پاکستانمعیشتہفتہ بھر کی مقبول ترین

پاکستان میں سگریٹ کی قیمتوں میں اضافہ: صرف مالی فائدہ یا سگریٹ نوشی کے رجحان میں کمی بھی ممکن؟

Share

’مجھے تو سگریٹ چھوڑے ہوئے کئی سال ہو گئے، میری رائے میں تو اُن کی قیمت چار گنا زیادہ ہونی چاہیے۔‘

یہ ایک ایسے صارف کا خیال ہے جو حال ہی میں پاکستان میں سگریٹ کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے پر ناصرف خوش ہیں بلکہ اس کی قیمت میں مزید اضافے کے خواہشمند بھی۔

طبی ماہرین یقیناً ان کی رائے سے متفق ہوں گے تاہم دوسری جانب ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو سگریٹ کی قیمتوں میں غیر معمولی حد تک اضافے پر پریشان دکھائی دیتا ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان کی حکومت نے آئی ایم ایف سے مذاکرات کے بعد جہاں ایک جانب 170 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے کا وعدہ کیا تو وہیں سگریٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کو بڑھا دیا جس کے بعد پاکستان میں سگریٹ برینڈز کی قیمتوں میں تقریبا دو گنا اضافہ ہوا ہے۔

یہ اضافہ کس قدر غیر معمولی ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگر ایک برانڈ کے سگریٹ کی قیمت چند روز پہلے اگر ڈھائی سو روپے تھی تو آج یہ پانچ سو روپے تک جا پہنچی ہے۔

اس پیش رفت کے بعد سوشل میڈیا پر طرح طرح کے تبصرے اور میمز سامنے آئے۔ کسی نے سگریٹ کا برینڈ بدلنے کا مشورہ دیا تو کسی نے سگریٹ پینے کے اوقات کار مخصوص کرنے کا، وہیں ایسے بھی لوگ ہیں جو سمجھتے ہیں کہ سگریٹ مہنگے ہونے سے اب ملک میں تمباکو نوشی کا مضر صحت رجحان کم ہونے میں مدد ملے گی۔

مگر حکومت نے یہ فیصلہ کیوں کیا اور کیا جیسا کہ چند صارفین سوچ رہے ہیں کیا اس فیصلے سے لوگوں کو سگریٹ نوشی کی عادت ترک کرنے کی تحریک ملے گی؟

ان سوالوں کے جواب جاننے کے لیے ہم نے چند ماہرین اور تمباکو انڈسٹری کی بڑی کمپنیوں سے رابطہ کیا۔

’تمباکو نوش سستے اور غیر قانونی سگریٹ برانڈز کی جانب راغب ہوں گے‘

پاکستان

حکومت کے اس فیصلے کا مقصد سگریٹ انڈسٹری سے حاصل ہونے والے ٹیکس میں اضافہ کرنا اور مجموعی آمدن کو بڑھانا ہے۔

صحافی جواد رضوی کے مطابق گذشتہ سال حکومت نے تمباکو انڈسٹری سے 153 ارب روپیہ ٹیکس حاصل کیا لیکن ان کے مطابق ’مفتاح اسماعیل نے بطور وزیر خزانہ اس انڈسٹری سے 200 ارب روپے ٹیکس لینے کا کہا تھا۔‘

دوسری جانب پاکستان کی تمباکو انڈسٹری کی دو بڑی کمپنیوں، پاکستان ٹوبیکو کمپنی اور فلپ مورس، کا ماننا ہے کہ یہ فیصلہ حکومت کے لیے نقصان دہ ثابت ہو گا کیوں کہ اب غیر قانونی تمباکو انڈسٹری کو فروغ ملے گا جو حکومت کو ٹیکس ادا نہیں کرتی۔

واضح رہے کہ پاکستان ٹوبیکو کمپنی اور فلپ مورس تمباکو انڈسٹری سے حکومت کو حاصل ہونے والے ٹیکس کا بڑا ذریعہ ہیں۔

پاکستان ٹوبیکو کمپنی کے ترجمان مدیح پاشا کے مطابق ملک میں سالانہ تقریبا 82 ارب سگریٹ سٹِکس فروخت ہوتی ہیں جس سے حکومت کو سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی مد میں سالانہ 148 ارب روپے سے زیادہ آمدن ہوتی ہے۔

تاہم ان کا کہنا ہے کہ ’ملک میں تقریبا 200 برانڈ غیر قانونی طور پر فروخت ہوتے ہیں جو حکومت کو ٹیکس ادا نہیں کرتے اور ان کی قیمت بھی حکومتی نرخ سے کم ہوتی ہے۔‘

ان کے مطابق حالیہ فیصلے سے تمباکو نوش سستے اور غیر قانونی سگریٹ کی جانب راغب ہوں گے جس سے حکومت کو فائدہ کے بجائے نقصان ہو گا۔

واضح رہے کہ پاکستان ٹوبیکو کمپنی کی جانب سے قیمتوں میں اضافہ کیا جا چکا ہے تاہم فلپ مورس نے ابھی تک نئی قیمتوں کا اعلان نہیں کیا۔

فلپ مورس کمپنی کی جانب سے بھی ایک اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ 2019 سے 2021 تک فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں 26 فیصد اضافہ کیا گیا جبکہ حالیہ مالی سال میں پہلے ہی ایف ای ڈی 25 فیصد تک بڑھائی جا چکی تھی جس کے بعد مجموعی طور پر ایف ای ڈی میں 150 فیصد اضافہ کیا گیا جو صارفین کے لیے قیمتوں میں 250 فیصد اضافے کی وجہ بنے گا۔

فلپ مورس کے ترجمان کے مطابق حکومت کو اس فیصلے سے نقصان ہو گا کیوں کہ صارفین سستے برانڈز کی جانب جائیں گے۔

’پاکستان میں تمباکو پر ٹیکس عالمی دنیا کے مقابلے میں کم ہے‘

پاکستان

واضح رہے کہ پاکستان کی حکومت کی جانب سے سگریٹ کی ایک ڈبی کی کم از کم قیمت 108 روپے طے کی گئی ہے۔

پاکستان کی تمباکو انڈسٹری سے منسلک ایک اہم عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ ’اس حکومتی قیمت کے باوجود پاکستان میں ایسے برانڈز اب بھی فروخت ہو رہے ہیں جو 40-50 روپے میں دستیاب ہوتے ہیں۔‘

پاکستان ٹوبیکو کمپنی کے ترجمان مدیح پاشا کا کہنا ہے کہ سگریٹ کی غیر قانونی فروخت سے حکومت کو تقریبا 77 ارب روپے کا سالانہ نقصان ہوتا ہے۔

تاہم صحافی شہباز رانا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس بار جب حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات ہوئے تو آئی ایم ایف کا یہ مطالبہ تھا کہ ایسے ٹیکس لگائے جائیں، جو دور رس نتائج دے سکیں اور جن کو عدالت میں چیلنج نہ کیا جا سکے۔‘

اس مد میں، شہباز رانا، کے مطابق ’آئی ایم ایف کا خیال یہ تھا کہ پاکستان میں سگریٹ پر دنیا کے حساب سے ٹیکس کافی کم ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اس بار یہ ایک خاص مطالبہ تھا اور اس کا مقصد یہ تھا کہ فوری طور پر محصولات میں اضافہ ہو۔‘

اس سوال کے جواب میں کہ ان ٹیکسوں کا حکومت کو فائدہ ہو گا یا نقصان، تو شہباز رانا نے کہا کہ ’نئے ٹیکسوں سے مالی اعتبار سے حکومت کو فائدہ ہی ہو گا۔‘

شہباز رانا نے کہا کہ ’اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ اس فیصلے سے سمگلنگ بڑھ جائے گی، یا اس کا نقصان ہو گا، تو یہ ایک بہانہ ہے۔‘

’سمگلنگ روکنے کے لیے ادارے موجود ہیں اور اگر پھر بھی سمگلنگ ہوتی ہے تو یہ کسی کو کوتاہی یا نالائقی کا نتیجہ ہے۔‘

تاہم صحافی جواد رضوی کا کہنا ہے کہ حکومت کو ’قلیل مدتی اعتبار سے فائدہ تو ہو گا لیکن طویل المدتی اعتبار سے نقصان ہو گا۔ 45 فیصد انڈسٹری ٹیکس نہیں دیتی جس کو ایف ای ڈی میں اضافے سے فرق نہیں پڑے گا۔‘

کیا تمباکو نوشی کے رجحان میں کمی آئے گی؟

پاکستان

ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ حکومت کا یہ فیصلہ کیا صرف مالی فائدے کے لیے ہے یا پھر اس کے پیچھے سگریٹ نوشی کے رجحان میں کمی لانا بھی ایک مقصد ہے؟

یاد رہے کہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ’شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ تمباکو پر ایکسائز ٹیکس اور اس کی قیمتوں میں واضح اضافہ اس کے استمعال کو روکنے کا سب سے زیادہ مؤثر اور قابل عمل طریقہ ہے۔‘

’ٹوبیکو فری کِڈز‘ نامی تنظیم کے مطابق تمباکو سالانہ پاکستان میں ایک لاکھ 63 ہزار افراد کی موت کی وجہ بنتا ہے اور سگریٹ نوشی سے ملک کی معیشت کو پہنچنے والا نقصان تمباکو انڈسٹری سے حاصل ہونے والے مالی فائدے سے زیادہ ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان میں طب کے شعبے سے تعلق رکھنے والے ماہرین حکومت سے ماضی میں مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ سگریٹ پر صحت ٹیکس عائد کیا جائے۔

ان مطالبوں کے جواب میں ایف بی آر نے واضح کیا تھا کہ صحت کا شعبہ صوبائی دائرہ کار میں آتا ہے اور وفاق کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ تمباکو کے استعمال پر صحت ٹیکس لگائے۔

تاہم ایف بی آر کا موقف تھا کہ تمباکو نوشی کی حوصلہ شکنی کے لیے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی بڑھائی گئی ہے۔

پاکستان ٹوبیکو کمپنی کے ترجمان مدیح پاشا کے مطابق ملک میں پانچ سال سے تمباکو نوشی کا رجحان تسلسل سے برقرار ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ ایک بڑی تعداد ایسے برانڈز کی جانب منتقل ہوئی جو ٹیکس ادا نہ کرنے کی وجہ سے سستے ملتے ہیں۔

دوسری جانب ٹوبیکو فری کڈز نامی تنظیم کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 15 سال سے زیادہ عمر کے 19 فیصد افراد تمباکو نوشی کرتے ہیں جس میں سگریٹ کے علاوہ حقہ اور دیگر ذرائع بھی شامل ہیں۔

ایسے میں یہ اندازہ لگانا تو مشکل ہے کہ آیا قیمتوں میں اضافے کا اثر تمباکو نوشی کے رجحان پر کس طرح پڑے گا لیکن صحافی عمر قریشی کا کہنا ہے کہ سگریٹ نوشی نکوٹین کی وجہ سے فوری ترک کرنا مشکل ہوتا ہے تاہم ان کے مطابق قیمتوں میں اضافے کا اثر پڑ سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اس کا کافی حد تک انحصار اس بات پر ہو گا کہ سگریٹ نوش کا تعلق آمدن کے کس طبقے سے ہے، ان کی آمدنی کتنی ہے اور وہ سگریٹ نوشی پر کتنا خرچ کرتے ہیں یا کر سکتے ہیں۔‘

’ایسے لوگ جو کم آمدنی والے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، عین ممکن ہے کہ وہ سستے برانڈز کی جانب منتقل ہو جائیں جو ٹیکس نیٹ میں شامل نہیں ہیں اور ان پر اس اضافے کا اثر نہیں پڑے گا۔‘

’یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ لوگ اسی برانڈ سے منسلک رہیں لیکن تمباکو نوشی میں کسی حد تک کمی کر دیں۔‘

دوسری جانب تمباکو انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے ایک ماہر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ عام طور پر تحقیق میں دیکھا گیا ہے کہ ’سگریٹ پینے والے سگریٹ ہی پیتے ہیں، وہ کسی اور ذریعے پر منتقل نہیں ہوتے۔‘

’سگریٹ پر اور زیادہ ٹیکس لگانے کی گنجائش موجود ہے‘

ڈاکٹر ظفر مرزا پاکستان کے سابق وزیر صحت رہ چکے ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ایسی تحقیق ہے جو ثابت کرتی ہے کہ قیمت میں اضافے سے سگریٹ نوشی میں کمی ہوتی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ پاکستان ایک ایسے عالمی معاہدے کا حصہ ہے جس کے تحت ٹوبیکو کنٹرول کی پالیسی کا اطلاق ہوتا ہے۔

ڈاکٹر ظفر مرزا نے بتایا کہ ایف سی ٹی سی کے تحت عالمی ادارہ صحت کہتا ہے کہ تمباکو پر ٹیکس کی شرح 70 فیصد کے قریب ہونی چاہیے۔

’عالمی ادارہ صحت تجویز کرتا ہے کہ اصل قیمت پر 70 فیصد تک ٹیکس لگایا جائے جبکہ پاکستان میں 40-45 فیصد ٹیکس ہے۔‘

’اس کی وجہ یہ ہے کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جتنا زیادہ ٹیکس لگایا جاتا ہے اور قیمت زیادہ کی جاتی ہے، اس کے استعمال میں کمی آتی ہے، دوسری جانب حکومت کو مالی فائدہ بھی ہوتا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’تمباکو انڈسٹری کی جڑیں ہمارے نظام میں بہت گہری ہیں اور اسی وجہ سے ماضی میں ایسی کوششوں کو کامیاب نہیں ہونے دیا گیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ابھی سگریٹ پر اور زیادہ ٹیکس لگانے کی گنجائش موجود ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ اس ٹیکس سے جو آمدن ہو اسے صحت کے شعبے پر خرچ کیا جائے۔‘