ہیڈلائن

اقتصادی سروے23-2022: صنعتی شعبہ سب سے زیادہ متاثر، 3 فیصد تک سکڑ گیا

Share

وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے قومی اقتصادی سروے برائے مالی سال 23-2022 پیش کردیا۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ اقتصادی سروے کا موضوع برآمدات، ایکویٹی، ایمپاورمنٹ، ماحولیات اور توانائی ہے۔

انہوں نے بتایا اقتصادی سروے 17 ابواب پر مشتمل ہے، جس کا مقصد گزشتہ چند برسوں میں ہوئی پاکستان کی معیشت کی زبوں حالی کو واپس ترقی کی جانب لے جانا ہے۔

شرح نمو

وزیر خزانہ کی جانب سےفراہم کردہ دستاویزات کے مطابق پاکستان نے ختم ہونے والے مالی سال کے لیے مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کی شرح نمو 0.29 فیصد حاصل کی، جس سے 5 فیصد کا ہدف بڑے مارجن سے حاصل نہیں ہوا۔

یہ معمولی نمو زراعت، صنعت اور خدمات کے شعبوں میں بالترتیب 1.55 فیصد، 2.94 فیصد، اور 0.86 فیصد رہی۔

سب سے زیادہ قابل ذکر کمی صنعتی شعبےکا 2.94 فیصد سکڑاؤ تھا، جو کہ 7.1 فیصد ترقی کے ہدف کے مقابلے میں تھا۔

افراطِ زر

دستاویزات کے مطابق پاکستان میں جولائی 2022 سے مئی 2023 تک کے 11 ماہ کے عرصے میں 28.2 فیصد مہنگائی ریکارڈ کی گئی، جو گزشتہ سال کی اسی مدت میں 11 فیصد تھی۔

حکومت نے مالی سال 2023 کے لیے مہنگائی کا ہدف 11.5 فیصد رکھا تھا لیکن روپے کی قدر میں تیزی سے کمی، درآمدات مہنگی ہونے کے نتیجے میں عالمی سطح پر سپلائی کی رکاوٹ کی وجہ سے یہ ہدف ہاتھ سے نکل گیا۔

ایف بی آر کی ٹیکس کلیکشن

فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی ٹیکس وصولی جولائی سے اپریل تک 16.1 فیصد بڑھ کر 56 کھرب 37 ارب 90 کروڑ روپے ہوگئی۔

ٹیکس کلیکشن ایک سال پہلے کی مدت میں 48 کھرب 55 ارب 80 کروڑ روپے تھی۔

گزشتہ مالی سال کے بجٹ میں حکومت کی جانب سے 12 ماہ کی مدت کے لیے وصولی کا ہدف 74 کھرب 70 ارب روپے رکھا گیا تھا۔

تجارتی خسارہ

سروے دستاویز سے پتا چلتا ہے کہ جولائی سے مارچ کے دوران پاکستان کی برآمدات 9.9 فیصد کم ہو کر 21 ارب ڈالر رہ گئیں جو گزشتہ سال کی اسی مدت میں 23 ارب ڈالر تھیں۔

دریں اثنا اسی مدت کے دوران درآمدات 43 ارب 70 کروڑ ڈالر رہیں جو گزشتہ سال کی اسی مدت میں 58 ارب 90 کروڑ ڈالر کے مقابلے میں 25.7 فیصد کی کمی کو ظاہر کرتی ہیں۔

یہ کمی بنیادی طور پر پالیسی میں سختی اور دیگر انتظامی اقدامات کی وجہ سے ہوئی ہے کیونکہ حکومت اپنے کم ہوتے زرمبادلہ کے ذخائر کو بچانے کی کوشش کر رہی تھی۔

اس کے نتیجے میں ملک کا تجارتی خسارہ نمایاں طور پر سکڑ کر جی ڈی پی کے 6 فیصد تک پہنچ گیا، جو کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں 10.4 فیصد تھا۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ اگر یہ حکومت ذمہ داری نہ سنبھالتی تو نہ جانے ملک کہاں کھڑا ہوا تھا کیوں کہ ہماری حکومت آنے سے قبل آخری تیسری سہ ماہی میں غیر ملکی زرِ مبادلہ میں 6 ہزار 400 ارب ڈالر کی کمی ہوئی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ معیشت میں جو گراوٹ ہورہی تھی وہ رک چکی ہے اب ہماری کوششیں اسے ترقی کے راستے پر لے جانا ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ سال 2018 میں مالی خسارہ 5.8 فیصد تھا جو گزشتہ سال جب نئی حکومت نے ذمہ داری سنبھالی تو 7.9 فیصد پر پہنچ گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ تجارتی خسارہ 2018 میں 30.9 ارب ڈالر سے گزشتہ سال 39.1 ارب ڈالر جبکہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جی ڈی پی کے 4.7 فیصد سے 17.5 ملین ڈالر تک جا پہنچا، غیر ملکی سرمایہ کاری 2.8 ارب ڈالر سے سکڑ کر 1.9 ارب ڈالر رہ گئی اور پبلک پالیسی ریٹ 6.5 فیصد سے پونے 14 فیصد ملا۔

وزیر خزانہ نے بتایا کہ توانائی کے شعبے کا گردشی قرض ہر سال 129 ارب روپے کے حساب سے بڑھ رہا تھا جو 2018 میں 1148 ارب چار سال کی قلیل مدت میں 2 ہزار 467 ارب تک جا پہنچا یعنی اس میں 330 سالانہ اضافہ ہوا۔

انہوں نے بتایا کہ سال 2018 میں سرکاری قرض جی ڈی پی کے 63.7 فیصد تھا وہ 73.9 فیصد تک جا پہنچا جو بہت بڑا اضافہ ہے۔

اسحٰق ڈار نے کہا کہ اس وقت ریونیو کلیکشن کا بڑا حصہ سود کی ادائیگی میں خرچ ہورہا ہے جبکہ اسی ملک کی 2017 میں سود کی ادائیگی 18 سو ارب روپے سے کم تھی جو آج 7 ہزار ارب تک پہنچ چکی ہے۔

انہوں نے اس کی وجہ بد انتظامی، قرضوں کے انبار لگانے، پالیسی ریٹ میں اضافے کو قرار دیا جو غیر مستحکم ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ اس سب کچھ کے بعد تابوت میں آخری کیل جو ثابت ہوئی اس نے پاکستان کے بھروسے اور ساکھ کو متزلزل کر کے رکھ دیا، اگر آپ نے کوئی خود مختار وعدہ کیا ہے تو وہ کسی سیاسی جماعت کا نہیں ہوتا بلکہ پاکستان کا ہوتا ہے اور ہمیں اسی طرح پورا کرنا چاہیے لیکن جب دیکھا کہ ہم حکومت سے نکلنے والے ہیں تو وعدے پورے نہیں کیے گئے بلکہ انہیں ریورس کردیا جس سے عالمی مالیاتی اداروں میں پاکستان کی ساکھ متاثر ہوئی۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ اس بدقسمتی میں کچھ عالمی منفی اشاروں نے بھی کردار ادا کیا اس میں عالمی جی ڈی پی شرح نمو میں 50 فیصد کمی آگئی ہے، عالمی افراطِ زر میں 85 فیصد کا اضافہ ہوا۔

انہوں نے کہا کہ عالمی تجارت کی شرح نمو میں 5 گنا کمی واقع ہوئی اور گلوبل ولیج ہونے کی وجہ سے پاکستان بھی اس سے متاثر ہوا۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ اس کے علاوہ پاکستان کو سیلاب کی قدرتی آفت کا سامنا کرنا پڑا، جس کے نتیجے میں معاشی اور املاک کا تقریباً 30 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔

انہوں نے کہا کہ جائزے میں یہ بات سامنے آئی تھی تعمیر نو کے لیے 16 ارب ڈالر درکار ہوں گے جس کا نصف ہم خود پورا کریں گے لیکن دوحہ میں ہوئی ڈونرز کانفرنس میں ہماری توقع سے زیادہ امداد کے وعدے کیے گئے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ 2019 کا آئی ایم ایف پروگرام 2023 میں ختم ہونا چاہیے تھا، اس کے علاوہ ہم نے پوری کوشش کی اور اس کی بھاری سیاسی قیمت ادا کی، اتنی مشکل اصلاحات مینڈیٹ لے کر آنے والی نئی حکومت تو کر سکتی ہے لیکن ایک حکومت جس کو پتا ہو کہ اس کے پاس 14 ماہ ہیں اس کے لیے بہت بڑا چیلنج تھا۔

وزیر خزانہ ہمیں خاصے تکلیف دہ اقدامات اٹھانے پڑے ہم ایک وچ سائیکل میں پھنس چکے ہیں جب کرنسی کی قدر میں کمی ہوتی ہے تو مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے جس کے نتیجے میں پالیسی ریٹ بڑھانا پڑتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج لوگ گھبرائے ہوئے ہیں، مارکیٹ کے اثرات منفی ہیں، جب میں آیا تو کہا گیا کہ ڈالر 200 سے نیچے آئے گا لیکن جو کہ آنا چاہیے تھا اور 190 تک آیا تھا لیکن نہ جانے کون سے خفیہ ہاتھ ہیں کہ جب میں واشنگٹن گیا تو یہ رجحان پلٹ گیا۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ ہماری کرنسی مصنوعی وجوہات کی وجہ سے انڈر ویلیو ہے جنہیں ہمیں دور کرنا اور ہم کررہے ہیں، اللہ نے چاہا تو یہ خودبخود بہتر ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے غیر ملکی قرضوں میں 4 ارب ڈالر کمی ہوئی ہے، لیکن آئی ایم ایف پروگرام میں تاخیر کی وجہ سے مارکیٹ کا کمزور تاثر بنا ہوا ہے اور ہماری حکومت کی پہلی ترجیح یہ ہے کہ واجبات کو وقت پر ادا کردیا جائے باقی تمام کاروبار اس کے بعد ہوں گے۔

خیال رہے کہ اقتصادی سروے وزارت خزانہ کی ایک سالانہ فلیگ شپ اشاعت ہے جو اہم معاشی اشاریوں، ترقیاتی پالیسیوں، حکمت عملیوں کے ساتھ ساتھ معیشت کی شعبہ جاتی کامیابی کے رجحان کو اجاگر کرتا ہے۔

ہر سال آئندہ مالی سال کا بجٹ ٌپیش کیے جانے سے ایک روز قبل اقتصادی سروے جاری کیا جاتا ہے۔

قبل ازیں وزیر خزانہ پاکستان کے اقتصادی سروے 23-2022 کی کاپی آج وزیر اعظم ہاؤس میں نے وزیر اعظم شہباز شریف کو پیش کی۔