منتخب تحریریں

روایتی صحافت اور سوشل میڈیا کی ابلاغی جنگ

Share

برسوں کی مشقت سے اکتا کر گوشہ نشین ہوئے مجھ ایسے صحافیوں کے لیے ٹویٹر بہت کام کی چیز ہے۔ اس کی بدولت وطن عزیز ہی نہیں پورے عالم میں ہونے والے واقعات کی لمحہ بہ لمحہ خبر مل جاتی ہے۔اس پلیٹ فارم کو یقینا افواہیں اور جھوٹی خبریں پھیلانے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔صحافتی تجربے کی بدولت دل ودماغ میں موجود ’فلٹر‘ لیکن مجھے گمراہ ہونے نہیں دیتے۔ صحافت کے جس انداز کو ان دنوں ’متروک‘ اور ’فرسودہ‘ شما ر کیا جاتا ہے اس نے میری نسل میں خبر کی صداقت جانچنے کے پیمانے جبلی طورپر نصب کررکھے ہیں۔ بہرحال مزید دلائل میں وقت ضائع کرنے کے بجائے فی الفور اعتراف کرلیتا ہوں کہ ٹویٹر کا استعمال مجھے علت کی طرح لاحق ہوچکا ہے۔

حال ہی میں اسے مگر ایلون مسک نام کے ایک موڈی سرمایہ کار نے خرید لیا ہے۔اسے ’آزادیِ اظہار‘ کی سہولت خیرات کے طورپر مہیا کرنے کی عادت نہیں۔جس دھندے میں بھی ہاتھ ڈالتا ہے زیادہ سے زیادہ منافع کمانا اس کا واحد مقصد ہوتا ہے۔اس نے ٹویٹر خرید لیا تو اس کے ذریعے نشر ہوئے مواد کو ٹویٹر کے روایتی رویے سے ہٹ کر دکھانے کی کوششیں شروع کردیں۔ اس کے علاوہ مسلسل یہ ترغیب دیتا رہا کہ ٹویٹر کے مستقل اور دیرینہ قاری اپنے اکاﺅنٹس کو مستند ثابت کرنے کے لیے ماہانہ فیس ادا کرتے ہوئے ’بلیوٹک‘ حاصل کرنے کی کوشش کریں۔

مارچ کے آغاز کے ساتھ ہی میں جب بھی اپنا ٹویٹر اکاﺅنٹ کھولتا تو مجھ سے ایسے سوالات ہوتے جو میرا ٹیلی فون نمبر یا ای میل بتاکر اس کی تصدیق چاہتے ۔ تصدیق والے عمل کی تکرار سے میں اکتا گیا۔ ساتھ یہ خدشہ بھی لاحق ہوگیا کہ مسک بالآخر ٹویٹر کی سہولت فقط ان لوگوں کو فراہم کرے گا جو اسے استعمال کرنے کی باقاعدہ فیس ادا کریں گے۔ مذکورہ خدشے سے گھبراکر میں نے مارچ کے آخری ہفتے میں 23ہزار سات سو روپے کی رقم یکمشت ادا کرنے کے بعد اپنے لیے بلیو ٹک حاصل کرلیا۔

9مئی کی رات سے مگر یہ محسوس کررہا ہوں کہ میرے ساتھ اس دیہاتی والا معاملہ ہوگیا ہے جس کا ’رومال‘ چرانے کے لیے شہر والوں نے میلہ رچایا تھا۔ عمران خان کی گرفتاری کے بعد جوہنگامے پھوٹے ان کی سوشل میڈیا پر اشتعال انگیز کوریج سے گھبرا کر حکومت نے انٹرنیٹ پر میسر یوٹیوب، فیس بک اور ٹویٹر جیسی ایپس کو معطل کردیا۔ اتوار کی صبح اٹھ کر احتیاطاً لیپ ٹاپ کھولا تو ٹویٹرتک رسائی اب بھی ممکن نہیں تھی۔فیس بک اور یوٹیوب البتہ بٹن دباتے ہی کھل گئے۔ میں اس ’انتخاب‘ سے بہت حیران ہوا۔

خدارا مجھے خود غرضی کا مرتکب نہ ٹھہرایا جائے۔ سوشل میڈیا کی بدولت دنیا کے مختلف ممالک میں یقینا بے تحاشہ وحشیانہ واقعات ہوئے ہیں۔ ان کی بابت کئی محققین نے برسوں کی لگن سے چند نتائج اخذ کیے ہیں۔ برما میں روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کو بھڑکانے میں ٹویٹر نہیں بلکہ فیس بک نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ اس کے علاوہ بھارت میں مسلم کش فسادات کے لیے ہندوانتہا پسندوں کو عموماً واٹس ایپ گروپس کے ذریعے بھڑکایا جاتا ہے۔ یوٹیوب چینل بھی اس ضمن میں اہم کردار ادا کرتے رہے۔ابھی تک ایسی کوئی تحقیق کم از کم میرے علم میں نہیں آئی ہے جو محض ٹویٹر ہی کو ابتری اور انتشا رکا واحد سبب ٹھہرائے۔ ہماری ریاست کے کرتا دھرتا اس کے باوجود ٹویٹر کے ساتھ اتوار کی صبح تک ’خصوصی سلوک‘کیوں روا رکھے ہوئے تھے اس کی وجہ میرا کند ذہن ہرگز سمجھ نہیں پایا۔

نواز شریف 2013ءکے انتخاب کی بدولت تیسری بار پاکستان کے وزیر اعظم منتخب ہوئے تو ایک سال بعد ہی انھیں لگام ڈالنے کی کاوشیں شروع ہوگئیں۔ موصوف اور ان کی جماعت کا میں کبھی مداح نہیں رہا۔ اس حقیقت کو مگر جھٹلانہیں سکتا کہ موٹروے جیسے میگا پراجیکٹس کے ذریعے انھوں نے ایک ووٹ بینک تشکیل دیا جو انھیں ’کاروبار دوست‘ تصورکرتا رہا۔جب وہ تیسری بار برسراقتدار آئے تو لوڈشیڈنگ پاکستان کا مسئلہ نمبر ون بن چکی تھی۔اقتدار سنبھالتے ہی نواز حکومت نے اس کے خاتمے کی راہیں تلاش کرنا شروع کردیں۔لوڈشیڈنگ کے علاوہ سنگین تر مسئلہ ملک بھر میں روزمرہ ہوتے دہشت گردی کے واقعات بھی تھے۔نواز شریف کے اندازِ حکومت کے بارے میں اپنے تحفظات کے باوجود میری خواہش تھی کہ موصوف کو ان مسائل کا حل ڈھونڈنے کا بطور منتخب وزیراعظم موقع فراہم کرنا چاہیے۔

’35پنکچر‘ کا الزام لگاتے ہوئے عمران خان نے مگر ان کے انتخاب ہی کو متنازعہ بنانا شروع کردیا۔ بالآخر 2014ءکے اگست میں دھرنا دینے اسلام آباد پہنچ گئے اور ’امپائر‘ کو انگلی اٹھانے پر اکساتے رہے۔ ’امپائر‘ انگلی اٹھانے سے زیادہ اپنی معیاد ملازمت میں توسیع کے خواہاں تھے۔ان کی تمنا یہ بھی تھی کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو فیصلہ کن حد تک کامیاب بنانے کے لیے انھیں ’فیلڈ مارشل‘ کے رتبے پر فائز کیا جائے۔نواز شریف یہ دونوں اعزاز نوازنے پر رضا مند نہ ہوئے۔ جانشین نامزد کردیا۔ ’جانشین‘ جن واسطوں سے نواز شریف کو بھائے تھے ان کا ذکر ہمارے بہت ہی معتبر اور سینئر ساتھی عرفان صدیقی صاحب اپنے کالموں میں تفصیل سے بیان کرچکے ہیں۔

واسطوں اور سفارشوں کے ذریعے ریاست کے طاقتور ترین ادارے کی سربراہی سنبھالنے کے بعد قمر جاوید باجوہ صاحب کو خیال آیا کہ نواز شریف کو بے اختیار بنانے والی ہانڈی پکنے کو تیار ہے۔ اسے ضائع کرنا زیادتی ہوگی۔ ویسے بھی اس ہانڈی میں موجود سب سے موٹی اور خوش ذائقہ ’بوٹیاں‘ باجوہ صاحب ہی کو نصیب ہونا تھیں۔ ہانڈی کو چولہے سے اتارنے کے بجائے انھوں نے اسے ’دم‘ پر لگانے کا فیصلہ کیا اور ’پانچویں پشت کی ابلاغی جنگ‘ کا ’تڑکہ‘ بھی کشتے کی صورت تیار کرنا شروع کردیا۔

جن دنوں یہ ’کشتہ‘ تیار ہورہا تھا میں بدنصیب تواتر سے اس کالم میں دہائی مچاتا رہا کہ ’ابلاغ‘ ایک مخصوص ہنر کا تقاضا کرتا ہے۔ مذکورہ ہنر کے بنیادی تقاضوں سے ہٹ کر تشکیل دیا ’ابلاغ‘ بندر کے ہاتھ آئے استرے کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔یہ فریاد اگر وطن دشمنی نہیں تو کم از کم ’جہالت‘ ضرور گردانی گئی۔ گزشتہ ایک برس سے ’ابلاغی جنگ‘ کے لیے تیار کیے ’ذہن ساز کمانڈوز‘ اب خود کو ’ٹکرکے لوگ‘ثابت کررہے ہیں۔ ان کے خالقوں اور سرپرستوں کو سمجھ ہی نہیں آرہی کہ اب کیا کریں۔

بہتر یہی ہوگا کہ عوام کی اجتماعی بصیرت پر اعتبار کریں۔’صحافت‘ جس کا کام اسی کو سانجھے ہی رہنے ہیں۔روایتی میڈیا اپنے شعبے کے بنیادی تقاضوں کے ساتھ سختی سے کاربند رہے تو سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلایا تمام تر ہیجان بالآخر ناکارہ ہی ثابت ہوگا۔ ریاست ’ذہن سازی‘ میں وقت ضائع نہ کرے۔ اپنے بنیادی فرائض پر توجہ دے اور ملک میں قانون کی حکمرانی اور استحکام اس ضمن میں اولین ترجیح ہیں۔