منتخب تحریریں

میرے لئے ’’سٹاک ہوم سینڈروم‘‘ کا طعنہ 

Share

ماں کی گود سے جوان ہونے تک میرے ذہن میں بٹھادیاگیا ہے کہ جب کسی فرد کے انتقال کی خبر ملے تو اس کی مغفرت کی دعا مانگو۔ مرحوم سے اگر کسی بھی حوالے سے شناسائی رہی ہو تو تلخ یادوں کو نظرانداز کرتے ہوئے خوش گوار باتوں کو یاد کیا جائے۔اتوار کی صبح اٹھتے ہی جنرل مشرف کے انتقال کی خبر ملی تو میرا فوری ردعمل وہی تھا جو بچپن سے سکھایا گیا ہے۔ اس روز کالم بھی لکھنا تھا۔اس کا موضوع جنرل مشرف ہی ہوسکتے تھے۔

پیر کی صبح چھپے کالم کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا تو ٹویٹر پر چھائے کئی ’’انقلابی‘‘ خفا ہوگئے۔بے تحاشہ ٹویٹس نے مجھے یاد دلانے کی کوشش کی کہ مرحوم ایک فوجی آمر تھے۔معافی کے قابل نہیں۔پاکستان کو نائن الیون کے بعد افغانستان پر امریکہ کی مسلط کردہ جنگ کا ’’اتحادی‘‘ بناکر انہوں نے وطن عزیز میں دہشت گردی کے جذبات بھڑکائے۔ عدالت نے انہیں ’’غاصب‘‘ قرار دیتے ہوئے کڑی سزا کا حکم بھی سنایا تھا۔میری توجہ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے پر مرکوز رہنا چاہیے تھی کہ مذکورہ سزا پر عملدرآمد کیوں نہیں ہوپایا۔

چند اصحاب نے ’’خوش گوار یادوں‘‘ پر مشتمل کالم کو ’’سٹاک ہوم سینڈروم‘‘ کا اظہار بھی ٹھہرایا۔ یہ اصطلاح ایک نفسیاتی بیماری کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ ایسے شخص کی ذہنی الجھنوں کا ذکر کرتی ہے جو اپنے اغواء کاروں کی قید میں طویل عرصہ گزارنے کے بعد ان کے ’’انسانی پہلوئوں‘‘ سے مرعوب ہوجاتا ہے۔مختصراََ ’’انقلابیوں‘‘ سے پیغام یہ ملا کہ میں اس کالم کے ذریعے خود کو ’’جمہوری نظام‘‘ کا ثابت قدم معتقدہونے کا ڈھونگ رچاتا ہوں۔جنرل مشرف کے ’’استبداد‘‘ کا ذکر کرنے سے لیکن میرے پر جلتے ہیں۔

اپنا دفاع ہرگز مقصود نہیں۔ ’’سٹاک ہوم سینڈروم‘‘ کا طعنہ بلکہ اس حقیقت کا اثبات فراہم کرنے کے کام آیا کہ ہمارا معاشرہ اندھی نفرت وعقیدت میں بری طرح تقسیم ہوچکا ہے۔صحافت میں ’’غیر جانبداری‘‘ اور شائستہ رویے برقرار رکھنا اب ممکن نہیں رہا۔کالم نگار سے قارئین کی اکثریت محض یہ تقاضہ کرتی ہے وہ ان کے دلوں میں جاگزیں تعصبات کی ڈٹ کر تائید کرے۔اس تناظر میں ’’منافقت‘‘ سے پرہیز کرے۔

جنرل مشرف کے انتقال کی خبر آنے کے بعد جیو نیوز والوں نے بھی مجھ سے تبصرہ آرائی کے لئے رابطہ کیا۔ ذاتی حوالوں سے چند حیران کن خوش گوار یادوں کے باوجود میں اپنے تبصرے کے دوران بارہا دہراتا رہا کہ آمروں کی ’’نیک نیتی‘‘ معاشرے کو نیک راہ پر چلانے میں ہمیشہ ناکام رہتی ہے۔غصے سے مغلوب ناظرین وقارئین کے گروہ نے مگر اس پہلو کو نظرانداز کردیا۔ اتوار کی دوپہر سے کئی افراد واٹس ایپ اور ٹویٹر پیغامات کے ذریعے یہ معلوم کرنا بھی چاہ رہے ہیں کہ میرے خیال میں جنرل مشرف کو تدفین کے وقت ’’ریاستی پروٹوکول‘‘فراہم کرنا چاہیے یا نہیں۔یہ اصرار بھی ہوا کہ میں رپورٹر کے تجربے اور وسائل بروئے کار لاتے ہوئے پتہ لگائوں کے مرحوم کی نماز جنازہ میں وزیر اعظم شہباز شریف شریک ہوں گے یا نہیں۔ مسلسل اکسانے کے باوجود میرادل مگراس سوال کا جواب ڈھونڈنے کو مائل نہیں ہوا۔

عرصہ ہوا یہ حقیقت دریافت کرچکا ہوں کہ ’’دوٹکے کے رپورٹر‘‘ حاکم اشرافیہ کی فیصلہ سازی میں کوئی کردار ادا کرنے کے قابل ہی نہیں۔ٹی وی شوز کا میزبان یا نوائے وقت جیسے جید اخبار کا کالم نویس ہوتے ہوئے ایک لمحے کوبھی خود کو ’’ذہن ساز‘‘ تصور نہیں کیا۔شہبازشریف صاحب کا ذکر ہوا ہے تو پیر کے روز چھپے کالم میں بیان کرچکا ہوں کہ مجھے میسرٹھوس اطلاعات کے مطابق چودھری نثار علی خان نے جنرل کرامت کے استعفیٰ کے بعد جنرل مشرف کی بطور آرمی چیف تعیناتی میں کلیدی کردار ادا کیا تھا ۔وہ اور شہباز شریف صاحب 1985ء سے چند ہی برس قبل تک بتدریج ایک دوسرے کے گہرے دوست بن گئے۔نواز شریف کی تینوں حکومتوں کے دوران اسلام آباد کے باخبر حلقے ہمیشہ یہ اصرار کرتے رہے کہ جب بھی وزیر اعظم کوئی ’’وکھری ٹائپ‘‘ پیش قدمی کے لئے تیار ہوتے ہیںتو شہباز صاحب اور چودھری نثار گھبرا جاتے ہیں۔بہت سوچ بچار کے بعد ایسی حکمت عملی تیار کرتے ہیں جونواز شریف کو ’’ایڈوانچر‘‘ سے باز رکھے۔

ان دونوں کا آج بھی اصرار ہے کہ 12اکتوبر1999ء کے روز نواز شریف صاحب کی جانب سے جنرل مشرف کی برطرفی ان دونوں کے لئے پریشان کن ’’خبر‘‘ تھی۔وزیر اعظم ہائوس کی انیکسی میں موجود ہونے کے باوجود وہ اس فیصلے کی بابت لاعلم تھے۔ شاید اسی وجہ سے جنرل مشرف کے ٹیک اوور کے بعد چودھری نثار ریاستی جبر سے محفوظ رہے۔انہیں اٹک قلعہ کی جیل میں محصور کرنے کے بجائے راولپنڈی والے ذاتی گھر میں نظر بند رکھا گیا۔ شہباز صاحب کو تاہم یہ سہولت میر نہ ہوئی۔اپنے بھائی کے ساتھ زبردستی سعودی عرب بھجوادئے گئے۔

جلا وطن ہوجانے کے باوجود شہباز شریف صاحب نے جنرل مشرف سے رابطے برقرار رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی۔اس ضمن میں جنرل صاحب کے ایک مہربان ریٹائرڈ بریگیڈئر نیاز نے کلیدی کردار ادا کیا۔ سعودی عرب سے نواز شریف اور شہباز صاحب کی لندن منتقلی مذکورہ روابط کی بدولت ہی ممکن ہوئی۔ سوال اٹھتا ہے کہ میں ’’دوٹکے کا رپورٹر‘‘ کس حیثیت میں چند قارئین کی تسکین کے لئے جنرل مشرف کی ’’مذمت‘‘ کو ڈٹ جائوں جبکہ نواز شریف کے سگے بھائی ان کورام رکھنے کی کاوشوں میں مصروف رہے تھے۔

بھارتی وزیر اعظم واجپائی کے دورہ لاہور کے چند ہی ماہ بعد جنرل مشرف کی زیر نگرانی کارگل میں جو ’’ایڈونچر‘‘ ہوا اس نے پاکستان کو نہایت مشکلات سے دو چار کردیا تھا۔نام نہاد ’’عالمی برادری‘‘ اس کی وجہ سے یہ سوچنے کو مجبور ہوئی کہ ’’ایٹمی قوت‘‘ بن جانے کے بعد پاکستان اب اپنے ازلی دشمن ملک کو تھلے لگانا چاہ رہا ہے۔ممکنہ ’’ایٹمی جنگ‘‘ کے تدارک کے لئے نواز شریف کو بطور وزیر اعظم پاکستان امریکی صدر کلنٹن سے واشنگٹن جاکر معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنا پڑا۔اس کے نتیجے میں ممکنہ ’’ایٹمی جنگ‘‘ تو ٹل گئی مگر ہمارے عوام کی اکثریت کو بہت مہارت سے یہ سوچنے کو قائل کردیا گیا کہ لاہور سے ابھرا صنعت کار وزیر اعظم امریکی اور بھارتی دبائو کے سامنے ’’ڈھیر‘‘ ہوگیا جبکہ ان کا ’’کمانڈو جنرل‘‘ کارگل کے راستے سری نگرآزاد کرواسکتا تھا۔ اسی باعث 12اکتوبر 1999ء میں جب جنرل مشرف برطرف ہونے کے بجائے اقتدار پر قابض ہوگئے تو بازاروں میں ’’مٹھائیاں‘‘ بٹیں۔ ’’کمانڈو‘‘ کا والہانہ خیرمقدم ہوا۔ دادوتحسین کا شور برپا کرنے میں ہمارے نام نہاد ’’پڑھے لکھے متوسط طبقے‘‘ نے قائدانہ کردار ادا کیا۔ میں بدنصیب جبکہ 17اکتوبر1999ء کی سہ پہر جنرل مشرف کے قوم سے خطاب کے فوری بعد پی ٹی وی کی سکرین پر عاجزی سے التجا کرتا رہا کہ ایک اور فوجی آمر کا خیرمقدم کرتے ہوئے ایوب خان اور جنرل ضیاء کے ادوار بھی یاد کرلئے جائیں۔ بطور صحافی اس سے زیادہ کچھ کرنے کے قابل ہی نہیں تھا۔ قوم کو ’’نیک راہ‘‘ چلانے کے لئے جنرل مشرف کی حکومت نے جو اقدامات بعدازاں متعارف کروائے انہیں اپنی بساط کے مطابق کار بے سود ہی ٹھہراتا رہا۔ میرے رویے نے ریاستی ’’نظر کرم‘‘ سے مستقل محروم رکھا۔اس کے باوجود ’’سٹاک ہوم سینڈروم‘‘ کا طعنہ سن رہا ہوں۔کاش میں لکھنے کی علت سے آزاد ہوکر گمنام ہوسکوں۔