کالم

محبت کافلسفی شاعررخصت ہوا

Share

کبھی گمان میں بھی نہ تھاکہ موت ایسے زندہ آدمی کو بھی ہم سے چھین کر لے جائے گی۔محبت کی نظمیں کہنے والے امجداسلام امجداب ہم میں نہیں رہے۔یہ خبردل ودماغ پربجلی بن کر گری ہے۔ابھی چند دن پہلے انہیں مسجدنبوی کے صحن میں سبزگنبدکے پاس نبی اکرمؐ کی نعتیں سناتے دیکھاگیا۔زندگی اور خلوص سے بھری مسکراہٹ والے امجداسلام امجدجس محبت کاپرچاراپنے شعروسخن میں کرتے تھے خودبھی اس چاہت وخلوص کاپیہم اورعملی نمونہ تھے۔ان کی شخصیت کے کئی رنگ اورپہلوتھے۔مگرہررنگ سے محبت چھلکتی اورہرجہت پیارکا پیغام دیتی تھی۔ان سے عقیدت کے ساتھ ساتھ دوستی کابھی قریبی رشتہ تھا۔میری دعوت پر جاپان تشریف لائے اوراس دورے کی یادوں کوانہوں نے سفر نامے کی صورت ”آج کا جاپان“کے نام سے ہمیشہ کے لئے محفوظ کردیا۔بارہامیاں چنوں میرے گھرپرقیام کیا۔متعددبار مشاعروں میں شریک ہوئے۔جب جب جہاں جہاں انہیں میں نے مدعوکیاہمیشہ عزت بخشی۔اس تذکرے کا مقصدیہ امرواضح کرناہے کہ مجھے گزشتہ ربع صدی کی اس دوستی کے تعلق میں ان کی صحبت میں کافی وقت گزارنے کاموقع ملا۔یہ بلاشبہ ایک خوش قسمتی توہے،اس کے ساتھ ساتھ اس عہدسازشاعر،ادیب،ڈرامہ نگار،کالم نویس،محقق،مترجم،سفرنامہ نگار،معلم اور اعلیٰ اخلاقیات حامل شخصیت کے انسانی پہلوؤں کاقریب سے جائزہ لینے کا بھی بھرپورموقع تھا۔امجداسلام امجدجتنے بڑے تخلیق کارتھے اتنے ہی بڑے انسان اورانسان دوست تھے۔
ان کی پہلی کتاب شاعری کی شائع ہوئی۔تہلکہ خیزاس لئے کہوں گاکہ یہ کتاب نظموں کی تھی۔روایت کی بات کی جائے تواردوشاعری میں نوواردان اپنے شوق کا آغازغزل سے کرتے ہیں۔غزل ہمارے مزاج میں رچی بسی ہوئی ہے۔شایداس کی وجہ یہ بھی ہے کہ اس کی بنیادموسیقی پرہے۔قافیہ اورردیف میوزک پیداکرتے ہیں۔امجداسلام امجدؔکاروایت سے انحراف بغاوت نہیں تھی،چوکہ وہ بہت خوبصورت غزل کہتے تھے، احمدندیم قاسمی اپنے ادبی پرچے ”فنون“کے لئے ان سے فرمائش کرکے غزل منگواتے اوراہتمام سے شائع کرتے تھے۔امجداسلام امجدؔکے الفاظ میں مکمل نظموں کی کتاب سے فنی سفرکاآغازبڑارسک تھا۔مگرچونکہ وہ فنکار بڑے تھے۔اس لئے انہیں اپنے فن پراعتبارتھا،ان کی پہلی کتاب ”برزخ“تازہ ہواکاجھونکاثابت ہوئی۔شعروسخن کے قارئین نے اسے بے حدپسندکیا۔اس سے پہلے یہ ذکرضروری سمجھتاہوں کہ وہ بنیادی طورپر کرکٹرتھے۔اور پاکستان کی قومی ٹیم کاحصہ بنناچاہتے تھے۔اپنے کالج اسلامیہ سول لائنزکی کرکٹ ٹیم میں ان کی حیثیت سپرسٹارکی تھی۔سلیکشن کاوقت آیاتوکوئی سفارشی ان کی جگہ سلیکٹ ہوگیا۔سخت آزردہ خاطر ہوئے۔بلاتوڑدیا۔کبھی کرکٹ نہ کھیلنے کاخودسے عہدکیا۔یہ سوچ کرکہ اس ملک میں سفارش کے بغیرکچھ نہیں ہوسکتا۔ایک انٹرویومیں مجھے بتانے لگے کہ اب میں سوچتاہوں کہ یہ تواللہ تعالیٰ کی مجھ پربڑی رحمت ہوئی تھی۔پوچھنے لگے کہ ہمارے دور میں ایک بڑے اچھے ٹیسٹ کرکٹرگزرے ہیں ممتازاحمدمگرکیاآپ نے ان کانام بھی سناہے؟کہنے کامقصدیہ ہے کہ کرکٹرکاکیرئیربہت مختصرہوتاہے۔مگرادیب اورشاعرتومرنے کے بعدبھی زندہ وجاویدرہتے ہیں۔
ان کے اپنے الفاظ میں پاکستان بننے میں ابھی تین سال اوردس دن باقی تھے(4اگست 1947)جب لاہورکے علاقے گڑھی شاہومیں ان کی پیدائش ہوئی۔دستکارگھرانہ تھا،میں اس کو روایتی مذہبی خاندان کہناچاہوں گا۔ان کے والد سے میری متعددبار ملاقات ہوئی۔بڑے درویش صفت انسان تھے۔امجداسلام امجدؔکومیں سعادت مندبیٹالکھناچاہوں گا،اپنے والدین کی انہوں نے بڑی خدمت کی تھی۔پڑھائی میں بڑے لائق تھے۔ایم اے اردوپنجاب یونیورسٹی سے مکمل کرنے کے بعدتدریس کے شعبے سے وابستہ ہوگئے۔اس دوران تخلیقی کام پرمکمل توجہ رہی۔
اگریہ کہاجائے کہ امجداسلام امجدپیدائشی ادیب اورشاعرتھے تویہ مبالغہ نہیں ہوگا۔وہ روزاول سے حرفوں کے آدمی تھے۔شعروسخن ان کے خون میں رچے بسے ہوئے تھے۔سال1975میں سات سالہ تدریسی فرائض ایم اے اوکالج میں اداکرنے کے بعد،ایک اہم موڑپنجاب آرٹس کونسل میں بطورڈپٹی ڈائریکٹرمتعین ہوناتھا۔ثقافتی ادارے میں ایک طویل عرصہ گزارنے کے سبب انہیں تخلیق کے لئے موزوں ماحول دستیاب رہا۔اس تخلیقی فضاکاانہوں نے بھرپورفائدہ اٹھایا۔یہ اسی زمانے کا ذکرہے جب ان کا لکھاہواڈرامہ ”وارث“پی ٹی وی پرنشرہوا۔نوجوان نسل کوتوشائداندازہ ہی نہ ہوکہ اس ڈرامے کی مقبولیت کس سطح پرتھی۔شہروں اورگاؤں کی سڑکیں آٹھ بجے رات سب سنسان ہوجایاکرتی تھیں۔جس روزاس کی قسط ٹی وی پرنشرہوتی تھی۔پی ٹی وی کوٹی وی اس لئے لکھاہے کہ ان دنوں صرف یہی واحدٹیلی ویژن چینل ہواکرتاتھا۔ایک بزرگ نے امجداسلام امجدکے ہاتھ چومے تووہ ذراگھبرائے۔اس پرباریش شخص نے کہاکہ میں ان ہاتھوں کوچوم رہاہوں جنہوں نے ”وارث“ڈرامہ، خداکے فضل سے تخلیق کیاہے۔اس کے بعد“دن“اورفشاربھی انتہائی مقبول ہوئے۔یانصیب کلینک کے علاوہ بھی بے شمارڈراموں نے بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔مگر”وارث“نے شہرت دوام پائی۔حال ہی میں چین کے قومی ٹی وی چینل پراسے چینی سب ٹائیٹل کے ساتھ بھی نشرکیاگیا۔
حکومت کی جانب سے ان کی خدمات کے اعتراف میں پرائڈآف پرفارمنس جسے صدارتی تمغہ حسن کارکردگی کہتے ہیں 1987میں انہیں دیاگیااور1998میں ستارہئ امتیاز سے نوازاگیا۔بیسٹ فلم رائٹرکانگارایوارڈدومرتبہ انہیں ملا۔جبکہ پی ٹی وی اوردیگرچینلزسے بے شمارایوارڈوصول کیے۔چند سال پہلے ترکی کے سب سے اعلیٰ ادبی انعام نجیب فاضل ایوارڈانہیں ترک صدر رجب طیب اردگان کی موجودگی میں پیش کیا گیا۔وہ پہلے پاکستانی تھے جنہیں اس اعزازسے نوازا گیا۔درجنوں شعروسخن کی معیاری کتابوں،بے شمار ڈراموں،ہزاروں خوبصورت کالموں اورنونہالان وطن کوزیورتعلیم سے آراستہ کرنے کا صلہ اوراصل ایوارڈتولوگوں کی ان سے والہانہ محبت ہے۔ایسی تکریم واحترام اس پاک سرزمین پرجنم لینے والے کم کم لوگوں کے حصے میں ہی آتاہے جوان کامقدربنا۔پاکستانی قوم کی ایک خوبی مجھے بے حد پسندہے کہ کبھی کسی غلط آدمی کی عزت نہیں کرتے۔
امجداسلام امجدؔبنیادی طورپرگھریلوقسم کے آدمی تھے۔گھرگرہستی کوبہت اہمیت دیتے تھے۔اپنی بیگم فردوس امجدسے بڑی محبت کرتے تھے۔شہروں شہروں ملکوں ملکوں گھومنے کے باوجودبھی ان کا دھیان گھرکی جا نب ہی لگارہتا۔اپنی اولادسے توسب کومحبت ہوتی ہے۔مگرہم شاعروں میں عمومی طورپرہرایک لاپرواہی اورکسی حدتک بے نیازی اس باب میں روارکھی جاتی ہے۔امجداسلام امجدمگراس بارے میں بڑے ذمہ دارباپ تھے۔اپنے بیٹوں اوربیٹیوں کی زندگی میں بہت دلچسپی لیتے تھے۔ہمہ وقت اس بابت دھیان رکھتے۔ ان کی شخصیت کاایک پہلوبطورمترجم بڑااہم ہے۔غیرملکی شاعری سے ہم وطنوں کوروشناس کروانے کے لئے انہوں نے دیس دیس کی شاعری کواردومیں ترجمہ کرکے شائع کروایا۔جدیدعربی نظموں کے تراجم ”عکس“کے نام سے شائع ہوئے اورافریقی شعراء کی نظمیں ”کالے لوگوں کی روشن نظمیں“کے نام سے۔
وہ بڑے خوش قسمت تخلیق کارتھے کہ انہیں زندگی میں بے پناہ محبت اورتوجہ ملی۔بلاشبہ اس عزت وشہرت کے حق داربھی تھے۔کیاخوبصورت زندگی گزارگئے کہ زمانے سے انہیں کوئی شکوہ ناتھااورنہ ہی زمانے کوان سے کوئی شکایت۔بلکہ دوطرفہ محبت کامعاملہ رہا۔جس کا ثبوت ملک بھرکی سوگوارفضاہے۔ہماری خوبصورت روایات میں سے ایک قابل تحسین روایت جانے والے کے متعلق صرف مثبت بات اورتذکرے کی ہے،سچی بات یہ ہے کہ امجداسلام امجد جیسے لوگ ہیں،جن کے سبب ایسی درخشندہ روایات زندہ رہتی ہیں۔ہم جب اوساکایونیورسٹی کے شعبہ اردوکے دورے پر گئے،پاکستان کے ادیبوں کے اس وفدمیں عطاء الحق قاسمی اورمحمودشام بھی شامل تھے۔طلباء اوراساتذہ نے ہمیں امجداسلام امجدکی شاعری کاجاپانی زبان میں ترجمہ دکھایا۔ادیبوں کے وفدکے استقبال کے لیے طلباء وطالبات پاکستانی لباس زیب تن کرکے آئے تھے۔جاپان میں میرے گھرپرقیام پرانہوں نے ایک مکمل مضمون تحریرکیا۔جوان کی بذلہ سنجی کاعمدہ نمونہ ہے۔نوجوان لکھنے والوں کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ان کی تربیت کرنے کی بھی کوشش کرتے تھے۔گرچہ میں نے ان سے باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی،چونکہ وہ نوے کی دہائی میں ایم اے اوکالج میں پڑھاتے تھے اورمیں گورنمنٹ کالج
لاہورمیں زیرتعلیم رہا،مگرشعروسخن میں ان سے بہت کچھ سیکھا۔ہمیشہ کہاکرتے تھے کہ شعرکہنے کی صلاحیت توخدادادہے مگرکرافٹ سیکھناپڑتاہے۔موزونیت کی صلاحیت کاشکراداکرنے کے لئے ضروری ہے کہ کرافٹ پربھی توجہ دی جائے۔بڑے ہمدرداورمرنجان مرنج انسان تھے۔شہرت اورمنصب بڑے اچھے لوگوں کابھی اکثردماغ خراب کردیتے ہیں مگرامجداسلام امجدمستثنیات میں سے تھے۔انتہائی منکسرالمزاج۔اصل تعارف اورتحفہ توان کی شاعری قرارپائی ہے۔اگرمیں کہوں کہ وہ ہمارے عہدکے سب سے بڑے شاعرتھے تویہ مبالغہ آرائی نہ ہوگی بلکہ حق گوئی اورسخن فہمی کہلائے گی۔بابامیاں چنوں کے دربارسے ملحقہ قبرستان سے مجھے کبھی نسبت محسوس نہیں ہوتی تھی تاوقتیکہ میری والدہ کامدفن بن گیا،پھرتمام خوف جاتارہااوراپنائیت بھی ہوگئی۔لاہورکے میانی صاحب قبرستان سے اب قریبی نسبت پیداہوگئی ہے چونکہ امجداسلام امجدکووہاں دفن کیاگیاہے۔