پاکستان

بغاوت پر اکسانے کا کیس: اسلام آباد ہائیکورٹ سے عمران خان کی عبوری ضمانت منظور

Share

اسلام آباد ہائی کورٹ نے اداروں کے خلاف بیانات دینے سے متعلق مقدمے میں سابق وزیراعظم اور پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کی 3 مئی تک کے لیے ضمانت منظور کرلی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے عبوری ضمانت کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے ایک لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض عمران خان کی ضمانت منظور کی۔

خیال رہے کہ پی ٹی آئی کے سربراہ نے آج اپنے وکلا کے ذریعے مقدمے میں ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست دائر کی تھی اور اس پر آج ہی سماعت کی استدعا کی تھی۔

تاہم رجسٹرار ہائی کورٹ درخواست اعتراضات عائد کردیےتھے جن میں سے ایک بائیو میٹرک تصدیق نہ ہونا اور دوسرا ٹرائل کورٹ کے بجائے براہِ راست ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرنے کا تھا۔

سماعت کا احوال

اسلام آباد پہنچنے کے بعد عمران خان نے ڈائری برانچ بائیو میٹرک تصدیق کرائی جس کے بعد درخواست کو سماعت کے لیے مقرر کردیا گیا۔

سماعت کی ابتدا میں ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون نے عمران کی درخواست دائر ہونے کے بعد اسی دن سماعت کرنے پر اعتراض کیا۔

انہوں نے کہا کہ اگر دوسروں نے اسی طرح کی درخواستیں دائر کیں تو ان کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کیا جانا چاہیے۔

تاہم عدالت نے اس بات پر زور دیا کہ درخواست گزار پاکستان کے رہائشی ہونے کی حیثیت سے ضمانت حاصل کرنے کا حق رکھتا ہے۔

ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کے مؤقف کو تسلیم کیا، تاہم تجویز دی کہ درخواست گزار کو ضمانت کے بعد متعلقہ عدالت میں پیش ہونے کی ہدایت کی جائے۔

ایڈووکیٹ جنرل کی درخواست پر عدالت نے پی ٹی آئی سربراہ کو تحقیقات کا حصہ بننے کی ہدایت کرتے ہوئے 3 مئی تک ضمانت دے دی۔

خیال رہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے 14 اپریل کو سابق وزیراعظم کی 26 اپریل تک حفاظتی ضمانت منظور کی تھی۔

جس کے بعد10 اپریل کو سابق وزیر اعظم نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرتے ہوئے اخراج مقدمہ کی درخواست دائر کی تھی۔

مذکورہ سماعت میں عمران کے وکیل فیصل چوہدری نے مقدمے کے اندراج کے دائرہ اختیار پر اعتراض اٹھایا تھا کہ واقعہ لاہور میں پیش آیا لیکن ایف آئی آر اسلام آباد میں درج کرائی گئی۔

ادھر ایک ٹوئٹ میں پی ٹی آئی نے کہا کہ عمران خان اپنے قافلے کے ساتھ پٹیشن کی سماعت کے سلسلے میں دارالحکومت پہنچ گئے ہیں۔

پی ٹی آئی سربراہ کی قانونی ٹیم کی جانب سے دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہےکہ موجودہ حکومت نے سیاسی وجوہات اور ان کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لیے عمران خان کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔

درخواست کے مطابق حکومت عمران کے خلاف معمولی سی بھی کرپشن ڈھونڈے میں ناکام رہی اس لیے اب وہ انہیں بلیک میل کرنے کے لیے غیر سنجیدہ مقدمات میں گھسیٹ رہی ہے۔

درخواست میں عدالت سے ایف آئی آر کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی۔

ایف آئی آر

خیال رہے کہ 6 اپریل کو عمران خان کے خلاف اسلام آباد کے تھانہ رمنا میں مجسٹریٹ منظور احمد کی مدعیت میں ایک نئی ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔

مذکورہ ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا کہ عمران خان نے اپنی تقاریر میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر، ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم اور میجر جنرل فیصل نصیر کے خلاف توہین آمیز زبان استعمال کی اور ان کے اہلِ خانہ کو ڈرایا دھمکایا۔

ایف آئی آر میں کہا گیا کہ عمران خان نے سرگرم انتہا پسندوں کو اکسا کر اعلیٰ فوجی افسران اور ان کے اہلِ خانہ کی زندگیوں کے لیے مستقل خطرہ پیدا کردیا ہے، انہوں نے پاک فوج کے اعلیٰ افسران کے خلاف بے بنیاد الزامات لگا کر پاک فوج کی ساکھ کو نقصان پہنچایا۔

مدعی نے مقدمے میں کہا کہ پاک فوج سمیت دیگر تمام اعلیٰ اداروں اور شخصیات جن میں آئینی عہدیداران بھی شامل ہیں، عمران خان کی زبان اور شر سے محفوظ نہیں اور وہ ایک بیرونی سازش اورایجنڈے کے تحت سب کو بدنام کر کے ریاست کو کمزور کرنا چاہتا ہے۔

ایف آئی آر میں الزام لگایا گیا کہ عمران خان اپنی تقاریر کے ذریعے عوام میں پاک فوج کے خلاف مسلسل نفرت پیدا کررہے ہیں جن کا مقصد پاک فوج کے اندر ایک سازش کے ذریعے جوانوں کو بہلا پھسلا کر اور غلط بیانی سے اپنے حلق اور افسران کے خلاف بغاوت پیدا کرنے کی کوشش کی۔ ’