کالم

جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں

Share

دنیا جب سے قائم ہوئی ہے انسان نے اپنے دولت اور طاقت سے غلام بنانے کی ر وایت کو قائم رکھا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج دنیا ترقی کرنے کے بعد بھی انسانوں کو غلامی کی زنجیر سے آزاد نہیں کرا پائی ہے۔ ابتدا ئی دور میں انسان اپنی لا علمی، رنگت، ذات و پات، جسمانی معذوری اور غریبی وغیرہ کی وجہ سے غلام بنتا تھا۔

لیکن جوں جوں زمانہ ترقی کرتا گیا اس میں بہت حد تک تبدیلیاں بھی آنے لگی۔ مثلاً ان حالات کے تحت انسان اب غلامی کی زندگی نہیں گزار رہا ہے۔ لیکن اب بھی دنیا کے بیشتر ممالک میں انسان اپنی غریبی اور مجبوری کی وجہ سے غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ جس کی ایک وجہ تو ہمیں ا ور آپ کو معلوم ہے کہ انسان جب غریب ہوتا ہے تو اس کے پاس بحالتِ مجبوری سوائے غلامی کی زندگی بسر کرنے کے اور کوئی چارہ نہیں رہتا ہے۔ میں نے اس بات کو محسوس بھی کیا ہے کہ غریبی کی حالت میں انسان اپنی آزادی اور انسانی حقوق سے محروم ہو جاتا ہے۔تاہم کئی ممالک میں (Civil Right)سوِل رائٹ کی مہم نے لوگوں کو غلامی کی زنجیروں سے آزاد کرایا ہے اور دنیا کوا س بات کا پیغام بھی دیا ہے کہ انسان کو غریب، رنگت، عورت اور ذات و پات کے بھید بھاؤ کی وجہ سے غلام بنانا ایک جرم اور گناہ بھی ہے۔

پچھلے کچھ برسوں سے یورپ اور امریکہ میں جدید غلامی کے خلاف زور دار تحریک چلائی گئی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حکومتوں کو مجبور ہو کر غلامی کے خلاف مظبوط قانون کو آئین میں شامل کرنا پڑا۔برطانیہ سمیت کئی ممالک میں ایسے ایسے کیس سامنے آئے کہ لوگوں کو یہ جان کر حیرانی ہوئی کہ کس طرح سے مجبور لوگوں کو غلام بنا کر رکھا جارہا تھا۔ جو اپنی غربتی اور بے بسی کے سبب اپنا حق نہیں مانگ پا رہے تھے۔آسٹریلیا کی (Walk Free Foundation)واک فری فاؤنڈیشن نے غلامی کی وضاحت اس طرح کی ہے کہ’استحصال کے حالات میں ایک انسان اپنی جگہ کو چھوڑ نہیں سکتا اور نہ ہی وہ انکار کر سکتا ہے کیونکہ اسے دھمکیاں، تشدد،جبر، زیادتوں کا سامناکرنا پڑتا ہے‘۔اگر غلامی کی وضاحت کی بنا پر ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں توہمیں اس بات کا اندازہ ہو گا کہ ہماری آنکھوں کے سامنے کئی ایسے جرائم ہورہے ہیں جسے ہم نہ تو جرم سمجھ رہے ہیں اور نہ اس کے خلاف کوئی آواز اٹھا رہے ہیں۔

جدید غلامی کے کئی ایسے واقعات ہیں جس پر ہم اور آپ دھیان نہیں دیتے ہیں۔ اس کی کئی مثالیں ہیں مثلاً جب کوئی قرض نہیں ا دا کر پاتا ہے تو اسے زبردستی بنا کسی تنخواہ کہ کام پر لگا دیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ زبردستی کی شادی جس میں اگر کوئی قرض واپس نہیں کر پاتا ہے تو اس آدمی کی بیٹی اور کبھی کبھی اس کی بیوی کو زبردستی شادی کے لئے مجبور کیا جاتاہے۔اس کے علاوہ جدید غلامی سے دوچار لوگوں کو مسلسل دھمکیاں اورتشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔(Globl Slavery Index) گلوبل سلیوری اینڈکس کے مطابق 46لاکھ سے زیادہ لوگوں کو غلام بنا کر رکھا گیا ہے۔ غلام بن کر رکھنے کے کئی طریقے ہیں۔ میں کوشش کروں گا کہ اپنی معلومات سے اس بات کی وضاحت کردوں کہ غلامی ہے کیا۔ صرف ہاتھ اور پیر میں زنجیر سے جکڑے ہوئے انسان غلام نہیں ہو سکتے ہیں۔ جیسا کہ اکثر فلموں یا ڈوکیمنٹری میں دکھایا جاتا ہے بلکہ غلامی کام و کاج کے طریقے اور اس کے حقوق سے محرومی کو بھی کہا جا سکتا ہے۔

(Globl Slavery Index) گلوبل سلیوری اینڈِکس کے حوالے سے میں پانچ اہم جدید غلامی کے بارے میں وضاحت کروں گا۔ تاکہ آپ کو یہ اندازہ ہو کہ دنیا اتنی ترقی کرنے کے بعد آ ج بھی کیوں لاکھوں انسان غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔جس کی شاید ہم اور آپ امید بھی نہیں کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ میں آپ کے علم میں اس بات کا بھی اضافہ کرنا چاہوں گا کہ جدید غلامی کیسے اور کس طرح واقع ہورہی ہے۔بقول ا نسانی حقوق گروپ مچھلیوں کو پکڑنے والوں کی ایک بڑی تعداد غلامی کی زندگی گزار رہی ہے۔جہاں لوگوں کو ان کی مرضی کے خلاف سال ہا سال کشتیوں میں رکھا جاتا ہے۔ متاثرین کا کہنا ہے کہ اگر آپ کسی طرح کشتی سے بھاگنا چاہیں اور پکڑے گئے تو وہ آپ کی جان لے سکتے ہیں یا پھر آپ کو سمندر میں پھینک دیا جاتا ہے۔ تھائی لینڈ ایک ایسا ملک ہے جو برما اور کمبوڈیا کے لوگوں کو خرید کر انہیں زبردستی غلام بنا رکھا ہے۔ یہ لوگ روزانہ بیس گھنٹے کام کرتے ہیں اور اس کے عوض میں انہیں کوئی تنخواہ نہیں دی جاتی۔ یہ لوگ اپنے ملکوں سے کسی ایجنٹ کے ذریعہ تھائی لینڈ آتے ہیں اور بحالتِ مجبوری غلامی کی زندگی گزارتے ہیں۔

ایک رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں دس سے تیرہ ہزارسے زیادہ لوگ جو البانیہ، نائیجیریا،ویتنام اور رومانیہ سے تعلق رکھتے ہیں انہیں (cannabis)کینابِس کی کاشت کاری میں لگا دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ویتنام کے تین ہزار بچے بھی اس کام میں ملوث ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر وہ یہ کام چھوڑ دیں گے تو ان کے خاندان پربُرا اثر پڑے گا۔زیادہ تر لوگ جو اس کام کو کر رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ اگر وہ اس کام کو چھوڑنا چاہے تو ممکن ہے انہیں اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑیں۔ان لوگوں کو لمبے وقت تک کام کرنا پڑتا ہے اور انہیں ان کی تنخواہ بھی نہیں ملتی ہے۔ان لوگوں کو غلط طریقے سے اس کام میں شامل کیا گیا ہے اور انہیں غلام بنا کر رکھا گیا ہے۔

(The International Labour Organization) دی انٹرنیشنل لیبر آرگنائیزیشن کے ایک اندازے کے مطابق برطانیہ میں لگ بھگ پانچ لاکھ عورتوں کو زبردستی جنسی دھندے کے لئے مجبور کیا جاتاہے۔انڈونیشیا کی ایک خاتون کا کہنا ہے کہ انہیں امریکہ ایک ہوٹل میں روزگار کے بہانے انہیں ا یک خطرناک گروہ کے حوالے کر دیا گیا۔ جس نے اس خاتون کو زبردستی جنسی دھندہ کرنے پر مجبور کر دیا۔ اس گروہ نے خاتون کو تیس ہزار امریکی ڈالر ادا کرنے کو کہا اور یہ بھی کہا کہ اگر وہ ایک گاہک سے سو امریکی ڈالر وصول کرے گی تو اس طرح اس کا قرض ا دا ہوجائے گا۔خاتون نے کسی طرح جان بچا کرا مریکی خفیہ ایجنسی ایف بی آئی کو آگاہ کیا جس کے بعد اس گروہ کو گرفتار کیا گیا۔
یورپ،ایشیا، افریقہ،لاطینی امریکہ اور مشرق وسطی میں بچوں سے بھیک منگوانے کا کام زوروں پر ہے۔ یہ بچے خطرناک قسم کے مجرموں کے ذریعے دنیا کے مختلف ممالک میں سرگرم ہیں۔اس کام میں شامل متاثرین میں سے ایک نے کہا کہ ’میں دن بھر بھیک مانگتا ہوں لیکن مجھے اس کے عوض میں ایک پیسہ نہیں ملتا۔ میں تمام پیسوں کو اپنے باس کے حوالے کردیتا ہوں۔ میں کھانا کھانے اور سونے تک سے محروم ہوں‘۔ ان بچوں کا کہنا ہے کہ اگر وہ اپنے مالک کے خلاف ایک لفظ بھی کہیں گے تو ان کی جان کو خطرہ ہے۔

عام طور پر جدید غلامی لوگوں کو دکھائی نہیں دیتی۔ یہ زیادہ تر گھروں میں یا کسی نجی فارموں میں ہوتا ہے۔برطانیہ میں تین لوگوں کو اس لئے جیل جانا پڑا کیونکہ انہوں نے بیس سال سے ایک مزدور کو زبردستی عمارت کی تعمیر کے لئے رکھا ہوا تھا۔ اس آدمی کو ایک چھوٹے سے کمرے میں رہنا پڑتا تھا جہاں نہ تو بجلی تھی اور نہ ہی پینے کا پانی مہیاتھا۔ ایک ا ور آدمی کو اس لئے جیل جانا پڑا کیونکہ اس نے اپنی بیوی کو گھریلو بندگی بنا رکھا تھا۔ وہ اپنی بیوی کو باہر جانے کی اجازت نہیں دیتا تھا اور اس سے زبردستی گھر کے سارے کام کروایا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ آئے دن وہ آدمی اپنی بیوی کو تشدد کا نشانہ بناتا تھا۔

1556میں مغل بادشاہ اکبر نے سب سے پہلے غلاموں کی تجارت پر ہندوستان میں پابندی عائد کی تھی۔ تاہم بہت ساری ایسی مثالیں پائی جاتی ہیں جس سے ا ندازہ ہوتا ہے کہ اس زمانے میں بھی غریب اور مجبور لوگوں کوغلام بنا کر رکھا جاتا تھا۔اس کے علاوہ ہندوستان میں انگریزوں کے دورِ حکومت میں لوگوں کو غلام بنا کر رکھنے کی بہت سی مثالیں پائی جاتی ہیں۔1844 میں انگریزوں نے دی انڈین سلیوری ایکٹ(The Indian Slavery Act) لاگو کیا اور غلامی کو غیر قانونی قرار دیا۔ لیکن تاریخی اعتبار سے ایسے کئی واقعات پائے جاتے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انگریزوں نے اپنے دور میں ہندوستانیوں کو غلام بنا کر رکھا تھا۔ جس کی وجہ سے ملک میں انگریزوں سے آزاد ہونے کی مانگ نے زور پکڑا تھاا ور زیادہ تر لوگوں نے کہا تھا کہ وہ غلامی کی زندگی بسر کرنا پسند نہیں کرتے ہیں۔

جدید غلامی میری نظر میں ایک شرمناک جرم ہے۔ میں نے اس بات کو بھی محسوس کیا ہے کہ آخر انسان کن وجوہات کی بنا پر غلام بنا کر رکھا جا رہا ہے۔ غریبی ایک ایسی مجبوری ہے جس میں ا نسان انجانے میں وہ کام کر بیٹھتا ہے جسے شاید ہم اور آپ جرم سمجھتے ہیں۔ لیکن میں جب ان لوگوں کی کہانی یا واقعات سنتا اور پڑھتاہوں تو مجھے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ انسان کیوں غلام بنا کر رکھا جاتا ہے۔ان سب لوگوں میں ایک بات عام ہے اور وہ ہے غربت۔

میں نے لوگوں کو پریشانی کی حالت میں مجبوراً ایسے ایسے کام کرتے دیکھاہے جس کا مجھے سخت افسوس ہے۔اگر اس کی مخالف کی جائے تو شاید ایسے کام کرنے والے یہی کہیں گے کہ پھر ہم کیسے جئیں اور اگر اس کی حمایت کی جائے تو میں اپنے آ پ کو مجرم سمجھوں گا۔ میں نے اللہ سے ہمیشہ اس بات کی دعا مانگی ہے کہ اے اللہ دنیا سے غریبی کو مٹا دے تا کہ کسی کا بیٹا، بیٹی، بھائی،بہن اور بیوی کسی کے غلام بن کر نہ جئیں۔علامہ اقبال کے اس خوبصورت شعر سے آج کی بات ختم کرتا ہوں:د

غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں