بلاگ

امید سحر ابھی بھی باقی ہے

Share

“محمد آفاق دریز”

جوں جوں زندگی کی رفتار تیز ہو رہی ہے، مشاہدہ اور تجزیہ یہ عیاں کر رہا ہے کہ ہماری معاشرتی اقدار زوال پزیر ہو رہی ہیں۔ مثال کے طور پر جب بھی ہم ٹیلی ویژن پر حالات حاضرہ سنتے ہیں تو وہاں اکثر خبریں دنگا، فساد اور چوری کے واقعات پر مشتمل ہوتی ہیں جن سے تنگ آکر ٹیلی ویژن کو بھی بند کرنے کا دل کرتا ہے۔ اچھے واقعات اور حوصلہ افزا امور کے متعلق خبریں کم ہی سننے کو ملتی ہیں۔ حال ہی میں جب میں نے یہ سنا کہ ایک پولیس کانسٹیبل کو پیسوں سے بھرا ایک بیگ ملا اور اس نے بہت جدوجہد کے بعد اسے  اس کے مالک تک پہنچا دیا تو ایسا لگا کہ میں کوئی دیومالائ کہانی سن رہا ہوں۔ یہاں میں یہ کہنا از حد ضروری سمجھتا ہوں کہ ہمارے معاشرے میں ایسے حوصلہ افزا واقعات وقوع پذیر تو ہوتے ہیں مگر ان کی تشہیر نہیں کی  جاتی۔ میں یہ بھی کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ وہ لوگ جو اخلاقیات اور اعلیٰ کردار کی عمدہ مثال ہیں ناپید نہیں ہوۓ۔ وہ اس قوم کا اثاثہ ہیں اور یقینًا دنیا ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے چل رہی ہے مگر ہمیں اس کا ادراک نہیں۔

ایسا ہی ایک واقعہ میرے ساتھ بھی پیش آیا جس نے واقعتاً مجھے طویل عرصے بعد قلم اٹھانے پر مجبور کردیا۔ میں اپنے والد صاحب کے ساتھ اکثر  سفر کرتا رہتا ہوں۔ اس دن بھی  ہم دونوں اپنے گاؤں چاولی جو کہ ضلع چکوال کا ایک دور افتادہ گاؤں ہے، سے واپس راولپنڈی آ رہے تھے۔ یہ جمعہ، 27 نومبر 2020 کا دن تھا اور ہم چکری انٹر چینج سے موٹر وے میں داخل ہوئے۔ چونکہ میرے ایم ٹیگ کا بیلنس کم تھا لہذا میں چکری سروس ایریا میں رک گیا اور ہیلپ ڈیسک سے اپنا اکاؤنٹ چارج کروایا اور دوبارہ اپنے سفر پر گامزن ہوگیا۔ راولپنڈی پہنچ کر رات کا کھانا کھانے کے دوران مجھے کراچی کے ایک نامعلوم نمبر سے کال موصول ہوئی۔ کال کرنے والے نے پاکستان اسٹیٹ آئل کے نمائندے کے طور پر اپنا تعارف کرایا اور میرے فیول کارڈ کے میرے پاس ہونے کی تصدیق کے ساتھ کارڈ کا نمبر بھی پوچھا ۔ میں اسے  بینک کارڈ فراڈ سمجھا اور اپنی معلومات فراہم کرنے سے  سختی سے انکار کے بعد ،کال بند کر دی۔

کال بند کرنے کے بعد میں سوچنے لگا  کہ کال کرنے والا مجھ سے کارڈ کی میرے پاس موجودگی کی تصدیق کیوں چاہتا تھا؟ میں فوراً اٹھا اور اپنی کار میں اپنے پرس کو تلاش کیا جس میں میں کارڈ اور پیسے رکھتا ہوں۔ مجھے شدید حیرت کا جھٹکا لگا کیونکہ وہ پرس میری گاڑی میں موجود نہیں تھا۔ میں نے پوری کار کی تلاشی لی لیکن بے سود۔ اسی حیرت کے عالم میں میں نے اسی نامعلوم نمبر پر واپس کال کی تو پتہ چلا کہ وہ واقعی پاکستان اسٹیٹ آئل کی ہیلپ لائن تھی جہاں کسٹمر کیئر کے نمائندے نے مجھے بتایا کہ ایک نامعلوم شخص نے کال کر کے بتایا کہ میرا فیول کارڈ اس کے پاس ہے۔ اس شخص کا نمبر ہیلپ لائن اسٹاف نے لے لیا اور میرا نمبر اسے دینے سے معذرت کر لی کہ وہ کارڈ کے مالک کو آگاہ کر دیں گے۔ مختصراً یہ کہ انھوں نے میری بنیادی معلومات کی تصدیق کے بعد مجھے ڈاکٹر حسن اظہار کا نمبر فراہم کر دیا۔

میں نے ڈاکٹر حسن اظہار سے فون پر رابطہ کیا اور بتایا کہ ان کا نمبر مجھے پاکستان اسٹیٹ آئل ہیلپ لائن نے دیا ہے۔ آواز اور بات کے انداز سے وہ مجھے سمجھدار اور انتہائی سلجھے ہوئے انسان لگے جن کا لہجہ نہایت شائستہ تھا۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ان کے پاس کارڈ کے ساتھ میرا پرس بھی ہے۔ مزید برآں انہوں نے مجھ سے کچھ شناختی معلومات طلب کیں جو میں نے فراہم کر دیں۔ہاں پرس میں موجود رقم مجھے ٹھیک سے یاد نہیں تھی۔ بس اتنا بتایا کہ شاید پندرہ ہزار سے کچھ اوپر ہو گی۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ انہیں یہ پرس لاہور سے اٹک جاتے ہوئے ملا تھا اور وہ مجھے واپس کرنا چاہتے ہیں۔ ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کا ایمان  ہے کہ رقم مالک تک لازمی واپس پہنچنی چاہئے کیونکہ امانت میں خیانت انسان کیلئے پریشانیوں میں اضافے کا باعث بنتی یے۔ سو ہم نے یہ طے  کیا کہ وہ  لاہور کی جانب واپسی پر   پرس اسلام آباد لاہور موٹر وے کے داخلہ پواٸنٹ پر  میرے حوالے کر دیں گے۔ حسب وعدہ، 29 نومبر کو ہم طے شدہ جگہ پر ملے جہاں ہماری تھوڑی سی گفتگو ہوئی جس میں میں نے ان کا تہ دل سے شکریہ ادا کیا کہ انہوں نےاتنی محنت اور ایمانداری سے مجھے تلاش کر کے امانت میرے حوالے کی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ پرس میں ستائیس ہزار سے اوپر رقم تھی جبکہ میرا اندازہ صرف پندرہ ہزار کا تھا جو میں نے ڈاکٹر صاحب کو بتایا بھی تھا۔

 یہ اعلیٰ صفت انسان ڈاکٹر حسن اظہار تھے جو یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور میں ایک اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ ان جیسے ایماندار اور محنتی ماہر تعلیم ہمارے معاشرے کیلئے ایک امید کی کرن ہیں جو یقینًا اپنے طلباء میں دیانتداری اور پیشہ ورانہ مہارت کو یقینی بنانے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ ایسے لوگ ہمارا قومی اثاثہ ہیں اور انہیں عزت افزائی دینے کی ضرورت ہے۔

آخر میں، میں تمام قارئین کو یہ پیغام دوں  گا کہ اچھے کام کبھی راٸیگاں نہیں جاتے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم  چھوٹی سے چھوٹی اچھائیوں کو  تسلیم  کریں اور برملا ایسے واقعات کی تشہیر بھی کریں  کیونکہ ایسے واقعات اعلیٰ اقدار کی تنزلی کا شکار  قوم کے لئے  مثبتیت  کا پیغام ثابت ہو سکتے ہیں۔