صحت

وہ وائرس جنھوں نے آپ کو انسان بنانے میں مدد کی

Share

اگرچہ وائرس عام طور پر بیماری پیدا کرنے اور بعض اوقات تباہ کن وبائی امراض سے وابستہ ہوتے ہیں لیکن انھوں نے انسانی ارتقا میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے کیونکہ ان کے تعاون کے بغیر آپ یہاں بالکل بھی نہ ہوتے۔

کولمبیا کے اینڈیز پہاڑوں میں پائی جانے والی مابویا چھپکلیاں دوسرے رینگنے والے جانوروں کی طرح نہیں ہیں۔ اگرچہ رینگنے والے جانوروں کی اکثریت سخت خول کے انڈے دیتی ہیں لیکن کچھ مابویا نسلیں براہ راست بچوں کو جنم دیتی ہیں۔ یہ انتہائی اہم ہے کہ ایسی ماؤں کے پاس نال یعنی ایسی نلی ہوتی ہے جو ان کے جسم کے اندر پلنے والے بچوں کو غذا فراہم کرنے کے لیے مخصوص اعضا ہیں۔

پلیسنٹاس یا آنول یا نال عام طور پر چوہوں اور انسانوں جیسے دودھ پلانے والے جانوروں سے وابستہ ہوتی ہیں اور ہم نال والے ممالیہ ہیں۔ لیکن دوسری قسم کے جانداروں میں بھی نال پائی جاتی ہے۔

سنہ 2001 میں کولمبیا کے بوکرامنگا میں واقع انڈسٹریل یونیورسٹی آف سینٹینڈر کی ماہر حیوانیات مارتھا پیٹریشیا رامیریز-پینیلا اور ایڈریانا جیریز نے انکشاف کیا کہ مابویا چھپکلیوں میں انتہائی ترقی یافتہ نال ہوتی ہیں، جو ہم انسانوں سے زیادہ مختلف نہیں ہوتیں۔

اگرچہ ایک رینگنے والے جانور میں، جو چھلکے والے انڈے دیتا ہے، اس کا پایا جانا کافی حیران کن تھا لیکن اصل انکشاف 16 سال بعد اس وقت سامنے آیا جب رامیریز پنیلا نے فرانس کے پیرس میں گستاو روسی کے ماہر جینیات تھیری ہیڈمین اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ مل کر کام کیا۔ انھوں نے پایا کہ ان چھپکلیوں میں ایک جین ہے جو نال کی تشکیل کے لیے ضروری ہے اور یہ جین ان میں وائرس سے آیا ہے۔

پچھلے تقریبا ڈھائی سو لاکھ سال کے اندر چھپکلیوں کے آباؤ اجداد ایک وائرس کی زد میں آئے اور انھوں نے اس کے ڈی این اے کو اپنے جینوم میں شامل کر لیا۔ لیکن ضرر اٹھانے کے بجائے ان چھپکلیوں نے کسی نہ کسی طرح وائرس والے ڈی این اے کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کر لی اور اسے اپنی پہلی نال تیار کرنے کے لیے استعمال کیا۔ یعنی وائرس کی بدولت چھپکلیوں کو ایک نیا عضو ملا۔

ہیڈمان کا کہنا ہے کہ ‘جینومک حصول کے ساتھ ہی بغیر نال والی چھپکلی نال والی چھپکلی میں تبدیل ہوئی۔’

تاہم اس کہانی کی اہم بات یہ ہے کہ یہ غیر معمولی نہیں ہے۔ انسانی جینوم کا تقریباً دس فیصد حصہ وائرس سے آتا ہے، اور یہ کہ وائرل ڈی این اے نے ہماری ارتقاء میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس میں سے کچھ ممالیہ نال کا ذریعہ بنا۔ اس کے دیگر حصے بیماری کے خلاف ہمارے مدافعتی ردعمل اور نئے جینز کی تشکیل میں شامل ہیں۔ ایسے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ وائرس کے بغیر انسان ترقی نہیں کر سکتا تھا۔

وائرس اتنے سادہ سے ہیں کہ بہت سے ماہرین حیاتیات انھیں مکمل طور پر زندہ نہیں مانتے۔ ہر وائرس بنیادی طور پر جینیاتی مواد کا ایک انتہائی چھوٹا پیکج ہے۔ وہ صرف زندہ خلیوں کو متاثر کر کے دوبارہ پیدا کر سکتے ہیں یعنی وہ خود کی نقلیں بنانے کے لیے سیل کی مشینری کو خراب کر دیتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے وہ اکثر اپنے میزبانوں کو بیمار کردیتے ہیں۔

وہ وائرس جو میزبان کے جینوم میں اپنا جینیاتی مواد داخل کرتے ہیں انھیں ریٹرو وائرس کہتے ہیں۔ ان کی نوعیت کو پہلی بار سنہ 1960 اور 1970 کی دہائیوں میں سمجھا گیا تھا، حالانکہ کچھ وائرس کو دہائیوں پہلے الگ کر لیا گیا تھا۔ سنہ 1964 میں یہ بات کہی گئی کہ کچھ وائرس اپنے میزبانوں کے ڈی این اے میں اپنے جینیاتی مواد کو کاپی کر سکتے ہیں اور پھر محققین نے مرغیوں کے جینوم میں وائرس سے آنے والے ڈی این اے کی نشاندہی بھی کی۔

وائرسوں کا ایک بڑا اور متنوع گروپ ہے۔ اس کے باوجود ابھی تک صرف چار ریٹرو وائرسوں کی نشاندہی کی گئی ہے جو کہ انسانوں کو متاثر کرنے کے کے اہل مانے گئے ہیں۔ یہ سب سنہ 1980 کی دہائی میں دریافت ہوئے۔ ان میں سے ایک جسے ایچ ٹی ایل وی-1 کہا جاتا ہے اور یہ ایک قسم کے کینسر کا موجب بنتا ہے۔ اسی سے ملتا جلتا وائرس ایچ ٹی ایل وی-2 ہے۔ اس کے علاوہ ایچ آئی وی ایک اور دو ہے جو ایڈز کا باعث بنتا ہے۔

اگر کوئی ریٹرو وائرس کسی شخص کے پھیپھڑوں یا جلد کے کسی خلیے کو متاثر کرتا ہے تو یہ اس شخص کے لیے بری خبر ہو سکتی ہے۔ لیکن اس کے ہماری نسل کے ارتقاء میں محدود نتائج ہیں کیونکہ اس کے ڈی این اے اگلی نسل میں منتقل نہیں ہوتے۔ تاہم، بعض اوقات ریٹرو وائرس جرم لائن میں داخل ہو جاتا ہے۔ جرم لائن وہ خلیے ہیں جو بیضے اور منی میں اضافہ کرتے ہیں جہاں سے وائرس والے ڈی این اے ہماری اولاد میں منتقل ہو سکتا ہے۔ وائرس والے یعنی وائرل ڈی این اے کے یہ ٹکڑے انڈوجینس ریٹرو وائرس یا ای آر ویز کہلات ہیں۔ یہ وائرل ڈی این اے نسل در نسل منقل ہونے والے ٹکڑے ہیں جو ارتقاء کی راہ کو بدل سکتے ہیں۔

ہر جگہ ای آر ویز

انسانی ای آر ویز کا شفاف پیمانہ اس وقت سامنے آیا جب انسانی جینوم کا پہلا مسودہ سنہ 2001 میں شائع ہوا تھا۔ ہیڈمین کہتے ہیں کہ اس میں ‘یہ پتہ چلا کہ وائرل ترتیب کی ایک بڑی مقدار تھی۔ اور انسانی جینوم کا تقریباً آٹھ فیصد ای آر ویز پر مشتمل ہے۔

ان میں سے کچھ تو واقعی قدیم ہیں۔ سنہ 2013 میں ہونے والی ایک تحقیق نے انسانی کروموزوم 17 پر ایک ای آر وی کی نشاندہی کی جو کہ کم از کم 104 ملین سال پرانا اور شاید اس سے زیادہ پرانا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک وائرس کا کارنامہ ہے جس نے ایک ممالیہ جانور کو اس دور میں متاثر کیا تھا جب ڈائنوسار اس دھرتی پر حکومت کرتے تھے۔ ای آر وی صرف نال والے ممالیہ جانوروں میں پایا جاتا ہے، اس لیے ہو سکتا ہے کہ یہ نال دار ممالیہ میں اپنے مارسوپیئل یا تھیلی دار کزنز سے الگ ہونے کے فوراً بعد ہی ضم ہوا ہو۔

ای آر ویز صرف ممالیہ اور رینگنے والے جانوروں تک ہی محدود نہیں ہیں۔ اٹلی کی یونیورسٹی آف کیگلیاری میں مالیکیولر وائرولوجسٹ نکول گرانڈی کا کہنا ہے کہ ‘تمام فقاری (ریڑھ کی ہڈی والے) جانوروں میں اینڈوجینس ریٹرو وائرس ہوتے ہیں۔’

زیادہ تر انسانی ای آر ویز صرف ہماری اقسام کے ساتھ مخصوص نہیں ہیں یہ کچھ دوسرے پرائمیٹ (دودھ پلانے والے اعلی درجے کے جانور) جیسے چمپینزی میں بھی پائے جا سکتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ لاکھوں سال پہلے پرائمیٹ جینوم میں داخل ہوئے، ہماری اپنی نسلوں کے ارتقاء سے بہت پہلے، اور پھر ہم نے انھیں اپنے بندر آباؤ اجداد سے وراثت میں حاصل کیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ پچھلے چند ہزار سالوں میں انسانی جینوم میں نئے ای آر ویز کے داخل ہونے کے کوئی شواہد نہیں ملے ہیں۔ گرانڈی کا کہنا ہے کہ ہماری نسلوں کو فی الحال صرف ایچ ٹی ایل وی اور ایچ آئی وی ریٹرو وائرس سے نمٹنا ہے اور ابھی تک ان میں سے کسی کی بھی جرم لائن کے خلیوں کو متاثر کرنے کی اطلاع نہیں ملی ہے۔

کرانڈی کہتے ہیں کہ ‘فی الحال ہم انسانوں میں فعال اینڈوجینائزیشن نہیں دیکھ رہے ہیں۔’

اور یہ جانوروں کی کچھ دوسری اقسام کے بالکل برعکس ہے۔ کوالا پر فی الحال کوالا ریٹرو وائرس (کے او ار وی) کے حملے کا سامنا ہے کیونکہ اس کے ڈی این اے کچھ کوالا میں تو پائے جاتے ہیں اور کچھ میں نہیں۔ لہذا کوآلا کے جینیاتی ماہرین ‘ریئل ٹائم میں جینوم کے ایک حملے’ کو دیکھنے کے قابل ہیں۔

وائرس

پلیسنٹا یعنی نال کی ابتدا

انسانی ای آر ویز کو اصل میں غیر فعال ‘فوسل سیکوئنس’ (محجر ترتیب) یا جینوم کے ‘جنک ڈی این اے’ کا حصہ سمجھا جاتا تھا۔ تاہم، بہت سارے فضول ڈی این اے کے بارے میں یہ پتہ چلا کہ وہ مشترک طور پر فعال ہیں۔

انسانی جینوم میں سب سے زیادہ مطالعہ شدہ ای آر ویز کو ایچ ای آر وی-ڈبلیو کہا جاتا ہے اور اسے پہلی بار سنہ 1999 میں اسی طرح بیان کیا گیا تھا۔ وہ جن پروٹین کو بناتے ہیں یا معلومات دیتے انھیں سنسائٹنز کہا جاتا ہے اور یہ پلیسنٹا یا نال میں پائے جاتے ہیں۔ ہو بہو مابویا چھپکلیوں کی طرح یہ وائرل جین نال کی تشکیل کے لیے ضروری ہیں۔

وائرس اور نال کے درمیان یہ ربط تب سمجھ میں آتا ہے جب آپ اس بات پر غور کرتے ہیں کہ آخر یہ سنسائٹنز کیا اصل میں کیا کرتے ہیں۔ یہ پروٹین دو یا دو سے زیادہ خلیوں کو ایک میں ملانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جب وہ وائرل پروٹین تھے تو ان کا وائرس نے سیل کی بیرونی جھلی کے ساتھ فیوز کرنے کے لیے استعمال کیا اور اس طرح اسے متاثر کیا۔ اس فیوژن کی صلاحیت سے نال نے ہم آہنگی پیدا کی۔ ماں کے خلیات اور جنین کے خلیات کو ملا کر نال جنین میں غذائی اجزاء منتقل کر سکتا ہے اور فضلہ نکال سکتا ہے۔

اور یہ صرف انسانوں کے ساتھ ہی مخصوص نہیں ہے۔ اسی طرح کے سنسائٹن پروٹین دوسرے بندروں جیسے گوریلوں میں پائے جاتے ہیں۔ مزید حالیہ مطالعات سے پتا چلتا ہے کہ ریٹرو وائرس نے اپنی ارتقائی تاریخ میں ممالیہ جانوروں کو بار بار متاثر کیا ہے۔ شاید اسی لیے ممالیہ جانوروں کے مختلف گروہوں میں اکثر مختلف ریٹرو وائرس سے اخذ کردہ مختلف سنسائٹنز ہوتے ہیں۔

ہیڈمین کہتے ہیں: ‘ہم یہ فرض کرتے ہیں کہ درحقیقت 150 ملین سال پہلے ایک بانی ای وی آر کا قبضہ ہوا تھا جس کی وجہ سے نال والے ممالیہ کا ظہور ہوا۔’ اس کے بعد بار بار ہونے والے انفیکشن یا اثرات نے اس اصل ای آر وی کو اوور رائٹ کر دیا۔ شاید اسی لیے یہ کسی زندہ ممالیہ میں نہیں پائے جاتے۔ مابویا چھپکلی کا مطالعہ اہم تھا کیونکہ اس نے یہ ظاہر کیا کہ چھپکلیوں نے وائرس سے ای آر وی حاصل کرنے کے بعد ہی نال حاصل کی ہے۔ جس سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ تمام نال والے ممالیہ جانوروں کے اجداد میں بھی ایسا ہی ہوا ہوگا۔ ہیڈمین نے کہا: ‘اس نے نال کے حصول اور سنسائٹن کے حصول کے درمیان تعلق کو ظاہر کیا۔’

سنسائٹنز اور نال کی کہانی وائرل ڈی این اے کی سب سے زیادہ ڈرامائی مثالوں میں سے ایک ہے جس نے ارتقاء کو متاثر کیا ہے۔ یہ خاص طور پر قابل ذکر ہے کیونکہ ایک مکمل وائرل جین انسانی جینوم میں زندہ ہے اور ایک پروٹین کو انکوڈ کرتا ہے یعنی لکھتا ہے۔ بہت سے دوسرے ای آر ویز پروٹین کو انکوڈ نہیں کرتے ہیں، لیکن پھر بھی ان کے اپنے کام ہوتے ہیں۔

کچھ ای آر ویز سٹیم سیلز میں کردار ادا کرتے ہیں اور اس طرح کے ملٹی پرپز یعنی کثیر المقاصد خلیے جنین کی نشوونما میں پائے جاتے ہیں۔ کچھ سٹیم سیلز کثیر الاختیار ہوتے ہیں یعنی وہ نیوران سے لے کر پٹھوں کے ریشوں تک جسم کے کسی بھی قسم کے خلیے میں بدل سکتے ہیں۔

ریٹرو وائرس کا ایک خاندان جسے ایچ ای آر وی-ایچ کہا جاتا ہے، وہ کثیر جہتی اہلیت کے حامل ہونے کے لیے ضروری ہیں۔ تاہم، وہ پروٹین کے لیے کوڈ نہیں کرتے ہیں۔ اس کے بجائے ایچ ای آر وی-ایچ سیکوئنس ایسے مالیکیولز پر نقل کیے جاتے ہیں جسے آر این ایز کہا جاتا ہے اور یہ سیل کو پلوریپوٹینٹ یعنی کثیر جہتی اہلیت رکھتے ہیں۔ میری لینڈ کے بیتھسڈا میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف الرجی اینڈ انفیکٹو ڈیزیز کی ماہر وائرولوجسٹ کرسٹین کوزاک کہتی ہیں: ‘اگر انھیں دبایا جائے تو سیل کی شکل بدل جاتی ہے اور یہ اپنی تفریق نہ کرنے کی حالت کو برقرار رکھنے کی صلاحیت کھو دیتا ہے۔’

دوسرے ای آر ویز جینز کی سرگرمیوں کو کنٹرول کرتے ہیں، اور اس طرح وہ جسمانی عمل کو کنٹرول کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ہمارے جسم ہمارے کھانے میں نشاستہ کی طرح کے کاربوہائیڈریٹس کو توڑنے کے لیے امائلیز نامی انزائم کا استعمال کرتے ہیں۔ گرانڈی کا کہنا ہے کہ ‘ہمارے لبلبہ میں امائلیز ہے اور ہمارے منہ کے لعاب یا سلائیوا میں امائلیز ہے۔’ امائلیز جین لعاف والے غدود میں ڈی این اے کے سیکوئنس کے ذریعے فعال ہوتا ہے جسے پروموٹر کہتے ہیں اور یہ ای آر وی سے آتا ہے۔

وہ وائرس جو ہمیں صحت مند رکھتے ہیں

اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ ای آر ویز وائرس سے آتے ہیں اور بہت سے سائنسدان صحت اور بیماری میں ان کے کردار کو جاننے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ایسی ہی ایک مثال سنہ 2022 میں نیویارک کے اتھاکا میں کارنیل یونیورسٹی کے مالیکیولر بائیولوجسٹ اور جینیاتی ماہر سیڈرک فیشوٹے کی سربراہی میں کی جانے والی تحقیق میں پیش کی گئی تھی۔ یہ ٹیم انسانوں میں ایک ایسے واقعے کی مثال تلاش کرنے کی کوشش کر رہی تھی جو دوسرے جانوروں میں پہلے سے ہی معلوم ہے۔

بعض اوقات ای آر وی جین پروٹین کے لیے کوڈ کرتے ہیں جسے مدافعتی نظام اپنے ساتھ ہم آہنگ کر لیتا ہے اور اسے پھر دوسرے وائرس سے لڑنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ہدف والے وائرس کا اس وائرس سے گہرا تعلق ہو سکتا ہے جس نے پہلی پہل ای آر وی کو فروغ دیا، یا پھر اس سے دور کا ہی تعلق ہے۔ فیشوٹے کا کہنا ہے کہ ERVs سے اینٹی وائرل پروٹینز کا مطالعہ چوہوں، مرغیوں اور بلیوں میں کیا گیا ہے۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ ‘میرے علم میں انسانی جینوم میں اس کی کوئی مثال نہیں ملی ہے۔’

ٹیم نے انسانی جینوم میں معلوم ای آر ویز کو سکین کیا اور سینکڑوں ایسے سلسلے کی نشاندہی کی جو ممکنہ طور پر اینٹی وائرل پروٹین کو انکوڈ کر سکتے ہیں۔ اس کے بعد انھوں نے سپریسن نامی ایک جین تک پہنچے یعنی ان پر توجہ مرکوز کی جو کہ وائرس کے بیرونی خول بنانے والے پروٹین کی طرح کے ایک پروٹین کو انکوڈ کرتا ہے۔ سپریسن پروٹین ریٹرو وائرس کو خلیات میں داخل ہونے سے روکتا ہے، کیونکہ یہ خلیے کی بیرونی جھلی پر رسیپٹرز سے منسلک ہوتا ہے جسے وائرس خود سیل میں داخل ہونے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ فیشوٹے اس کا موازنہ کسی تالے میں ٹوٹی ہوئی چابی ڈالنے سے کرتے ہیں جو کسی کو دروازہ کھولنے سے روکتا ہے۔

سپریسن زیادہ تر نال اور ترقی پذیر ایمبریو یا جنین میں پایا جاتا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس کا اصل استعمال ریٹرو وائرس کو ان جنین کو متاثر کرنے سے روکنے کے لیے تھا جن کا مدافعتی نظام بہت کمزور ہوتا ہے۔ فیسشوٹے کا کہنا ہے کہ ‘یہ مجموعی طور پر اورگینزم کے بجائے جرم لائن کی حفاظت کرتا ہے۔’

لیکن ان کا خیال ہے کہ ای آر ویز شاید ہمارے مدافعتی نظام میں بہت کچھ کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘ہمارے پاس 1500 امیدوار ہیں۔ یہ بہت سارے جینز ہیں۔’ اگرچہ بہت سے جینیاتی ماہرین اب بھی ای آر ویز کو غیر فعال یا عیب دار سمجھتے ہیں اور یہ گمراہ کن خیال ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘وہ زوال پذیر ہیں لیکن وہ اب بھی آر این اے بناتے ہیں اور وہ اب بھی بہت سارے پروٹین بناتے ہیں۔ ہمیں اس پر اچھی طرح سے نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔’ اور تصویر ابھی ابھر ہی رہی ہے۔ اپریل سنہ 2023 میں شائع ہونے والی ایک تحقیق سے پتا چلا ہے کہ کچھ ای آر ویز مدافعتی نظام کو کینسر کے خلیوں کو نشانہ بنانے میں مدد کرتے ہیں۔

وائرس

کیا ای آر ویز ہمیں بیمار کرتے ہیں؟

جہاں وہ ہمیں بیماری سے بچا سکتے ہیں وہیں اس بات پر حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ ان میں سے کچھ ای آر ویز ہم انسانوں میں صحت پر منفی اثرات پیدا کرنے کے ذمہ دار ہو سکتے ہیں۔ کوزاک کا کہنا ہے کہ ‘ابھی اس امکان میں بہت زیادہ دلچسپی ہے کہ انسانی ای آر ویز بیماری سے منسلک ہو سکتے ہیں۔ اس موقع پر بہت سارے مجوزہ شواہد موجود ہیں لیکن کوئی ثبوت نہیں ہے۔’

فیشوٹے کا خیال ہے کہ ای آر ویز واقعتا کیا کرتے ہیں اس پر غور خوض کرنا ضروری ہے۔ اور ہم نے ہمیشہ درست نہیں کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘جب سے اینڈوجینس ریٹرو وائرس دریافت ہوئے ہیں، لوگ ان کو کینسر سے جوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جانوروں میں جب یہ پہلی بار دریافت ہوئے تھے پتا چلا تھا کہ یہ کینسر کا سبب بن رہے ہیں۔ پیسے دینے والوں نے ای آر ویز کی حقیق پر اس امید پر ٹنوں پیسے لگائے’ کہ یہ کینسر کے میکانزم کو بے نقاب کرے گا اور اس طرح ممکنہ علاج ہو سکے گا ‘لیکن بہت سے لوگ خالی ہاتھ واپس آئے۔’

اہم نکتہ یہ ہے کہ انسانی ای آر ویز وائرس بنانے کے قابل نہیں ہیں، جو کہ دوسرے خلیوں کو متاثر کر سکیں۔

فیشوٹے کہتے ہیں کہ ‘چوہوں اور چکن میں ان کی بڑی تعداد ہے۔ وہ ہر قسم کی بیماریوں کا باعث بن سکتے ہیں۔‘

تاہم انسانوں میں پائے جانے والے ای وی آر جینوم کے قابو میں ہیں لہذا ان سے وائرل انفیکش نہیں ہوتے۔

فیشوٹے نے کہا کہ ’میرے خیال میں اس کا شاید تعلق جینیاتی نگرانی یا عدم نگرانی سے ہے۔‘ چونکہ ای آر ویز وسیع تعداد میں انسانی جینوم میں پھیلے ہوئے ہیں، اس لیے یہ سیکونس (ترتیب) کے فاصلوں پر موجود متعدد جینز کے درمیان رابطہ قائم کرا سکتے ہیں۔

جسم کے کئی نظام چلنے کے لیے ضروری ہے کہ جینز ایک سیکونس میں آن یا آف ہوں۔ اسے ای آر وی کنٹرول کرتے ہیں۔ ’اب ہم بیماری میں اس کے کردار پر نظر ثانی کر رہے ہیں مگر اس کا طریقہ مختلف ہے۔‘

بیماری میں ای آر وی کے کردار پر فی الحال پردہ ڈالا گیا ہے۔ مگر یہ واضح ہے کہ وہ ارتقا کا انجن ہیں۔ ہمارے جینوم میں ڈی این اے کے نئے حصے شامل کر کے وائرسز نے جینیاتی ڈھانچے میں بڑی تبدیلیاں کی ہیں۔

ای آر وی اپنی جگہ پر رہتے ہوئے ڈی این اے میں نقل اور حذف کا باعث بن سکتے ہیں۔ یہ وہ تبدیلیاں ہیں جو دراصل مفید ہوتی ہیں اور پھیلتی ہیں۔ انسانوں سمیت کوئی بھی جانور ان کے بغیر زندہ نہ رہ سکے۔

آخری سبق یہ ہے کہ انسان صحیح معنوں میں ارتقا سے وجود میں آنے والی مخلوق ہے۔ ہم میں سے کچھ کے جینوم میں قریب دو فیصد ڈی این اے نینڈرتھل کا ہے۔ کچھ آبادی میں معدوم ہونے والے دوسرے انسانی گروہ ڈینیسووان کے ڈی این اے کا کچھ حصہ ہے۔ ہم سب کے جینوم کا قریب آٹھ فیصد حصہ وائرس سے آتا ہے۔

فیشوٹے کا کہنا ہے کہ ’اگر آپ انسانی جین میں پائی جانے والی تفصیلی فہرست کا جائزہ لیں تو یہ بڑا اہم سوال بنتا ہے۔‘

قریب 20 ہزار پروٹین کوڈنگ جینز کا علم ہے جبکہ ڈی این اے کا کچھ حصہ وائرسز سے آتا ہے۔ ’یہ حیرت انگیز بات ہے۔‘