Site icon DUNYA PAKISTAN

لیاقت علی خان: پاکستان کے پہلے وزیراعظم کا قتل سات دہائیوں بعد بھی ایک معمہ

Share

آج 16 اکتوبر ہے۔ 69 برس قبل آج ہی کے دن پاکستان کے پہلے وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں ایک جلسہ عام کے دوران گولی مار کر قتل کر دیا گیا تھا۔

آج اس واقعے کو ہوئے لگ بھگ سات دہائیاں گزر چکی ہیں مگر اب تک یہ طے نہیں ہو سکا کہ پاکستان کی تاریخ کا رُخ بدلنے والا یہ واقعہ کسی بڑی سازش کا شاخسانہ تھا یا کسی انتہاپسند کا انفرادی فعل۔

اِس قتل کے دس روز بعد ہی یعنی 25 اکتوبر 1951 کو اُس وقت کی حکومت نے قتل کی تحقیقات کے لیے ایک کمیشن تشکیل دے دیا تھا جو فیڈرل کورٹ کے جج جسٹس محمد منیر کی سربراہی میں پنجاب کے مالیاتی کمشنر جناب اختر حسین پر مشتمل تھا۔

اس کمیشن کا دائرہ کار لیاقت علی خان کے قتل کے محرکات کا پتا چلانا نہیں بلکہ یہ معلوم کرنا تھا کہ لیاقت علی خان کو کنِ حالات میں قتل کیا گیا، اُس موقع پر حفاظتی اقدامات کیسے تھے، انتظامات کی کمی اور ناکامی کی ذمہ داری کس پر ہے اور کسی ایسی تقریب جہاں صف اول کے قائدین موجود ہوں وہاں سکیورٹی انتطامات کس نوعیت کے ہونے چاہییں۔

اس کمیشن نے اپنی رپورٹ 17 اگست 1952 کو شائع کی تھی۔

درحقیقت اس کمیشن کا دائرہ کار محض انتظامی غفلت کا جائزہ لینا تھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پنجاب اور سرحد (موجودہ صوبہ خیبر پختونخوا) کے پولیس افسران قتل کی تفتیش پر توجہ دینے کی بجائے غفلت کے الزامات کی صفائی پیش کرنے میں مصروف ہو گئے۔

یہی وجہ تھی کہ جب اس کمیشن کی رپورٹ شائع ہوئی تو لیاقت علی خان کی بیوہ بیگم رعنا لیاقت علی خان نے ہی نہیں بلکہ عوام نے بھی اسے مسترد کرنے کا اعلان کر دیا۔

،تصویر کا کیپشنلیاقت علی خان اور رعنا لیاقت بچوں کے ہمراہ

اس کمیشن کی رپورٹ کی اشاعت کے دس دن بعد 26 اگست 1952 کو پاکستان کے انسپکٹر جنرل سپیشل پولیس نوابزادہ اعتزاز الدین کراچی سے بذریعہ ہوائی جہاز پشاور جا رہے تھے جب طیارہ کھیوڑہ کے مقام پر حادثے کا شکار ہوا۔

صاحبزادہ اعتزاز الدین بھی لیاقت علی خان کے قتل کی تفتیش کر رہے تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ اُن کے ساتھ اس کیس کے بعض اہم کاغذات کی فائلیں بھی تھیں جو اس حادثے کے ساتھ ہی جل کر راکھ ہوگئیں۔

حکومت نے اس کمیشن کی رپورٹ پر بیگم رعنا اور عوامی ردعمل کے پیش نظر ایک اور رپورٹ تیار کروائی جس کے لیے سکاٹ لینڈ یارڈ کے ایک معروف سراغ رساں سی ڈبلیو یورین کی خدمات حاصل کی گئیں۔

سی ڈبلیو یورین نے اس خدمت کے عوض 10 ہزار برطانوی پاؤنڈ بطور معاوضہ حاصل کیے اور 28 نومبر 1954 سے 16 جون 1955 تک قتل کی تفتیش کرتے رہے۔ 25 جون 1955 کو ان کی رپورٹ اشاعت کے لیے جاری کی گئی۔

اُن کی تفتیش کا حاصل یہ تھا کہ لیاقت علی خان کا قتل کسی سازش کا شاخسانہ نہیں تھا بلکہ ایک قاتل کا ذاتی فعل تھا۔

اسی دوران محکمہ پولیس نے سی آئی ڈی انسپکٹر شیخ ابرار احمد کو لیاقت علی خان کے قتل کی تفتیش پر مامور کیا۔ شیخ ابرار احمد اس قتل کے وقت جلسہ گاہ میں موجود تھے اور انھی نے لیاقت علی خان کے قاتل سید اکبر پر گولیاں چلانے والے انسپکٹر محمد شاہ کے ہاتھوں سے ریوالور چھینا تھا۔

شیخ ابرار احمد کی تیار کردہ رپورٹ ان کی خود نوشت سوانح ’نقوش زندگی‘ میں شامل ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق لیاقت علی خان کا قتل اگرچہ سید اکبر کا ذاتی فعل تھا تاہم انھوں نے بین السطور بعض اخبارات کو سید اکبر کی ذہنی حالت کو تبدیل کرنے کا ذمہ دار قرار دیا، جن میں لیاقت علی خان اور بیگم رعنا لیاقت علی خان کے خلاف معاندانہ مواد کی اشاعت معمول کی بات تھی اور اسی زمانے میں ایران کے وزیراعظم رزم آرا کے قتل کی خبروں کو غیر معمولی کوریج دی گئی تھی۔

وینکٹ رامانی نے اپنی کتاب ’پاکستان میں امریکہ کا کردار‘ میں تحریر کیا ہے: ’ٹرومین انتظامیہ کو کوریا کی مسلسل جنگ میں اس کی مداخلت کی بنا پر کانگریس کی روز افزوں نکتہ چینی کا سامنا تھا۔ بہت سے نکتہ چینوں کا کہنا تھا کہ امریکہ نے زیادہ تر بوجھ اٹھا رکھا ہے اور اسے زیادہ تر جانی نقصان بھی برداشت کرنا پڑ رہا ہے، جب کہ بہت کم ایشیائی ملکوں نے اس فوجی مہم میں شرکت کی۔ وزیر خارجہ ڈین ایچی سن کا خیال تھا کہ پاکستان کو اقوام متحدہ کی کمانڈ میں اہم کردار ادا کرنے پر آمادہ کرنے کی نئی کوشش کے لیے یہ مناسب وقت تھا۔‘

مزید لکھا گیا کہ ’ڈین ایچی سن نے پاکستان میں امریکی سفیر ایوراوارن کو پاکستانی حکام سے فوری رابطہ کرنے کی ہدایت جاری کرتے ہوئے انھیں ہوشیاری سے رہنمائی بھی فراہم کی۔ جس نکتے پر زور دیا جانا تھا وہ خود اپنی سلامتی کے بارے میں پاکستان کے خدشات تھے۔‘

’ایچی سن نے یہ مشورہ دیا کہ وارن لیاقت علی خان کو یہ یاد دلائیں کہ اگر اقوام متحدہ کے ارکان کوریا کی فوجی مہم میں ٹھوس تعاون فراہم کرنے میں ناکام رہے تو اس کے نتیجے میں اجتماعی سلامتی کا نظام ختم بھی ہو سکتا ہے۔ بلاشبہ پاکستان اس امر سے آگاہ ہے کہ اقوام متحدہ کے دوسرے ملکوں کو بھی کسی روز جارحیت کا نشانہ بننے پر اقوام متحدہ کے وسائل کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔‘

وارن نے 11 مئی 1951 کو یہ مسئلہ لیاقت علی خان کے گوش گزار کیا۔ لیاقت علی خان بھی زیرک سیاست دان تھے انھوں نے اس مسئلے کو الٹنے اور پاکستان کے لیے ممکنہ حد تک بہترین شرائط حاصل کرنے کی کوشش کی۔

وہ سمجھتے تھے کہ امریکہ کی ضرورت پاکستان کے لیے ایک موقع ہے۔ صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے انھوں نے کہاکہ فیصلے کا وقت آ گیا ہے۔

اگر امریکہ ان سے مشرق وسطیٰ میں تعاون یا کوریا میں استعمال کے لیے ایک یا زیادہ ڈویژنوں کی پیشکش کا طلب گار تھا تو پھر وہ پاکستان کے معاملے میں کس قسم کی ذمہ داری قبول کرے گا؟ اگر وہ امریکہ کا ہاتھ پکڑنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو کیا امریکہ کشمیر کے مسئلے پر ان کی حمایت کرے گا؟ نہرو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کے انتخابات کروانے پر تلے ہوئے تھے، نہرو کے طرز عمل کو ناکام بنانے کے لیے امریکہ کیا قدم اٹھائے گا؟ کیا امریکہ پختونستان کا شوشہ ختم کروانے میں پاکستان کی مدد کرے گا؟

امریکہ ان سے ایک ایسے فیصلے کی خواہش کر رہا تھا جو مغرب کے ساتھ ایک ناقابل تلافی رشتے پر دلالت کرتا تھا۔ وہ یہ فیصلہ کرنے پر تیار تھے، کیا امریکہ بھی پاکستان کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرنے پر تیار تھا؟

لیاقت علی خان نے وہ قیمت بیان کر دی تھی جو وہ امریکہ سے وصول کرنا چاہتے تھے۔ ایچی سن نے اس کا جو جواب دیا وہ اس زمانے میں برصغیر کے مسائل کے بارے میں امریکی حکومت کے رویے کی واضح ترین نشاندہی کرتا ہے۔

،تصویر کا کیپشنامریکی وزیر خارجہ وزیر ڈین ایچی سن

انھوں نے اپنے سفیر وارن کو مطلع کیا کہ اگر لیاقت علی خان فوج فراہم کرنے کی پیشکش کو امریکہ کی طرف سے کشمیر اور پختون مسائل پر مکمل اور غیر مشروط حمایت سے منسلک کرتے ہیں تو یہ ان کے لیے قابل قبول نہیں۔ اس قسم کا امریکی اقدام انڈیا اور افغانستان کی حکومتوں کو مکمل طور پر برگشتہ کرنے کا موجب بنے گا۔

جہاں تک ایچی سن کا تعلق تھا کوریا کے لیے پاکستانی فوج کی پیشکش کو کوریا کے براہ راست تعلق نہ رکھنے والے دوسرے مسائل پر دوررس سیاسی حمایت سے سودے بازی کی بنا پر قبول نہ کیا جا سکتا تھا۔

اب سے چند برس پہلے امریکہ کے نیشنل آرکائیوز ڈپارٹمنٹ نے اپنی دستاویزات عوام کی رسائی کے لیے کھولیں تو ان میں ایسے خطوط اور ٹیلی گرام بھی موجود نظر آئے جن کے مطالعہ سے لیاقت علی خان کے قتل کی بعض گرہیں کھلتی نظر آتی ہیں۔

ان میں پہلی دستاویز سات ستمبر 1951 کو کراچی میں امریکی سفیر ایواروارن کی جانب سے امریکی وزیر خارجہ ایچی سن کے نام بھیجا گیا ایک ٹیلی گرام ہے جس کا نمبر ہے 251 اور اس پر ’کانفیڈینشل‘ کے الفاظ تحریر ہیں۔

اس ٹیلی گرام کے مطابق اس شام پاکستان کے وزیر خزانہ غلام محمد نے امریکی سفیر سے چائے پر ملاقات کی۔ سفیر کے مطابق غلام محمد شدید بیماری کے بعد تیزی سے صحت یاب ہو رہے تھے۔ غلام محمد نے وارن سے درخواست کی کہ وہ حسب ذیل پیغام امریکی وزیر خارجہ تک پہنچا دیں۔

’اگلے ہفتے ظفر اللہ خان واشنگٹن پہنچ رہے ہیں۔ ازراہ کرم ان سے ملاقات کر لیجیے۔ انھیں توقع ہے کہ آپ ان سے اپنے گھر پر ملاقات کریں گے اور انھیں ہیری مین سے ملاقات کے لیے بھی وقت دلوا دیں گے۔‘ (یہاں ہیری مین سے مراد غالباً ہیری ایس ٹرومین ہے جو اس وقت امریکہ کے صدر تھے)۔

امریکی سفیر وارن نے اس ٹیلی گرام میں مزید لکھا کہ غلام محمد کہتے ہیں کہ وہ پاکستان کی تعمیر اور مسلم دنیا کو کمیونزم کے خلاف منظم کرنے کا نصب العین پورا کیے بغیر مرنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔۔۔ ان کی خواہش ہے کہ آپ یہ بات جان لیں کہ ظفر اللہ خان، گورمانی اور خود انڈیا کی چھیڑخانی کو جنگ میں تبدیل نہیں ہونے دیں گے۔ وہ دسمبر میں تین ہفتے کے لیے امریکہ آنا چاہتے ہیں اور اس موقع پر آپ سے ملاقات کا خواہاں ہیں۔

اس پورے بیان میں وزیراعظم لیاقت علی خان کا کوئی ذکر موجود نہیں۔ غلام محمد اپنے اس پیغام میں امریکی وزیر خارجہ کو جس امر کی یقین دہانی کروا رہے تھے وہ یہ تھا کہ وہ اور ان کے دو رفقا، انڈیا کی چھیڑخانی کو جنگ میں تبدیل نہیں ہونے دیں گے۔

ایک نو آزاد ملک کے وزیر خزانہ کو ایک عالمی طاقت کے وزیر خارجہ کو یہ یقین دہانی کروانے کی ضرورت کیوں پیش آئی، اس کا سبب وینکٹ رامانی کی کتاب کے اوپر درج کیے اقتباس سے بخوبی ہو جاتا ہے۔ اسی زمانے میں 27 جولائی 1951 کو لیاقت علی خان نے عوام سے خطاب کرتے ہوئے انڈیا کو ’مکا‘ دکھایا تھا۔

،تصویر کا کیپشنجواہر لال نہرو اور غلام محمد

اس ٹیلی گرام سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ غلام محمد اپنی علالت کے باعث کاروبار حکومت چلانے کے لیے مکمل طور پر ’فٹ‘ نہیں تھے۔ اندرونی اطلاعات یہ بھی تھیں کہ انھیں اور گورمانی کو ان کے عہدوں پر ہٹایا جانے والا تھا۔ لیاقت علی خان سردار عبدالرب نشتر کو نائب وزیراعظم اور نواب محمد اسماعیل کو پنجاب کا گورنر بنانا چاہتے تھے۔

امریکی سفیر سے غلام محمد کی اس ملاقات سے بارہ دن پہلے 25 اگست 1951 کو لیاقت علی خان نے امریکی وزیر خارجہ کے نام ایک خط تحریر کیا جس میں پاکستان کے لیے دفاعی سازو سامان کی درخواست کی گئی تھی۔

خط کے مشمولات کی اہمیت کے پیش نظر اسے ڈاک یا کسی اور ذریعہ سے بھیجنے کی بجائے سیکریٹری خارجہ اکرام اللہ کے ہاتھ بھیجا جانا زیادہ محفوظ اور مناسب خیال کیا گیا۔ مگر اتنا اہم خط، جو ایک ملک کے وزیراعظم نے ایک عالمی طاقت کے وزیر خارجہ کو تحریر کیا تھا، دو ماہ کی غیر معمولی تاخیر کے بعد اس وزیراعظم کے قتل کے دو دن بعد 18 اکتوبر 1951 کو امریکی وزیر خارجہ کو پہنچایا گیا۔

لیاقت علی خان کے قتل کے آٹھ دن بعد ایک رپورٹ نما مضمون بھوپال سے شائع ہونے والے اردو روزنامہ ’ندیم‘ میں شائع ہوا۔ اس مضمون کی سرخی تھی ’کیا لیاقت علی خان کا قتل امریکہ کی گہری سازش کا نتیجہ ہے۔‘

30 اکتوبر 1951 کو دلی میں امریکہ کے سفارت خانے نے اس مضمون کی تلخیص کا ترجمہ ایک خفیہ ٹیلی گرام کے ذریعہ امریکی وزارت خارجہ کو روانہ کیا۔

مضمون کی تلخیص کچھ یوں کی گئی تھی: ’پاکستان کی وزارت خارجہ کے مطابق برطانیہ نے پاکستان پر ایران کے سلسلے میں تعاون کرنے کا دباؤ ڈالا۔ امریکہ نے پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ ایران پر اثر و رسوخ استعمال کر کے اس پر دبائو ڈالے کہ ایران تیل کے کنویں امریکہ کے حوالے کر دے۔ لیاقت علی خان نے امریکہ کی درخواست مسترد کر دی۔‘

’امریکہ نے کشمیر پر خفیہ معاہدہ ختم کرنے کی دھمکی دی۔ لیاقت نے کہا کہ پاکستان نے امریکہ کے تعاون کے بغیر آدھا کشمیر لے لیا باقی کشمیر بھی پاکستان حاصل کر لے گا، لیاقت نے امریکہ سے ہوائی اڈے خالی کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ لیاقت کا مطالبہ واشنگٹن پر بم بن کر گرا۔‘

’امریکہ کے حکمران پاکستان کے ہوائی اڈوں سے روس کو فتح کرنے کے جو خواب دیکھ رہے تھے وہ چکنا چور ہو گئے۔ امریکہ نے لیاقت کو قتل کرانے کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا۔ امریکہ چاہتا تھا کہ قاتل مسلمان ہو تاکہ بین الاقوامی پیچیدگیاں دور کی جا سکیں۔ امریکہ پاکستان میں کوئی باغی تلاش نہ کر سکا جیسا کہ وہ ایران، عراق اور ایران میں کامیاب رہا تھا۔‘

’امریکی حکمرانوں نے یہ ذمہ داری کابل کے امریکی سفارت خانے کو سونپی۔ سفارت خانے نے پشتون لیڈروں سے رابطہ کیا اور انھیں یقین دلایا کہ اگر لیاقت علی کو قتل کروا دیا جائے تو امریکہ 1952 تک پختونستان قائم کرا دے گا۔ پشتون لیڈروں نے سید اکبر کو قتل کی ترغیب دی اور اسے بھی موقع پر ہی قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تاکہ سازش کا پتا نہ چل سکے۔‘

’امریکی حکومت کے لیاقت علی خان کے ساتھ اختلافات ’گراہم‘ کی رپورٹ سے ظاہر ہوئے جو اس نے سپریم کورٹ میں پیش کی۔ گراہم نے اچانک پاکستان کی مخالفت شروع کر دی تھی حالانکہ پہلے کبھی اس نے اشارہ نہیں دیا تھا، لیاقت کے جسم سے ملنے والے خالی کارتوس امریکی ساختہ تھی جن کو اعلیٰ امریکی افسر استعمال کرتے ہیں اور وہ مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہیں۔‘

ندیم اپنے مضمون میں لکھتا ہے کہ ’جب گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین نے بیگم رعنا لیاقت علی خان کو ان کے شوہر کے قتل کی خبر سنائی اور ان سے تعزیت کی، تو اس سے ساڑھے تین منٹ پہلے، امریکی سفیر بیگم صاحبہ کو یہ خبر سنا کر تعزیت کر چکے تھے۔ یہ تمام عوامل ثابت کرتے ہیں کہ ملزم امریکی ہے جس نے پہلے ہی مشرق وسطیٰ میں ایسے جرم کیے ہیں۔‘

،تصویر کا کیپشنفاطمہ جناح، محمد علی جناح، رعنا لیاقت اور لیاقت علی خان

اس ٹیلی گرام کی کاپی جب کراچی میں امریکی سفارت خانے کو موصول ہوئی تو اس نے اگلے ہی روز (31 اکتوبر 1951 کو) اپنی وزارت خارجہ کو مطلع کیا کہ دہلی کے سفارت خانے نے امریکی وزارت خارجہ کو جس مضمون کی تلخیص روانہ کی ہے اسے نظر انداز کر دیا جائے کیونکہ یہ مضمون غلط بیانی کا شاہکار ہے اور اس کے مختلف اجزا ممبئی کے اخبار بلٹز سے حاصل کیے گئے ہیں۔ ’ندیم‘ ایسا اخبار نہیں کہ اسے اتنی اہمیت دی جائے۔‘

امریکی سفارت خانہ کراچی ٹیلی گرام: 31 اکتوبر 1951

ایک روز بعد یکم نومبر 1951 کو امریکی وزارت خاجہ نے دہلی کے امریکی سفارت خانے کو مطلع کیا کہ: ’چونکہ ظاہری طور پر اس آرٹیکل کی زیادہ تشہیر نہیں ہوئی، وزارت خارجہ کا خیال ہے کہ اس کی عوامی تردید نہیں کی جانی چاہیے۔ سفارت خانہ اگر مناسب سمجھے تو وہ غیر رسمی طور پر یہ بے بنیاد کہانی اپنے تاثرات کے ساتھ ایم ای اے (MEA) کو بھیج سکتی ہے البتہ عوامی سطح پر ہرگز اس کی تردید نہ کی جائے، ہم جاننا چاہیں گے کہ کیا اس کہانی کی اشاعت کے ردعمل کے طور پر پریس کے قوانین بنائے گئے ہیں۔ ‘ندیم’ کی انتظامیہ کے بارے میں خفیہ طور پر تحقیقات کی جائیں۔‘

امریکی وزارت خارجہ کا خفیہ ٹیلی گرام: یکم نومبر 1951

دہلی میں امریکی سفارت خانے اور واشنگٹن میں امریکی وزارت خارجہ کے حکام کے ساتھ ساتھ کراچی میں امریکی سفارت خانہ بھی لیاقت علی خان کے قتل کی اطلاعات امریکی حکام کو فراہم کرنے میں مستقل فعال رہا۔

یہ سلسلہ 16 اکتوبر 1951 کی شام شروع ہوا۔ ان خفیہ دستاویزات کو www.icdc.com کی ویب سائٹ پر ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ تاہم ان میں سے چند منتخب دستاویزات کا ترجمہ حسب ذیل ہے۔

’لاہور سے اطلاع موصول ہوئی ہے کہ آج شام راولپنڈی میں لیاقت کو گولی مار دی گئی جہاں وہ مسلم سٹی لیگ کے جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔ ان کے سینے میں دو گولیاں لگیں۔ ہسپتال کی رپورٹ کے مطابق گولیوں سے لگنے والے زخم گہرے تھے۔ مشتعل ہجوم نے قاتل کو جائے واردات پر قتل کر دیا۔‘

امریکی سفارت خانہ کراچی کا ٹیلی گرام: 16 اکتوبر 1951

’وزیراعظم کو اسلام لیگ کے جنونیوں نے قتل کر دیا۔ ملک میں بدامنی کی کوئی رپورٹ موصول نہیں ہوئی۔ سفارت خانے کو بتایا گیا کہ کل گورنر جنرل کی صدارت میں کابینہ کا اجلاس منعقد ہو گا جس میں وہ ممکنہ طور پر عارضی وزیراعظم کا عہدہ بھی سنبھال لیں گا۔‘

امریکی سفارت خانہ کراچی کا ٹیلی گرام: 16 اکتوبر 1951

’اگرچہ مقبول عام رائے یہ ہے کہ لیاقت کے قتل میں خاکسار (تحریک) ملوث ہیں حکومت کی اعلیٰ اتھارٹی نے سفارت خانے کو مطلع کیا ہے کہ قاتل سید اکبر افغان باشندہ ہے جو پختونستان کی تحریک، اپنے بھائی کی سیاسی نظر بندی اور پاکستان حکومت کے کشمیر کے بارے میں محتاط رویے سے متاثر ہوا اور لیاقت علی خان کے قتل پر مائل ہوا، قاتل کشمیر کی جنگ میں شریک ہو چکا تھا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اس کے افغان رابطے کی خبر پریس کو جاری نہیں کی جائے گی۔ قاتل 14 اکتوبر کو ایبٹ آباد سے راولپنڈی کے لیے روانہ ہوا۔ سیکریٹری جنرل محمد علی کی صدارت میں موجود وزیروں کی ہنگامی میٹنگ ابھی ختم ہوئی ہے۔ جانشین کا ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا۔

امریکی سفارت خانہ کراچی ٹیلی گرام 16 اکتوبر1951

’حکومت کا محکمہ اطلاعات (پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ) اب قومی پریس کو بتا رہا ہے کہ قاتل افغان باشندہ تھا، پریس انفارمیشن آفیسر نے کہا ہے کہ وہ جدران قبیلے سے تعلق رکھتا تھا۔ رائے عامہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر عوام نے اس اطلاع پر یقین کر لیا تو وہ جنگ کا مطالبہ کریں گے۔‘

امریکی سفارت خانہ کراچی ٹیلی گرام 17 اکتوبر 1951

’میں نے ابھی غلام محمد (وزیر خزانہ) سے بات کی ہے اس نے آپ کو خیر سگالی کا پیغام بھجوایا ہے۔ انھوں نے کہا کہ وہ لیاقت کی موت کی غم کو بڑے اچھے طریقے سے برداشت کر رہے ہیں اور اہم فیصلے کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں جو ان کے گورنر جنرل کے منصب اور خواجہ نظام الدین کے وزارت عظمیٰ کے منصب پر نامزدگی کے بعد ضروری ہو گئے ہیں۔ دونوں کل چار بجے اپنے عہدوں کا حلف اٹھائیں گے۔‘

،تصویر کا کیپشنلیاقت علی خان آخری جلسے سے خطاب کر رہے ہیں

امریکی سفارت خانہ کراچی ٹیلی گرام 18 اکتوبر 1951

’آج سہ پہر میں نے غلام محمد کے ساتھ چائے پی جو راولپنڈی سے ٹرین کا سفر کرنے کے بعد کراچی پہنچے تھے۔ اس پر سفر کی تکان کے آثار نہیں تھے اور اس کی افاقہ یاب صحت پر گذشتہ دو دن کے صدموں نے کچھ اثر نہ کیا تھا وہ کل چار بجے گورنر جنرل کی حیثیت سے حلف اٹھائیں گے اور بعد میں وزیراعظم خواجہ ناظم الدین سے حلف لیں گے۔ نئی کابینہ کا اعلان جلد بازی میں نہیں کیا جائے گا۔ وقتی طور پر لیاقت کابینہ کام کرتی رہے گی۔‘

امریکی سفارت خانے کا ٹیلی گرام 18 اکتوبر 1951

حکومت پاکستان نے سابق وزیراعظم لیاقت علی خان کے قاتل کی شناخت کر لی ہے۔ اس کا نام سید اکبر ولد ببرک خان ہے۔ اگر یہ دعویٰ درست ہے تو سید اکبر نے اپنے بھائی زمرک کے ساتھ مل کر 1944 میں افغان حکومت کے خلاف بغاوت کی تھی۔

وہ المارہ جادران کا رہائشی تھا جو افغانستان کے جنوبی صوبہ میں واقع ہے۔ سرکاری فورسز سے شکست کھانے کے بعد دونوں بھائی مفرور ہوگئے کچھ عرصہ وہ ادھر ادھر پھرتے رہے اس کے بعد دونوں نے اپنے آپ کو برطانوی فرنٹیئر اتھارٹی کے سامنے پیش کر دیا۔

ان کو ایبٹ آباد میں نظر بند کر دیا گیا اور انھیں باقاعدہ تنخواہ دی جانے لگی۔ بھارت کی تقسیم کے بعد حکومت پاکستان نے سید اکبر کو سیاسی پناہ دے دی، یہ بات صاف ظاہر ہے کہ سید اکبر کا افغانستان سے کوئی تعلق نہ تھا۔

18 اکتوبر 1951

سیکریٹری دفاع اسکندر مرزا نے کل کابینہ کے اجلاس سے پہلے مجھ سے ملاقات کی اور مجھے بتایا کہ قاتل افغان باشندہ تھا اور اس کے پاس سے رقم برآمد ہوئی ہے۔ انھوں نے مجھ سے مشورہ طلب کیا کہ کیا اس بات کی تشہیر کی جا سکتی ہے۔ میں نے پوچھا کہ کیا یہ بات حقیقت پر مبنی ہے انھوں نے اثبات میں جواب دیا۔ میں نے کہا کہ اس بات کی تشہیر رائے عامہ پر منفی اثرات مرتب کرے گی، انھوں نے مجھ سے اتفاق کیا۔

امریکی سفارت خانہ کراچی ٹیلی گرام 19 اکتوبر 1951

پاکستان کی خفیہ ایجنسی کے قابل اعتماد ذرائع نے رپورٹ دی ہے کہ حکومت پاکستان کو پشاور میں افغان قونصلر کی سرگرمیوں کا علم تھا جنھوں نے حالیہ دنوں میں سید اکبر سے کئی بار رابطے کیے تھے۔

امریکی سفارت خانہ کراچی ٹیلی گرام 19 اکتوبر 1951

لیاقت علی خان کے قتل پر بنگالی پریس کا ردعمل: بنگالی اخبارات نے تشدد کی حوصلہ شکنی کی ہے۔ بائیں بازو کے اخبارات جن میں کمیونسٹ اخبار ‘سوادھنینا’ شامل ہے لکھا ہے کہ لیاقت کے قتل کے اثرات اینگلو، امریکن بلاک کے لیے نقصان دہ ثابت ہوں گے۔

اخبار نے ناظم الدین کے لیے لکھا ہے کہ وہ مغرب کے لیے تعصب رکھتے ہیں اور وہ کوشش کریں گے کہ نئے سیٹ اپ میں سہروردی کو مناسب اہمیت مل سکے۔ ان اخبارات نے خیال ظاہر کیا ہے کہ لیاقت کا قتل بھی اسی گروپ کی کارروائی کا نتیجہ ہے جس کے کچھ افراد چند ماہ پیشتر مارچ 1951 میں حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش میں پکڑے گئے تھے۔

کلکتہ میں مقیم قونصلیٹ جنرل کا محدود ٹیلی گرام 19 اکتوبر 1951

آج افغان سفارت خانے نے 18 اکتوبر کو کابل سے موصول ہونے والے ایک اعلامیے کا ترجمہ مقامی اخبارات کے لیے جاری کیا۔

اس اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اگر حکومت پاکستان کا یہ کہنا مان لیا جائے کہ لیاقت کا قاتل سید اکبر افغان قومیت رکھتا تھا تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ سید اکبراور اس کا بھائی (زمرک) 1944 میں حکومت ہندوستان کے خلاف بے امنی پھیلانے میں ملوث تھے۔ کابل کے سفارت خانے نے درخواست کی کہ معاملے کی سنگینی کے پیش نظر قاتل کی قومیت کے معاملات عوام کے سامنے نہ لائے جائیں ورنہ عوام میں بدگمانیاں جنم لیں گی۔

،تصویر کا کیپشنلیاقت علی خان کے قتل کے بعد ان کی اہلیہ رعنا لیاقت کو سفیر بنا کر بھیج دیا گیا

امریکی سفارت خانہ ٹیلی گرام 20 اکتوبر 1951

کابل میں برطانوی سفارت خانے کے کلرک نے تصدیق کی ہے کہ اس نے 16 اکتوبر کو مصری سفارت خانے سے پشاور سے کابل جانے کے لیے گاڑی مانگی تھی تو اسے بتایا گیا تھا کہ یہ گاڑی افغان قونصل پہلے ہی مانگ چکا ہے۔ گو اس واقعہ کو قتل کے واقعے کے ساتھ منسلک کرنا مناسب نہیں، تاہم برطانوی سفارت خانے کا کلرک اسے ریکارڈ پر لانے پر مصر تھا۔

افغانستان پریس میں سید اکبر کے حالات شائع ہوئے ہیں جن کے مطابق وہ اس کا بھائی زمرک افغان صوبے خوست کے رہنے والے ہیں اور ان کا تعلق جدران قبیلے سے ہے تاہم وہ 1945 میں بھاگ کر جنوبی وزیرستان چلے گئے تھے۔

بعدازاں سید اکبر نے ایبٹ آباد میں سکونت اختیار کی جہاں اسے برطانوی حکومت کی جانب سے ایام جنگ میں بعض خفیہ امور انجام دینے پر وظیفہ ملا کرتا تھا۔ اخبار نے یہ الزام بھی لگایا کہ سید اکبر سرخ پوش تنظیم کا رکن بھی رہ چکا ہے۔

امریکی سفارت خانہ کابل ٹیلی گرام 21 اکتوبر 1951

راولپنڈی اور پشاور میں اس رپورٹ کو تسلیم کیا جا رہا ہے کہ افغان قونصلر لیاقت علی کے قاتل کو پیسے دیا کرتا تھا۔ ایک خبر کے مطابق افغان قونصلر نے اپنی کار پر افغان سرحد کا دورہ کیا اور اپنے پاکستانی ڈرائیور کو اجرت دے کر فارغ کر دیا۔

ڈرائیور کو اس دورے کے بارے میں پہلے علم نہ تھا جب وہ پشاور واپس پہنچا تو اس نے اپنے دوستوں اور خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں کو قونصلر کے دورے کے بارے میں بتایا۔ بہت سے غیر سرکاری افراد سے گفتگو کرنے پر معلوم ہوا کہ پشتون مناسب پیسے لے کر قاتل فراہم کرتے ہیں۔ قاتل سید اکبر بھی پشتون نسل سے تعلق رکھتا تھا۔

امریکی سفارت خانہ کراچی ٹیلی گرام 22 اکتوبر 1951

افغان سفارت خانے نے بتایا کہ سید اکبر اور ان کے بھائی (زمرک) 1944 میں افغان حکومت کی خلاف ہونے والی بغاوت میں شامل تھے۔ اس بغاوت میں شکست کے بعد وہ سرحد پار کر کے ہندوستان چلے گئے جہاں انھوں نے خود کو برطانوی حکام کی پناہ میں دے دیا۔

بعض نامعلوم وجوہ کی بنا پر برطانوی حکام نے انھیں ایبٹ آباد میں جو ضلع ہزارہ کا مرکز ہے سائبان فراہم کر کے ان کا وظیفہ مقرر کر دیا۔ تقسیم کے بعد سید اکبر کی خدمات حکومت پاکستان نے حاصل کر لیں اور اس کا وظیفہ برقرار رکھا۔ حکومت افغانستان اور افغان عوام کا قاتل کے ساتھ کوئی رابطہ ثابت نہیں ہو سکا۔

امریکی سفارت خانہ ماسکو ٹیلی گرام 26 اکتوبر 1951

نیشنل آرکائیوز ڈپارٹمنٹ امریکہ میں عوام کی رسائی کے لیے کھولی جانے والی ان دستاویزات میں لیاقت علی خان کے قتل کے حوالے سے محفوظ کیے گئے اور بھی متعدد خطوط اور ٹیلی گرام موجود ہیں جن کا سلسلہ 23 اکتوبر 1954 تک جاری نظر آتا ہے۔

ان خطوط اور ٹیلی گرامز کی تعداد سینکڑوں میں ہے اور ان کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکی سفارت خانہ کراچی اور وزارت خارجہ واشنگٹن اس معاملے میں گہری دلچسپی لیتے رہے ہیں۔

17 اگست 1952 کو حکومت نے منیر کمیشن کی رپورٹ کا خلاصہ اخبارات کے لیے جاری کیا تو اس وقت بھی امریکی سفارت خانے نے امریکی وزارت خارجہ کو اس رپورٹ کے بارے میں عوامی جذبات سے مطلع کیا اور لکھا کہ سفارت خانے کو یقین ہے کہ کمیشن کی رپورٹ مبہم ہے اور کسی نتیجے پر نہیں پہنچتی جس کی وجہ سے کابینہ اسی مقام پر کھڑی نظر آتی ہے جہاں وہ اس کمیشن کے قیام سے پہلے تھی۔ ممکن ہے کہ کمیشن کی اصل رپورٹ میں کوئی بات وضاحت سے کہی گئی ہو تاہم اس کے خلاصے میں کوئی بات واضح نہیں ہے۔

امریکی سفارت خانہ کراچی ٹیلی گرام 18 اکتوبر 1952

30 اگست 1952 کو امریکی سفارت خانے نے 24 سے 29 اگست 1952 کے دوران پیش آنے والے سیاسی اور اقتصادی واقعات کی تلخیص اپنی وزارت خارجہ کو روانہ کی تو اس میں صاحبزادہ اعتزاز الدین کے قتل کی خبر شامل تھی۔

تلخیص میں کہا گیا تھا کہ ہوائی حادثے میں انسپکٹر جنرل پولیس کی ہلاکت نے متعدد افواہوں کو جنم دیا ہے۔ پریس کا دعویٰ ہے کہ صاحبزادہ اعتزاز الدین، لیاقت علی خان کے قتل کی خفیہ طور پر تحقیق کر رہے تھے۔ قائد حزب اختلاف اور جناح عوامی لیگ کے سربراہ حسین شہید سہروردی نے بھی حکومت پنجاب کو مورد الزام ٹھہرایا ہے کہ اس نے صاحبزادہ اعتزاز الدین کی حفاظت کے خاطر خواہ انتظامات نہیں کیے۔

اس سے اگلے ہفتے نو ستمبر 1952 کو امریکی سفارت خانے نے اپنی اسی نوعیت کی ایک اور رپورٹ میں اس معاملے پر مزید روشنی ڈالی اور اپنی وزارت خارجہ کو مطلع کیا کہ ہوائی حادثے میں صاحبزادہ اعتزاز الدین کی ہلاکت کی تفتیش کرنے والی کمیٹی اس پہلو پر بھی تفتیش کر رہی ہے کہ صاحبزادہ اعتزاز الدین اپنے ہمراہ قتل کی جو دستاویزات لے کر پشاور جا رہے تھے ان میں کتنی دستاویزات حادثے کے بعد محفوظ رہ سکی ہیں۔

منیر کمیشن کی رپورٹ کی اشاعت اور صاحبزادہ اعتزاز الدین کی ناگہانی ہلاکت نے لیاقت علی خان کے قتل کے معاملے کو مزید پراسرار بنا دیا، جس کے بعد حکومت کو اس قتل کی تفتیش کے لیے سکاٹ لینڈ یارڈ کے سراغ رساں سی ڈبلیو یورین کی خدمات حاصل کرنی پڑی۔

حکومت نے بیگم رعنا لیاقت علی خان کو ہالینڈ میں پاکستان کا سفیر مقرر کر دیا تاکہ انھیں خاموش کرایا جا سکے۔ امریکی وزارت خارجہ کی خفیہ دستاویزات میں لیاقت علی خان قتل کیس کے حوالے سے جو آخری دستاویز موجود ہے وہ 16 اکتوبر 1954 کو بیگم رعنا لیاقت علی خان کا جاری کردہ ایک بیان ہے جو انھوں نے ہالینڈ کے دارالحکومت ہیگ سے جاری کیا تھا۔

اس بیان میں انھوں نے چھ سوالات اٹھائے تھے: ’(1) ایک ایسے موقع پر جب لیاقت علی خان ایک اہم پالیسی بیان دینے والے تھے اور اپنی مقبولیت کی انتہا پر تھے انھیں کیوں قتل کردیا گیا؟ (2) قاتل کو ایسے موقع پر جب وہ بے بس کیا جا چکا تھا کیوں ہلاک کر دیا گیا؟ (3) قاتل پر گولی چلانے والے پولیس اہلکار کو سزا دینے کی بجائے ترقی کیوں دی گئی؟ (4) ملک میں چند اہم اور بااثر افراد لیاقت علی خان کو اپنے راستے سے کیوں ہٹانا چاہتے تھے؟ (5) قائد اعظم کی شخصیت اور ان کے نام کو بعض اہم معاملات میں کیوں نظر انداز کیا جا رہا ہے؟ (6) ان تمام سوالات کے جوابات فراہم کیوں نہیں کیے جاتے؟‘

محترمہ رعنا لیاقت علی خان کے اٹھائے گئے یہ سوالات آج بھی اپنے جواب کے منتظر ہیں۔

Exit mobile version