پاکستانہفتہ بھر کی مقبول ترین

شفاف انتخابات کیلئے الیکشن کمیشن کی سپریم کورٹ سے ’جانبدار‘ لاہور پولیس چیف کے تبادلے کی استدعا

Share

الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر کے تبادلے سے متعلق کیس میں فریق بننے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’جانبدار افسران‘ کے تبادلوں کے بغیر آزادانہ اور منصفانہ انتخابات ممکن نہیں ہوں گے۔

 رپورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن کی جانب سے سپریم کورٹ میں 5 صفحات پر مشتمل درخواست میں کہا گیا کہ ’الیکشن کمیشن کا خیال ہے کہ ایسے جانبدار افسران کی تبدیلی کے بغیر آرٹیکل 218 اور الیکشنز ایکٹ 2017 کے سیکشن 230 کے مطابق آزادانہ اور منصفانہ انتخابات ممکن نہیں ہوں گے۔

الیکشن کمیشن نے مؤقف اختیار کیا کہ متعلقہ افسر کا ایک مخصوص سیاسی جماعت کی طرف جھکاؤ ہے، الیکشن کمیشن کے پاس یہ یقین کرنے کی وجہ موجود ہے کہ اگر پنجاب اسمبلی الیکشن کے انعقاد کے وقت متعلقہ افسر محکمہ کے انچارج ہوئے تو وہ اپنی آئینی زمہ داری نبھا نہیں سکیں گے۔

واضح رہے کہ یہ وہی کیس ہے جس میں سپریم کورٹ نے 17 فروری کو اپنے فیصلے میں سی سی پی او غلام محمود ڈوگر کے تبادلے کو معطل کر دیا تھا۔

الیکشن کمیشن نے دلیل دی کہ 2012 کے ورکرز پارٹی کیس میں عدالت عظمیٰ نے الیکشن کمیشن کو حکم دیا تھا کہ وہ کسی بھی قسم کی ممکنہ بدعنوانی کی روک تھام کے لیے پیشگی اقدامات کرے تاکہ انتخابات قانون کے مطابق کرائے جا سکیں۔

درخواست میں مزید کہا گیا کہ یہ بات قابل فہم نہیں ہے کہ موجودہ افسر کو اپنی پسند کے مطابق مخصوص پوسٹنگ کیوں سونپی گئی ہے، قانون کے مطابق ٹرانسفر اور پوسٹنگ حکومت (صوبائی یا وفاقی حکومت) کا استحقاق ہے اور کوئی مخصوص افسر اپنی من پسند پوسٹنگ کے حق کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔

عدالت میں دائر مذکورہ درخواست کے مطابق الیکشن کمیشن نے 22 جنوری 2023 کو نگراں حکومت کو انتخابی امیدواروں اور سیاسی جماعتوں کے لیے برابری کا میدان یقینی بنانے کے لیے ہدایات جاری کی ہیں، اس طرح کے خطوط 26 جنوری کو پنجاب اور خیبرپختونخوا کے چیف سیکرٹریز کو بھی لکھے گئے تھے۔

درخواست میں ہاددہانی کروائی گئی کہ 16 فروری کو چیف الیکشن کمشنر (سی ای سی) سکندر سلطان راجا کو سپریم کورٹ نے اس معاملے میں طلب کیا تھا۔

چیف الیکشن کمشنر نے سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہوکر عدالت کا آگاہ کیا تھا کہ الیکشن کمیشن نے تبادلوں اور تعیناتیوں کے معاملے پر غور کیا ہے اور نگران حکومت کی جانب سے تبادلوں کے لیے گائیڈلائنز جاری کی ہیں اور یہ ہدایات صوبائی حکومتوں کو بھیج دی گئی تھیں، علاوہ ازیں حکومت پنجاب نے درخواست گزار غلام محمود ڈوگر کے تبادلے کی درخواست جمع کرائی تھی جبکہ الیکشن کمیشن نے اس حوالے سے اجازت دے دی تھی۔

چیف الیکشن کمشنر نے یہ وضاحت بھی کی تھی کہ الیکشن کمیشن نے اپنے مینڈیٹ کو پورا کرنے کے لیے تبادلوں کی اجازت دی ہے۔

عدالت عظمیٰ نے اپنے حکم میں کہا تھا کہ چیف الیکشن کمشنر متعلقہ ریکارڈ کی دستیابی کے بغیر یہ بتانے کی پوزیشن میں نہیں تھے کہ کیا سی سی پی او غلام محمود ڈوگر کے کیس پر الیکشن کمیشن نے الگ سے غور کیا تھا جس کے بعد مخصوص حکم جاری کیا گیا تھا۔