کالم

یومِ تشکر……انعاماتِ الہٰی سے دامن بھرنے کا دن

Share

الحمد اللہ!کہ آج عید کا روزِ مقدس ہے اور یہ وہ خاص دن ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے خاص بندوں کہ جنہوں نے رمضان المبارک کے پورے روزے رکھے،خشوع خضوع کیساتھ عبادت کی،نمازِ پنجگانہ قائم کی،نمازِ تراویح پڑھی،قرآن پاک کی تلاوت کی،اور شریعتِ مطہرہ کے مطابق احکاماتِ خداوندِ قدوس کو بجالاتے ہوئے اپنی زندگی کے شب وروز گزارے،پر اپنا خاص فضل وکرم کرتا ہے……اپنی عنایات ونوازشات اور انعامات سے بھرپور کرتا ہے۔کیونکہ پروردگارِ عالم کی ذاتِ مقدسہ ہے ہی بڑی رحیم وکریم۔
حضرت سیدنا عبداللہ ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے پیارے محبوبﷺنے ارشاد فرمایا کہ”جب عید الفطر کی مبارک رات تشریف لاتی ہے تو اُسے ”جزاکی رات“کے نام سے پکارا جاتا ہے۔اور جب عید الفطر کی صبح ہوتی ہے تو ربِ قدوس اپنے فرشتوں کو تمام شہروں میں بھیجتا ہے اور وہ فرشتے زمین پر تشریف لا کرسب گلیوں اور راستوں کے کناروں پر کھڑے ہو جاتے ہیں۔اور اس طرح”ندا“دیتے ہیں کہ”اے امتِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم!اس ربِ کریم کی بارگاہِ مقدس کی طرف چلو!جو بہت ہی زیادہ عطا کرنے والا ہے۔اور بڑے سے بڑا گناہ معاف کرنے والا ہے۔“پھر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے مخاطب ہو کر یوں فرماتا ہے کہ”اے میرے بندو!مانگو کیا مانگتے ہو؟میری عزت وجلال کی قسم!آج کے روزاس(نمازِ عید)کے اجتماع میں اپنی آخرت کے بارے میں جوسوال کرو گے وہ پورا کروں گااور جو کچھ دنیا کے بارے میں مانگو گے اُس میں تمہاری بھلائی کی طرف نظر فرماؤں گا۔(یعنی اُس میں تمہارے ساتھ وہ معاملہ کروں گا جو تمہارے لیے بہتر ہوگا کیونکہ میری حکمتیں تمہاری ذہنی وسعت سے بالا ہیں)میری عزت کی قسم!جب تک تم میرا لحاظ رکھو گے میں تمہاری خطاؤں پر پردہ پوشی فرماتا رہوں گا۔میری عزت وجلال کی قسم!میں حد سے بڑھنے والوں (یعنی مجرموں)کیساتھ رسوا نہ کروں گا،بس اپنے گھر کی طرف بخشے بخشائے لوٹ جاؤ،تم نے مجھے راضی کردیا اور میں بھی تم سے راضی ہوگیا۔“
ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں شیطان کا جلنا اور خود کو پیٹنا فطری عمل ہے،حضورِ اقدسﷺکا فرمانِ مقدس ہے کہ”جب یومِ عید آتا ہے تو شیطان چِلَّا چِلَّا کر روتا ہے،اس کی ناکامی اور رونا دیکھ کر تمام شیاطین اس کے گرد جمع ہوجاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ اے آقا!تجھے کس چیز نے غمناک اور اُداس کردیا ہے؟شیطان کہتا ہے کہ”ہائے!افسوس!اللہ تعالیٰ نے آج کے دن امتِ محمدﷺکی بخشش فرمادی ہے،لہٰذا تم انہیں لذتوں اور خواہشاتِ نفسانی میں مشغول کردو۔“
جس طرح اگر کسی انسان کے پاس روپے پیسے کی ریل پیل ہوجائے،ڈھیروں دولت جمع ہوجائے،سونا چاندی عام ہواور دنیا کی ہر آسائش سے مالا مال ہو،شیطان صفت لوگ،ڈاکواور چور اُچکے اُسکی دولت کو چھیننے اور لوٹنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔اور اُسوقت تک اُس(مالدار)بندے کے پیچھے ہاتھ دو کے لگے رہتے ہیں کہ جب تک وہ سب کچھ چھین لینے میں کامیاب نہ ہوجائیں۔
اِسی طرح مسلمان جب عید کے روز،اللہ تعالیٰ کی رضا اور ایمان کی دولت سے مالا مال ہوجاتے ہیں،جب وہ اپنے دل میں عشقِ مصطفٰےؐسما لیتے ہیں،جب وہ اللہ تعالیٰ کی عنایات اور نوازشات سے اپنا دامن بھر لیتے ہیں،جب اُن میں ”بندگانِ خدا“سے بے لوث محبت پیار اور خلوص کا جذبہ بیدار ہوجائے……تو شیطان اُس کے اصل مال ودولت کو چھیننے اور ایمان کو تباہ وبرباد کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اللہ ہمارے ایمان کی سلامتی فرمائے۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس عید کے روز ایک شخص حاضر ہواتو اُس وقت حضرت علیؓ چنے کی روٹی تناول فرمارہے تھے تو اُس شخص نے عرض کیا کہ آج تو عید کا روز ہے اور آپؓ چنے کی روٹی تناول فرما رہے ہیں؟حضرت علیؓ فرمانے لگے کہ”عید تو اُس کی ہے جس کے روزے قبول ہو گئے،جس کی خطائیں معاف کردی گئیں،جس کی کوشش مشکور ہوگئی،آج بھی عید ہے،کل بھی عید ہوگی اور جس جس روز ہم اللہ کی نافرمانی نہیں کریں گے اُس اُس روز ہماری عید ہوگی۔“
حضور سید عالمﷺنے ارشاد فرمایا کہ”جوشخص پانچ راتوں میں ”شب بیداری“کرے گا اُس کیلئے جنت واجب ہو جاتی ہے،وہ پانچ راتیں یہ ہیں۔ذوالحجہ شریف کی10,9,8ویں رات،شبِ برات،اور عید الفطر کی رات۔“
اِسی حوالے سے ایک اور جگہ آقائے نامدارﷺارشاد فرماتے ہیں کہ”جس نے عیدین کی رات(یعنی شبِ عید الفطر اور شبِ عید الاالضحٰی طلب ثواب کیلئے)قیام کیا اس دن اس کا دل نہیں مرے گا،جس دن لوگوں کے دل مر جائیں گے۔“
آیئے! اب ایک جھلک حضور اقدسﷺ کے پیارے صحابی حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زندگی مبارک کی دیکھتے ہیں کہ”حضرت عمرِ فاروقؓ نے عید کے دن اپنے بیٹے کو پرانی قمیص پہنے دیکھا تو آپؓ آب دیدہ ہو گئے،بیٹے نے استفسار کیا تو آپؓ نے فرمایا”بیٹے!مجھے اندیشہ ہے کہ آج عید کے دن جب لڑکے تجھے پھٹی پرانی قمیص میں دیکھیں گے تو تیرا دل ٹوٹ جائے گا۔“بیٹے نے جواباََ عرض کیا”دل تو اُس کا ٹوٹے گا جو رضائے الہٰی کو نہ پاسکا،جس نے اپنے ماں باپ کی نافرمانی کی ہو،اور مجھے امید ہے کہ آپؓ کی رضا مندی کے طفیل اللہ تعالیٰ بھی مجھ سے راضی ہوگا۔“یہ سن کر حضرت عمرؓ نے اپنے بیٹے کو گلے لگا لیا اور اُس کیلئے دعا فرمائی۔“
اسی طرح ایک دفعہ حضرت عمر ؓبن خطاب کے دورِ خلافت میں لوگ عید کی نمازادا کرنے کے بعد کاشانہء خلافت پر حاضر ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ مرادِ رسولؐ حضرت سیدنا فاروقِ اعظمؓ دروازہ بند کرکے زاروقطار رورہے ہیں، لوگ حیرت زدہ ہوکر عرض کرتے ہیں کہ یا امیرالمومنین!آج تو عید کا مقدس دن ہے،اس دن تو خوشی وشادمانی ہونی چاہیے،اور آپؓ خوشی ہونے کی بجائے رورہے ہیں۔؟سیدنا حضرت عمرؓ فرمانے لگے کہ ھذایوم العیدوھذایوم الوعید،اے لوگو!یہ دن عید کابھی ہے اور یہ دن وعید کا بھی ہے،آج جس کے نمازروزے اور دیگر عبادات رمضان المبارک میں قبول ہوگئیں بلاشبہ اُس کیلئے آج کا دن،عید کا دن ہے،اور جس کی عبادات قبول نہیں ہوئیں اس کیلئے آج کا دن وعید کا دن ہے اور میں آج اس خوف سے رورہا ہوں کہ مجھے نہیں معلوم کہ میری عبادات قبول ہوئیں ہیں یا کہ انہیں رد کردیا گیا ہے۔“
اللہ اللہ دیکھیں کہ سرکار فاروقِ اعظمؓ عشرہ مبشرہ صحابہء کرام میں سے ہیں مگر خوفِ پروردگارعالم سے رو رہے ہیں۔اور ایک ہم ہیں کہ بالخصوص نوجوان نسل شکر ادا کرنے کی بجائے”یومِ عید“عجیب وغریب خرافات اور مغربی تہذیب وتمدن کے سائے تلے مناتے ہیں۔
پیرانِ پیر سیدنا غوثِ اعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ ارشاد فرماتے ہیں کہ”لوگ کہتے ہیں کہ کل عید ہے!آج عید ہے!اور سب خوش ہیں اور چہروں پر شادمانی کے آثار ہیں،لیکن میں تو جس دن اِس دنیا سے اپنا ایمان محفوظ اور سلامت لے کر گیا،میرے لیے وہی ”یومِ عید“ہوگا۔“
عید کا دن ……خوشی ومسرت کا دن بھی ہے اور اللہ سے انعامات پانے کا دن بھی ہے،محبتیں اور خوشیاں بانٹنے کا دن ہے،گلے شکوے دور کرنے اور روٹھے احباب کو منانے کا دن ہے،اور بالخصوص یہ”یومِ تشکر“بھی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ماہِ رمضان المبارک میں روزے رکھنے،نماز ِ پنجگانہ کی ادائیگی،نمازِ تراویح کا اہتمام کرنے،قرآن پاک کی تلاوت کرنے،راتوں کو اُٹھ کر نوافل ادا کرنے کی توفیق بخشی۔اور حق بھی یہی ہے کہ عید کا روزِ مقدس پروردگارِ عالم کا ذکر کرتے ہوئے،حضور سرورِ کائناتﷺکی مداح سرائی کرتے ہوئے،غریبوں مسکینوں اور یتیم بچوں کے سر پر دستِ شفقت رکھتے ہوئے یومِ عید”یومِ تشکر“کے طور پر منایا جائے۔
عید تو ہر ایک کی ہوتی ہے،کافرکی بھی ہوتی ہے اور مومن کی بھی ہوتی ہے اور ہرکوئی اپنے اپنے انداز میں مناتا ہے۔لیکن مومن اپنی عید اللہ عزوجل کی رضا کیلئے مناتا ہے جبکہ کافر اپنی عید رضائے شیطان کیلئے مناتا ہے۔اور یقینا”کامیاب“لوگ تووہی ہوتے ہیں کہ جو اپنی ہر سانس اور ہر فعل”اللہ رب العزت“کی رضا کیلئے وقف کردیتے ہیں۔
اللہ کی ذاتِ مقدسہ تو اپنے بندوں سے ماں سے ستر گنا زیادہ محبت اور شفقت فرماتی ہے۔جبکہ ہم تو صرف ماں کی اپنی اولاد سے محبت کا اندازہ نہیں لگا سکتے اوراُس کی شانِ کریمی دیکھئے کہ ہمیں ہر ہر لمحہ نیکیاں حاصل کرنے کے شاندار مواقع فراہم کیے ہیں،اب اگر ہم اللہ کی رضاحاصل نہ کرسکیں،قربِ خداوندی نہ پاسکیں تو یہ ہماری اپنی بدقسمتی اور کمزوری ہے۔
ربِ کریم کے ہاں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو شیطان کے شر بچاتے ہوئے اسلام میں پورا پورا داخل ہونے،اتباعِ سنت اختیار کرنے اور اولیائے کرام کے نقشے قدم چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور یہ کہ ہمارے ایمان کی سلامتی فرمائے اور عید کی حقیقی خوشیاں عطا فرمائے۔آمین