کالم

ناروے میں چند دن

Share

ایک ہاتھ میں سوٹ کیس تھامے اور دوسرا ہاتھ جیکٹ کی جیب میں ڈالے، میں بے خیالی کے عالم میں کھڑی تھی جب پیچھے سے ایک آواز ابھری۔ اسلام علیکم میم۔۔۔ ڈھیروں شاگردوں کے منہ سے ہر روز درجنوں مرتبہ یہ الفاظ سننا میرے معمولات حیات کا حصہ ہے۔ حسب معمول میں نے وعلیکم اسلام کہا۔ اسکے بعد رسما (اور اخلاقا) آواز کے تعاقب میں پلٹ کر دیکھا تو میری بہت اچھی شاگرد مہوش کھڑی مسکرا رہی تھی۔ اس لمحے میں اپنے خیالات سے چونکی اور مجھے احسا س ہوا کہ میں کسی یونیورسٹی کے احاطے میں نہیں، بلکہ دوحہ کے حمد انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر موجود ہوں۔ مہوش کو دیکھ کر مجھے خوشگوار حیرت ہوئی۔ وہ امریکہ جا رہی تھی۔ جبکہ میری منزل ناروے تھی۔ کہنے لگی کہ میں کل رات آپ کو ٹیلی فون کرنا چاہتی تھی مگر پھر خیال آیا کہ اپنا تھیسز مکمل کیے بغیر امریکہ جانے پر آپ سے ڈانٹ پڑے گی۔ میں پریشان تھی کہ واپس آکر آپ سے کس طرح ملوں گی اور دیکھیں آج یہاں پر ملاقات ہو گئی۔ میں نے اسے تسلی دی اور کہا کہ کوئی بات نہیں۔ اور بھی غم ہیں زمانے میں پڑھنے لکھنے کے سوا۔ البتہ ساتھ ہی اسے مقالہ (thesis) جلد مکمل کرنے اور اپنا کام وقت سے پہلے نمٹانے کے نصف درجن فوائد گنوا ڈالے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بزرگانہ نصیحت کی کہ زندگی میں اپنا ہر کام مقررہ وقت (deadline) سے پہلے مکمل کرنے کی عادت اپناو۔ہمیشہ سکھی رہو گی۔جب میں مہوش کو یہ پر مغز لیکچر(بلکہ بھاشن) دے رہی تھی تب مجھے خیال آیا کہ میرے تحقیقی مضمون (research article) کا کچھ کام ابھی تک ادھورا پڑا ہے۔ ایک دن بعد مجھے یہ مضمون ایک انٹرنیشنل کانفرنس میں پیش کرنا ہے۔ اصولی طور پر یہ کام اب تک سمٹ جانا چاہیے تھا۔ میں نے سوچا، دوسروں کو نصیحت، خود میاں فضیحت۔
آپس میں گپ شپ کرتے ہم دونوں آگے بڑھے۔ انتہائی مختصر پڑاو (stopover) کے بعد ہمیں اپنی اپنی منزل کی جانب روانہ ہوجانا تھا۔ دوحہ ہوائی اڈے پر نصب کانسی رنگ بھالو کے مجسمے کے قریب پہنچ کر ہم دونوں رک گئے اورکچھ تصویریں بنوائیں۔ مہوش کا خیال تھا کہ یہ بد شکل بھالو، بہت ہی بیہودہ اور وحشت ناک دکھائی دیتا ہے۔ مجھے اس کے خیالات پر ہنسی آئی۔ برسوں پہلے میں نے کہیں پڑھا تھا کہ یہ قیمتی بھالو (lamp bear) جسکا سر ایک بڑے لیمپ سے ڈھکا ہواہے، ایک سوئس مجسمہ ساز نے بنایا تھا۔ قطری شاہی خاندان کے کسی فرد نے لاکھوں ڈالروں کے عوض اس مجسمے کو امریکہ سے خریدا تھا۔ بہرحال یہ مہوش کی ناپسندیدہ جگہ تھی۔ میں اسے اپنی پسندیدہ جگہ پر لے گئی۔ یہ بچوں کیلئے مخصوص مقام (play area)ہے۔ قطر ائیرپورٹ سے جب بھی میرا گزر ہوتا ہے، اس حصے میں آنا مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔یہاں ڈھیروں بچے اپنے رنگ، نسل اور قومیت کو بالائے طا ق رکھ کرکھیلتے نظر آتے ہیں۔ یوں جیسے ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز۔ پڑاو (stopover) طویل ہو تو میں گھنٹوں یہاں بیٹھ کر انہیں کھیلتے دیکھا کرتی ہوں۔ ساتھ ہی ساتھ انکی ماوں کا مشاہدہ بھی کرتی ہوں۔مجھے ہر بار یہ احساس ہوتاہے کہ ماں مشرق کی ہو یا مغرب کی، گوری ہو یا سانولی، خوبصورت ہو یا قبول صورت، ماں صرف ماں ہوتی ہے۔ اپنے بچے سے لاڈ پیار اور محبت کا اظہار کرتی ہر ماں مجھے ایک جیسی معلوم ہوتی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے ہر بچہ اپنے رنگ، نسل اور قومیت سے ہٹ کر صرف معصوم بچہ ہوتا ہے۔
وقت نہایت کم تھا۔ہم دونوں نے ایک دوسرے کو خدا حافظ کہا اور اپنے اپنے گیٹ کی طرف روانہ ہو گئے۔ جہاز میں سوار ہونے (boarding) سے قبل میں نے اوسلو(Oslo) کا درجہ حرارت معلوم کیا۔ یہ منفی چھ(minus six) ڈگری تھا۔ موسمیاتی پیشن گوئی کے مطابق، میرے وہاں پہنچنے تک اسے منفی دس ڈگری تک پہنچ جانا تھا۔ جہاز میں سوار ہوکر میں نے اپنی نشست سنبھالی۔ خوش قسمتی سے ساتھ والی دونوں نشستیں خالی تھیں۔ مطلب یہ کہ اگلے سات گھنٹے

نہایت سہولت سے گزرنے والے تھے۔سچ یہ ہے کہ جہاز کا سفر مجھے ہمیشہ موت سے قریب ترمعلوم ہوتا ہے۔ جہاز جب ہزاروں فٹ کی بلندی پر فضا میں محو پرواز ہوتا ہے، مجھے خیال آتا ہے کہ محض میرے رب کی قدرت نے اسے تھام رکھا ہے۔ جب کبھی خرابی موسم کے باعث طیارہ ڈگمگانے لگتاہے (جو کہ اکثر ڈگمگاتا ہے) تب مجھے گمان ہوتا ہے کہ موت فقط چند لمحوں کی دوری پر ہے۔ بطور مسلمان یہ بات ہمارے ایمان کا حصہ ہے کہ موت وقت مقررہ پر ہم تک پہنچ جانے والی شے ہے۔ البتہ ہوائی سفر کا ذکر آتے ہی، میرے ذہن میں موت کا تصور ابھر آتا ہے۔ کچھ عرصہ سے عادت میری یہ ہے کہ کسی چھوٹے بڑے سفر پر روانگی سے قبل گھر میں کچھ نصیحت (بلکہ وصیت) کر کے نکلتی ہوں۔ میرے بنک کا کھاتہ انتہائی مختصر ہے، اسکے با وجود چیک بک کے کچھ خالی صفحات پر دستخط کرنا ضروری خیال کرتی ہوں۔ اہم دستاویزات، لاکر سے نکال کر اپنی الماری کے نمایاں خانے میں رکھ آتی ہوں۔ خیال مجھے یہ آتا ہے کہ نجانے واپسی ممکن ہو بھی یا نہیں۔ زندگی حقیقت میں اتنی ہی ناپائیدار اور ناقابل پیش بیں (unpredictable) شے ہے۔
ہوائی جہاز برق رفتاری سے اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھا۔ دوران پرواز دستیاب وائی۔فائی کو اپنے موبائل سے منسلک کرنے کے بعد میں نے واٹس۔ایپ کے ذریعے گھر کال ملائی۔ اپنی ماں سے طویل بات کرنے کے بعد میں سوچتی رہی کہ انسان نے کس قدر ترقی کر لی ہے۔ ہزاروں فٹ کی بلندی سے ہم نہایت آسانی اور سہولت کیساتھ زمینی دنیا سے رابطہ قائم کر سکتے ہیں۔پھر گھڑی دیکھی تو مجھے یاد آیا کہ معروف لکھاری آمنہ مفتی نے اس وقت مجھے ایک دعوت پر بلا رکھا تھا۔ دعوتوں اور تقریبات پر جانا مجھے ہمیشہ سے مشکل اور دقت طلب کام معلوم ہوتا ہے۔ ذیادہ میل جول سے بھی میں کسی قدر گریزاں رہتی ہوں۔لیکن آمنہ کے بلاوے پر نہ جا سکنے کا مجھے افسوس تھا۔بطور مداوا، میں نے ارادہ کیا تھا کہ آمنہ مفتی کا ناول ” پانی مر رہا ہے” ناروے پہنچنے سے قبل پڑھ ڈالوں گی۔ آمنہ نے چند دن پہلے اپنی لکھی کچھ کتب مجھے بھجوائی تھیں۔ ان کتابوں کی خاص بات یہ ہے کہ ہر کتاب کے صفحہ اول پرآمنہ مفتی کے دستخط کیساتھ تحریر ہے۔۔” لبنیٰ ظہیر کی امی کے لئے”۔۔۔ ان کتابوں کو پڑھنا مجھ پر واجب ہے۔ناول تلاش کرنے کے لئے میں نے ا پنا پرس ٹٹولا۔ اس وقت مجھ پر منکشف ہوا کہ میں یہ کتاب گھر کی میز پر بھول آئی ہوں۔
سات گھنٹوں کے بعد جہاز نے اوسلو کی سرزمین کو چھوا تو درجہ حرارت منفی دس ڈگری کو چھو رہا تھا۔ میں نے ہوائی اڈہ عبور کیا۔امیگریشن کاونٹرتک پہنچی۔ پاسپورٹ آگے بڑھایا۔ امیگریشن افسر نے سوال کیا۔۔آپ پہلی بار ناروے آئی ہیں؟ اردو سن کر مجھے حیرت ہوئی۔ جواب دینے سے قبل میں نے پوچھا کیا آپ پاکستانی ہیں؟ افسر نے اقرار میں سر ہلایا۔ میں نے بھی اعتراف کیا کہ جی ہاں، پہلی بات ناروے آئی ہوں اور امیگریشن کا ونٹر پر ایک پاکستانی(نژاد) کو دیکھ کر خوشی ہو رہی ہے۔ ٹھپا(stamp) لگانے کے بعد ان صاحب نے پاسپورٹ میرے حوالے کیا۔ کہنے لگے آپ پہلی مرتبہ یہاں آئی ہیں۔ کسی قسم کی مدد درکار ہو تو بتائیے؟ ایسے مواقع پر مجھے صرف مستند معلومات درکار ہوتی ہیں۔ عادت میری یہ ہے کہ کسی نئی جگہ جانا ہو تو میں اس مقام سے متعلق کچھ بنیادی تحقیق ضرور کر لیتی ہوں۔ لیکن صحافتی، تدریسی اور تحقیقی تربیت نے مجھے یہ سکھایا ہے کہ د ستیاب معلومات کی تصدیق اور پڑتال (verificattion) نہایت ضروری چیز ہے۔ اگرچہ مجھے معلوم تھا لیکن مزید تفتیش کی غرض سے پوچھ ڈالا کہ خواتین کے گھومنے پھرنے کے لئے یہ شہر کس قدر محفوظ ہے؟ امیگریشن آفیسر نے فورا جواب دیا کہ” بالکل بے فکر رہیے۔ آپ اس وقت دنیا کے محفوظ ترین شہر میں موجود ہیں “۔ میں نے فورا جملہ مکمل کیا اور کہا۔۔” اور دنیا کے مہنگے ترین شہر میں بھی”۔۔۔۔ وہ صاحب مسکرانے لگے اور کہا” سو فیصد درست۔ ذیادہ تر لوگ شوپنگ کے لئے سویڈن چلے جاتے ہیں۔یہاں سے محض چند گھنٹوں کی دوری پر ہے “۔ میں نے انہیں شکریہ کہا اور ہوائی اڈے سے باہر نکلنے کا راستہ تلاشنے لگی۔ (جاری ہے)