دنیابھرسے

ترکیہ شام زلزلہ: اموات کی تعداد 24 ہزار سے تجاوز کرگئی

Share

ترکیہ اور شام میں صدی کے تباہ کن زلزلے کو 5 روز گزر چکے ہیں جہاں امدادی کارکنوں بڑے پیمانے پر زلزلے سے تباہ ہونے والے علاقوں میں ملبے تلے لوگوں کو نکالنے کی کوشش کر رہے جب کہ دونوں ممالک میں ہلاکتوں کی تعداد بڑھ 24 ہزار سے تجاوز چکی ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی خبر کے مطابق متاثرہ علاقوں میں خون جما دینے والے سرد موسم نے امدادی کوششوں کو سخت متاثر کیا ہے اور لاکھوں لوگوں کی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے جنہیں فوری امداد کی اشد ضرورت ہے۔

اقوام متحدہ نے خبردار کیا کہ زلزلے کے بعد دونوں ممالک میں کم از کم 8 لاکھ 70 ہزار افراد کو فوری طور پر خوراک کی ضرورت ہے جبکہ تباہ کن قدرتی آفت کے دوران صرف شام میں 53 لاکھ افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔

پیر کے 7.8 شدت کے زلزلے کے بعد آنے والے آفٹر شاکس نے مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ کیا اور زندہ بچ جانے والوں کی زندگیوں کو مزید مشکل بنادیا ہے۔

اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام نے ترکیہ میں کم از کم 5 لاکھ 90 ہزار اور شام میں 2 لاکھ 84 ہزار نئے بے گھر افراد کو خوراک فراہم کرنے کے لیے 7 کروڑ 70 لاکھ ڈالر فراہمی کی اپیل کی ہے۔

یو این ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق ان میں 5 لاکھ 45 ہزار ملک کے اندر بے گھر ہونے والے شہری اور 45 ہزار مہاجرین تھے۔

شامی حکومت نے کہا کہ اس نے اپنے کنٹرول علاقوں سے باہر زلزلہ زدہ علاقوں میں انسانی امداد کی ترسیل کی منظوری دے دی ہے۔

رواں ہفتے ترکیہ سے صرف 2 امدادی قافلے سرحد پار کر سکے جہاں حکام اپنے طور پر زلزلے سے متعلق امدادی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔

ایک دہائی سے جاری خانہ جنگی اور شامی-روسی فضائی بمباری کے باعث پہلے ہی ہسپتال تباہ تھے اور بجلی اور پانی کی قلت تھی۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے سلامتی کونسل پر زور دیا کہ وہ ترکی اور شام کے درمیان سرحد پار سے انسانی امداد کے نئے پوائنٹس کھولنے کی اجازت دے، سلامتی کونسل ممکنہ طور پر آئندہ ہفتے کے اوائل میں شام کے حوالے سے بات چیت کے لیے اجلاس کرے گی۔

ترکیہ نے کہا کہ وہ شام کے باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں میں 2 نئے راستے کھولنے پر کام کر رہا ہے۔

ملک میں حکام کا کہنا ہے کہ زلزلے میں 12ہزار 141 عمارتیں یا تو تباہ ہوئیں یا انہیں شدید نقصان پہنچا۔

پولیس نے جمعے کے روز ایک ٹھیکیدار کو حراست میں لے لیا جو ملک سے فرار ہونے کی کوشش کر رہا تھا جب کہ اس کی تعمیر کردہ عمارت تباہ کن زلزلے میں منہدم ہوگئی تھی۔

1939 میں 7.8 شدت کے زلزلے میں 33ہزار افراد کی موت کے بعد سے یہ زلزلہ سب سے زیادہ طاقتور اور مہلک تھا۔

ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے گزشتہ پہلی بار اعتراف کیا کہ ان کی حکومت متاثرین تک پہنچنے اور ان کی مدد کرنے میں اتنی جلدی کامیاب نہیں ہو سکی جتنی جلدی ہماری خواہش تھی۔

قبرص کے بچے

قبرص سے تعلق رکھنے والے 24 بچے جن کی عمریں 11 سے 14 سال کے درمیان تھیں، وہ والی بال ٹورنامنٹ کھیلنے کے لیے ترکیہ میں موجود تھے کہ زلزلے کے دوران ان کے ہوٹل کی عمارت زمین بوس ہوگئی۔

مرنے والے بچوں میں سے 10 کی لاشیں ان کے آبائی وطن شمالی قبرص بھیج دی گئیں۔

ترک میڈیا نے رپورٹ کیا کہ اب تک گروپ میں شامل کم از کم 19 افراد کی موت کی تصدیق ہو چکی ہے جن میں 15 بالغ افراد بھی شامل ہیں۔