کھیل

41 سالہ دھونی کی کپتانی کا سحر ٹوٹ کیوں نہیں پا رہا؟

Share

تقریباً 15 سال قبل، جب ایک 38 سالہ کپتان نے اپنی ٹیم کو انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) کے پہلے ایڈیشن کا فاتح بنایا، تو بہت سے لوگوں کو لگا کہ یہ کہنا درست ہو گا کہ ’ان جیسا عظیم کھلاڑی اس سے پہلے ملک کی ٹیم کپتان نہیں رہا۔‘

شین وارن نے اس طرح سوچا یا نہیں، لیکن بطور کپتان، انھوں نے راجستھان رائلز کی اس جیت میں دوہرا کردار ادا کیا۔ ایک حکمت عملی کے طور پر اور دوسرا سننے والے اور مسئلہ حل کرنے والے کے طور پر۔

اگرچہ آسٹریلیا نے انھیں کبھی کپتان کے طور پر نہیں دیکھا، لیکن فرنچائز نے ایسا کیا اور انھوں نے (ٹرافی کے ساتھ) اس یقین کا بدلہ دیا۔

مہندر سنگھ دھونی نے کپتانی کا یہ کردار اتنی ہی سنجیدگی سے ادا کیا۔ اپنے 250ویں آئی پی ایل میچ میں، جس کا گذشتہ ہفتے فائنل بھی ہوا، دھونی چنئی سپر کنگز کے آن فیلڈ سٹریٹجسٹ ہیں۔ کرکٹ پر ان کی جتنی گرفت ہے، وہ اپنے کھلاڑیوں کی صلاحیتوں کو اتنا ہی سمجھتے ہیں۔

وہ جانتے ہیں کہ سکوائر لیگ پر کھڑے فیلڈر کو کب بائیں طرف لے جانا ہے، وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ کب کس کھلاڑی کو نظر انداز کرنا ہے یا اسے سخت چہرہ دکھانا ہے۔

جب دیپک چاہر نے فائنل میچ کے اوائل میں شبمن گل کا کیچ ڈراپ کیا تو دھونی صرف سٹمپ کے پیچھے اپنی جگہ پر واپس چلے گئے اور وہاں سے تالیاں بجا کر بولر (اور ممکنہ طور پر رن روکنے کے لیے فیلڈر) کی تعریف کی۔

دھونی کے نقطہ نظر کا احترام کیا گیا

ایم ایس دھونی

41 سال کی عمر اور 538 بین الاقوامی میچ کھیلنے کے بعد دھونی کی عمر اور تجربے کا احترام کرنا فطری تھا۔ لیکن ان کے رویے کا احترام اس ذہنیت کی وجہ سے کیا گیا کہ کھیل اہم ہے لیکن زندگی اور موت کا مسئلہ نہیں۔

آپ سے غلطی ہوتی ہیں، آپ کیچ ڈراپ کر جاتے ہیں، آپ کا ساتھی آپ کی غلطی کی وجہ سے رن آؤٹ ہو جاتا ہے، ایسی چیزیں ہوتی رہتی ہیں۔ لیکن اگر یہ سب کچھ سوچے سمجھے بغیر کیا جائے تو کپتان آپ سے کچھ کہہ سکتا ہے، ورنہ وہ اس پر زیادہ توجہ نہیں دیتا، آگے بڑھ جاتا ہے۔

کھیل کے دوران جب دھونی ایسی صورتحال میں آگے بڑھتے ہیں تو ان کی ٹیم بھی ایسا ہی کرتی ہے۔ پوسٹ مارٹم بعد کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے، میچ کے دوران نہیں۔

دھونی نے جب پہلی بار چنئی سپر کنگز کے لیے آئی پی ایل ٹرافی حاصل کی تو ان کی عمر 28 سال تھی اور یہ آئی پی ایل کا تیسرا ایڈیشن تھا۔ اس سے ایک سال قبل 38 سالہ ایڈم گلکرسٹ نے حیدرآباد کی ٹیم دکن چارجرز کے لیے یہ ٹرافی جیتی تھی۔

تو کیا آئی پی ایل کی کپتانی تجربہ کار کرکٹرز پر چھوڑ دی جائے جو اس تیزی سے بدلتے کھیل کو ہر زاویے سے دیکھ سکیں؟ کیا یہ بہتر ہے کہ آپ کے پاس ایک عوامی شخص بطور کپتان ہو کیونکہ ڈگ آؤٹ میں بیٹھے بڑی تنخواہیں حاصل کرنے والے سابقہ کھلاڑی حکمت عملی کو تیزی سے تبدیل کر رہے ہوتے ہیں۔

دھونی نے 35 سال کی عمر کے بعد اب اپنی ٹیم کو تین ٹرافیاں دلوائیں۔ ٹی ٹوئنٹی نوجوانوں کا کھیل ہو سکتا ہے لیکن ایک بڑی عمر کے کرکٹر کا بطور کپتان ہونا فائدہ مند رہا ہے، جس کی پوری ٹیم تقلید کرتے ہوئے کھیلے۔

’چلو کپتان کے لیے کر دکھائیں‘، ایک اچھی ٹیم پالیسی ہے جو کھل کر ٹیم ورک کے معیار کو فروغ دیتی ہے۔

اچھے کپتان کھلاڑیوں کے ساتھ اچھے سلوک اور انھیں عزت دے کر ایک اوسط درجے کی ٹیم کو بھی فاتح بنا سکتے ہیں اور یہ پیغام دیتے ہیں کہ وہ ان کے ساتھ ہیں۔

آخری دو گیندوں پر 10 رنز بنا کر چنئی سپر کنگز کے لیے ٹرافی جیتنے والے رویندر جڈیجہ نے کہا، ’یہ خطاب دھونی کے لیے ہے۔‘

ہاردک کو دھونی سے ہارنے کا افسوس نہیں ہے

ایم ایس دھونی
،تصویر کا کیپشنہاردک پانڈیا کا دھونی کے بارے میں کہنا تھا کہ ’اچھی چیزیں اچھے لوگوں کے ساتھ ہوتی ہیں۔ وہ سب سے اچھا شخص ہے جس سے میں ملا ہوں‘

’میں دھونی کے لیے بہت خوش ہوں۔‘ یہ حریف ٹیم کے کپتان کے الفاظ ہیں جو اس بات کی توثیق کرتے ہیں۔

ہاردک پانڈیا یہ بات اس وقت کہہ رہے تھے جب فائنل میچ کا فیصلہ تیسرے دن 1.30 بجے آیا (بارش کی وجہ سے پہلے دن میچ نہیں کھیلا جا سکا) اور دو ماہ کی جدوجہد کے بعد وہ فائنل میں پہنچے تھے، جو وہ ہار گئے۔

ہاردک نے کہا، ’ان سے ہارنے کا کوئی افسوس نہیں ہے۔ اچھی چیزیں اچھے لوگوں کے ساتھ ہوتی ہیں۔ وہ سب سے اچھا شخص ہے جس سے میں ملا ہوں۔‘

وارن اور دھونی دونوں باہر سے نرم نظر آتے ہیں لیکن درحقیقت مضبوط اور پرعزم شخصیت ہیں، وہ کھلاڑیوں کے ٹوٹے ہوئے حوصلے کو بلند کرتے ہیں اور انھیں خود ہی کامیابی دلانے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔

وارن نے ہی رویندرا جدیجا کو ’راک سٹار‘ کے طور پر نامزد کیا، ان کی آل راؤنڈ کرکٹ کی صلاحیتوں کے لیے نہیں بلکہ ان کے رویے اور وقت کی پابندی کے لیے۔ یہ ان پر جچتا ہے اور یہ نام آج بھی برقرار ہے۔

ایک عظیم کپتان وقت کے ساتھ ساتھ خود کو بے دخل کرنے لگتا ہے جب اس کی ٹیم اس کا فلسفہ سمجھ جاتی ہے اور کھلاڑی سمجھ جاتے ہیں کہ انھیں اپنا کام کیسے کرنا ہے۔

یہ دیکھنا دلچسپ ہ وگا کہ دھونی اگلے سال آئی پی ایل میں دوبارہ کھیلیں گے یا نہیں اور اگر وہ نہیں کھیلتے ہیں تو ان کی جگہ کپتان کون بنے گا۔

رتوراج گائیکواڈ کے نام کا کافی چرچا ہے لیکن اس تجربہ کار کھلاڑی کے بارے میں بات کرنا ضروری ہے کہ جو بظاہر قومی ٹیم میں جگہ بنانے کی جدوجہد کرتے نظر نہیں آتے۔

وارن نے چار سیزن کے بعد آئی پی ایل چھوڑ دیا تھا، تب ان کی ٹیم کو ایسا جادوئی کپتان نہیں ملا اور راجستھان رائلز پہلی بار اس کے بعد یہ ٹرافی نہیں جیت سکی۔