کالم

تھائی لینڈ کی ایک صبح

Share

چارگھنٹے کی مسافت طے کرکے فلائیٹ جب لاہورسے بنکاک ائیرپورٹ پہنچ رہی تھی،تواس لمحے فضاعجب طلسماتی سی بنی ہوئی تھی۔صبح چھ بجے کا عمل تھا،سرمئی بادلوں کی اوٹ سے کبھی کبھی کوئی سورج کی کرن اپناراستہ بناتے ہوئے ہم تک جہازکے اندرپہنچ جاتی اورپھردوبارہ کھڑکی کے شیشے سے باہرتیرتے ہوئے بادل نظرآنے لگتے۔آخرشب کے اثرات سے ابھی تک آسمان کومکمل رہائی نصیب نہیں ہوئی تھی۔جہازاپنی پروازکی اونچائی مسلسل کم کرتے ہوئے ائیرپورٹ کے رن وے کے قریب پہنچاتوکھڑکی سے شہرکی روشنیاں دیکھ کربنکاک پرطلسم ہوشرباکاگمان گزررہاتھا۔ائیرپورٹ انتظامیہ نے سیاحوں کی سہولت کے لئے مفت وائی فائی انٹرنیٹ فراہم کررکھاہے،اس وائی فائی کی ترسیل وحصول بھی انتہائی آسان ہے۔مسافربغیرکسی خرچ کے اپنے اہل خانہ اوراحباب کوائیرپورٹ پرپہنچتے ہی اطلاع پہنچاسکتے ہیں،اگرچاہیں توباآسانی فون پربات بھی کرسکتے ہیں۔میں تواسے بدقسمتی ہی کہوں گاکہ آج کے دن تک پاکستانی ائیرپورٹس پرسیاحوں کے لئے مفٹ وائی فائی کی سہولت موجود نہیں ہے۔جس سہولت کی مبینہ فراہمی کادعویٰ کیاجاتاہے،وہ فقط پاکستانی ٹیلی فون کی موبائل سم کے حامل افراد کے لئے مخصوص ہے۔ہمارے حکام بالااورمتعلقہ افسران سے کوئی شخص پوچھے کہ کسی غیرملکی سیاح کے پاس پاکستانی ٹیلی فون سم بھلاکیوں کراورکیسے موجود ہوگی؟اگرٹیلی فون سم آپ کے پاس موجودبھی ہوتولامتناہی سوالات کے سلسلے کے بعدبھی وائی فائی انٹرنیٹ کی سہولت آپ کومیسرنہیں آئے گی۔ارباب اختیار سے کوئی یہ سوال کرنے کی جسارت کرے کہ سرکارپوری مہذب اورنیم مہذب دنیامیں ائیرپورٹ پروائی فائی کی فراہمی کے لئے فقط آپ ہی کوسیاحوں کی تقریباًجنم پتری کیوں درکارہے؟کتناخرچہ آتاہے اس سہولت کی فراہمی پر؟ایسی باتیں دیکھ کرکبھی کبھی خیال آتاہے کہ شایدیہ ہماری ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے۔ورنہ توشایدنیت اورتھوڑی سی کوشش سے ایسی چھوٹی چھوٹی چیزیں کی جاسکتی ہیں۔جن پرکوئی خاص خرچ بھی نہیں آتاہے۔
بنکاک ائیرپورٹ پراترتے ہی منی ایکسچینج کی بے شمار دکانیں نظرآتی ہیں۔مقامی کرنسی تھائی بھات ہے۔آج کل سات پاکستانی روپے ایک تھائی بھات کے برابر ہیں۔سیاحوں کے ساتھ دوکانداروں کارویہ بڑادوستانہ اورمہذب ہے۔کرنسی تبدیل کرتے وقت آپ کاپاسپورٹ مانگیں گے اورپیسے تبدیل کرنے کے ساتھ آپ کوکمپیوٹررسیدبھی ضرورفراہم کریں گے۔ائیرپورٹ سے باہرنکلاتوایک خوبصورت صبح کواپنامنتظرپایا۔درجہ حرارت چوبیس ڈگری تھا،یادرہے کہ جہازکے اندرکادرجہ حرارت بھی چوبیس ڈگری ہی ہوتاہے،جوکہ آئیڈیل شمارہوتاہے۔یہاں سال کے تین موسم بیان کئے جاتے ہیں،ان میں پہلاموسم مون سون کاہے،جس کی شدت اگست اورستمبرمیں ہوتی ہے جبکہ شروع یہ مئی سے ہی ہوجاتاہے۔موسم سرمااکتوبرسے فروری تک ہوتاہے۔گرمی کاموسم فروری اورمئی کے درمیانی عرصے پرمشتمل ہوتاہے۔مگرمیری رائے پوچھیں توموسم یہاں دوہی ہوتے ہیں،ایک بارش کا موسم اوردوسرابغیربارش والاموسم۔پوراسال آپ ایک سالباس پہن سکتے ہیں۔کپڑوں کے ایک جوڑے یاپھرٹی شرٹ کے ساتھ پوراسال ہنسی خوشی گزاراجاسکتاہے۔جیکٹ،جرسی،کوٹ کی کوئی ضرورت کبھی بھی اس سرزمین محسوس نہیں ہوتی ہے۔
یہ دیس بہت سرسبزہے۔ساون کے اندھے کوہرطرف ہراہی سوجھتاہے کی عملی تفسیرمحسوس ہوتی ہے یہ سرزمین۔خاص طورپربنکاک شہرسے اگرآپ مضافات کارخ کریں توکوئی چپہ بھی سبزے اورہریالی سے خالی دکھائی نہیں دے گا۔پام کے درازقدپیڑخصوصاًتوجہ اپنی جانب کھنچتے ہیں،کیلے کے جھنڈاورساگوان کے درخت منظرکااہم حصہ ہیں۔طویل قامت بانس جابجااپنی موجودگی کااحساس دلاتے ہیں۔کھیتوں کاتذکرہ کریں توسب سے مقبول فصل چاول کی ہوتی ہے۔سڑکوں کے کنارے کسان چھوٹی چھوٹی دکانیں سجائے تازہ پھل فروخت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔بارشوں کی کثرت کے باوجودکبھی آپ کوکہیں بھی پانی کھڑاہوانظرنہیں آئے گا۔صبح سویرے پرندوں کے چہچہانے کی آوازوں کے ساتھ ساتھ مذہبی اشلوک اورگیتوں،منتروں کی آوازیں بھی سماعتوں سے ٹکراتی ہیں۔تھائی لینڈبڑامذہبی ملک ہے۔غالب اکثریت بدھ مت کی پیروکارہے۔تقریباًنوے فیصدآبادی کاعقیدہ بدھ ازم ہے جبکہ دوسراسب سے بڑاگروہ مسلمان ہیں،جوکہ چھ فیصدکے قریب ہیں۔عیسائی ملک کی آبادی کاتقریباًایک فیصدہیں۔ہندواورلادین لوگ بھی پائے جاتے ہیں مگروہ انتہائی قلیل ہیں۔ملک میں آئینی طورپربادشاہت رائج ہے جبکہ قومی اسمبلی اورسینٹ کے ادارے بھی موجودہیں اوروزیراعظم بھی ہے۔آپ برطانیہ کی مثال دے سکتے ہیں مگریہاں بادشاہ کومذہبی تکریم حاصل ہے۔بادشاہ کوبھگوان کااوتارماناجاتاہے۔کرنسی نوٹوں کے علاوہ پورے ملک میں بادشاہ کی قدآورتصاویرجگہ جگہ آویزاں ہیں۔بادشاہ کااصل نام توخاصامشکل ہے مگرعرف عام میں اسے دسواں راماکہتے ہیں۔
پرانے زمانے میں پانچ لاکھ مربع کلومیٹرپرمشتمل اس ملک کو”سیام“کہاجاتاتھا۔سات کروڑنفوس پرمشتمل اس دیس کی سرحدیں ایک طرف توبرمااورکمبوڈیاسے ملتی ہیں تودوسری طرف لاؤس اورملائیشیاسے منسلک ہیں۔آبی سرحدویت نام سے بھی مل جاتی ہے۔تھائی لینڈاس خطے کاواحدملک ہے جوکبھی کسی سامراجی قوت کی نوآبادی نہیں رہاہے۔آزادمنش لوگوں پرمشتمل اس دیس نے دوسری جنگ عظیم میں جاپان کاساتھ دیاتھا۔جنگ کے خاتمے کے بعدامریکی بلاک کاحصہ بن گیا۔امریکہ سے قائم ہونے والے دوستانہ تعلقات میں آج بھی ویسی ہی گرم جوشی اورفدویانہ پن ہے۔برسبیل تذکرہ تھائی کالفظی مطلب مردِآزادہے۔لوگوں کاطرزبودوباش اورزندگی کاڈھنگ دیکھیں تواسم بامسمم محسوس ہوتاہے۔طرح طرح کی زبانیں بولنے والے لوگ یہاں موجودہیں مگرتھائی زبان ہی بنیادی رابطے کی زبان ہے۔سرکاری وغیرسرکاری سطح پرتھائی ہی رائج ہے۔ ویسے ملک بھرمیں بولی جانے والی زبانیں توآٹھ ہیں۔آپ کوحیرت میں مبتلاکردینے والی بات ہوگی کہ ہم یہاں اپنے گاہکوں سے اردوزبان میں بات کرتے ہیں۔میانماراورتھائی لینڈکی سرحدپرواقع اس کاروبارمیں ہمارے تمام گاہک اردوزبان جانتے ہیں،عمومی طورپربرماسے آتے ہیں مگراس کی تفصیل پھرکبھی بیان کروں گا۔