی ہے جو کہنیوں اور ہاتھ تک خون پہنچاتی ہے، مگر پیدائش کے چند ہفتوں بعد یہ رگ غائب ہوجاتی ہے اور اس کی جگہ ریڈیل اور النر نامی رگیں لے لیتی ہیں۔

مگر اب محققین نے دریافت کیا ہے کہ یہ رگ نہ صرف کچھ افراد کے ہاتھوں میں موجود رہتی ہے بلکہ ایسے افراد کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔

تحقیق میں تخمینہ لگایا گیا کہ ہر 3 میں سے ایک فرد میں اب یہ رگ باقی رہتی ہے اور یہ اگلے 80 سال تک برقرار رہے گا، تاہم پھر یہ انسانی کہنیوں میں مزید عام ہوتی چلی جائے گی۔

جب یہ شرح 50 فیصد سے زیادہ ہوجائے گی تو پھر یہ غیرمعمولی کی بجائے انسانی جسم کا ایک نیا نارمل حصہ بن جائے گا۔

محققین نے اس تبدیلی کو ‘ننھا انقلاب’ قرار دیا اور ان کے تخمینے کے مطابق موجودہ عہد کے انسان گزشتہ ڈھائی سو برسوں میں سب سے زیادہ تیزی سے ارتقا کے عمل سے گزر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 18 ویں صدی کے بعد علم الابدان کے ماہرین بالغ افراد میں رگ کی موجودگی پر تحقیقی کام کررہے ہیں اور ہماری تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ ایسے افراد کی شرح میں بہت تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔

1880 کی دہائی میں پیدا ہونے والے صرف 10 فیصد افراد میں یہ رگ ہوتی تھی جبکہ 20 ویں صدی کے آخر میں یہ 30 فیصد تک پہنچ گئی، تو یہ بہت کم وقت میں نمایاں اضافہ ہے۔

محققین نے بتایا کہ یہ اضافہ جینز میں تبدیلیوں کا نتیجہ ہوسکتا ہے یا دوران حمل ماؤں کے طبی مسائل یا دونوں ہی ہوسکتے ہیں، اگر یہ رجحان برقرار رہا تو 2100 تک لوگوں کی اکثریت میں یہ رگ کہنی میں ہوگی۔

تاہم اس رگ کے برقرار رہنے سے انسانی جسم کو کیا فوائد حاصل ہوں گے، یہ ابھی واضح نہیں مگر محققین کا ماننا ہے کہ یہ جسمانی خصوصیت کہنی اور ہاتھ میں خون کی فراہمی کو بڑھائے گی۔

انہیں تو یہ بھی توقع ہے کہ جسم کے کسی اور حصے میں شریانوں کو نقصان پہنچنے پر آپریشن کے لیے کہنی کی اس رگ کو متبادل کے طور پر استعمال کیا جاسکے گا۔

محققین کے مطابق یہ رگ ان چند مثالوں میں اضافہ ہے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وقت کے ساتھ انسانی جسم میں کس طرح تبدیلی آرہی ہے۔

جیسے عقل داڑھ سے محروم افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے یا گھٹنے کی پشت پر ایک چھوٹی ہڈی رکھنے والے افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے۔