کھیل

شعیب ملک کی ففٹی، پہلے ٹی20 میچ میں پاکستان کامیاب

Share

کچھ عرصہ قبل پی سی بی کے چئیرمین احسان مانی میڈیا کو یہ بتاتے پائے گئے تھے کہ ڈومیسٹک سرکٹ کو انٹرنیشنل معیارات کے برابر لانے کے لیے وسیع پیمانے پہ تبدیلیاں کی جا رہی ہیں۔

پاکستان نے شعیب ملک کی عمدہ بیٹنگ کی بدولت بنگلہ دیش کو پہلے ٹی20 میچ میں 5وکٹوں سے شکست دے کر سیریز میں 0-1 کی برتری حاصل کر لی۔

لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں کھیلے گئے تین ٹی20 میچوں کی سیریز کے پہلے میچ میں بنگلہ دیش کے کپتان محموداللہ نے ٹاس جیت کر پاکستان کو باؤلنگ کی دعوت دی۔

پاکستان کی ٹیم دورہ آسٹریلیا کے مقابلے میں بالکل نئی شکل میں نظر آئی اور تجربہ کار شعیب ملک اور محمد حفیظ کی ٹیم میں واپسی ہوئی ہے جبکہ پاکستان نے میچ میں احسن علی اور حارث رؤف کو ڈیبیو کرایا تھا۔

پاکستان کے کپتان بابر اعظم نے کہا کہ ہم بھی ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرتے لیکن اب بنگلہ دیش کو جلد آؤٹ کر کے میچ جیتنے کی کوشش کریں گے۔

بنگلہ دیشی اوپنرز نے اننگز کا اعتماد سے آغاز کیا اور تمام پاکستانی باؤلرز کو سنبھل کر کھیلتے ہوئے پہلی وکٹ کی شراکت میں 71رنز جوڑے۔

اس شراکت کا خاتمہ اس وقت ہوا جب غیرضروری طور پر دوسرا رن لینے کی کوشش میں تمیم اقبال کی 39رنز کی اننگز اختتام کو پہنچی۔

لٹن داس اور محمد نعیم پر مشتمل جوڑی نے تیزی سے کھیلنے کی کوشش کی لیکن 98 کے مجموعی اسکور پر ایک اور رن آؤٹ کے نتیجے میں پاکستان کو لٹن داس کی وکٹ بھی مل گئی۔

پاکستان نے احسن علی اور حارث رؤف کو ڈیبیو کرایا ہے
پاکستان نے احسن علی اور حارث رؤف کو ڈیبیو کرایا ہے

اگلی ہی گیند پر شاداب خان کی گیند پر چھکا مارنے کی کوشش میں محمد نعیم 43رنز بنانے کے بعد افتخار کو آسان کیچ دے کر پویلین لوٹ گئے۔

بنگلہ دیش کے بلے باز بڑے اسکور کی کوشش باؤنڈریز کی تلاش میں سرگرداں نظر آئے لیکن پاکستانی باؤلرز نے نپی تلی باؤلنگ کرتے ہوئے مہمان بلے بازوں کو زیادہ کھل کر بیٹنگ کا موقع نہ دیا۔

119 کے مجموعی اسکور پر بڑا شاٹ کھیلنے کی کوشش میں عفیف حسین وکٹ گنوا بیٹھے، حارث رؤف نے ان کی وکٹیں بکھیر کر انٹرنیشنل کرکٹ میں پہلی وکٹ حاصل کی۔

سومیا سرکار بھی صرف 7رنز بنا سکے اور شاہین شاہ آفریدی کی گیند پر باؤلڈ ہو گئے۔

اننگز کے آخری اوور میں بنگلہ دیش نے 13رنز بنا کر مقررہ اوورز میں 5وکٹوں کے نقصان پر 141 رنز بنائے اور پاکستان کو سیریز کے پہلے میچ میں فتح کے لیے 142رنز کا ہدف دیا ہے۔

حارث رؤف نے ڈیبیو میچ میں 32رنز کے عوض ایک وکٹ حاصل کی
حارث رؤف نے ڈیبیو میچ میں 32رنز کے عوض ایک وکٹ حاصل کی

پاکستان کی جانب سے شاہین شاہ آفریدی، شاداب خان اور پہلا میچ کھیلنے والے حارث رؤف نے ایک ایک وکٹ حاصل کی۔

پاکستان نے ہدف کا تعاقب شروع کیا تو اننگز کی دوسری ہی گیند پر کپتان بابر اعظم بغیر کوئی رن بنائے وکٹ کیپر کو کیچ دے بیٹھے اور پاکستان صفر پر پہلی وکٹ سے محروم ہو گیا۔

پہلا میچ کھیلنے والے احسن اور محمد حفیظ نے اسکور کو 35 تک پہنچایا لیکن مستفیض الرحمان کی گیند کو حفیظ سمجھنے میں ناکام رہی اور ان کے بلے باہری کنارہ لینے کے بعد کور میں کھڑے امین الاسلام کے ہاتھوں میں محفوظ ہو گئی۔

احسن کا ساتھ دینے تجربہ کار شعیب ملک آئے اور دونوں نے تیسری وکٹ کے لیے 46رنز کی شراکت قائم کر کے ہدف کا کامیابی سے تعاقب جاری رکھا لیکن پہلا میچ کھیلنے والے احسن 36رنز کی اننگز کھیلنے کے بعد امین الاسلام کا شکار بن گئے۔

شعیب ملک نے نصف سنچری اسکور کر کے ٹیم میں واپسی کو یادگار بنایا— فوٹو بشکریہ پی سی بی
شعیب ملک نے نصف سنچری اسکور کر کے ٹیم میں واپسی کو یادگار بنایا— فوٹو بشکریہ پی سی بی

افتخار احمد اور شعیب ملک نے اسکور 117 تک پہنچایا جس کے بعد افتخار احمد بھی پویلین لوٹ گئے لیکن دوسرے اینڈ سے شعیب ملک ڈٹے ہوئے ہیں۔

پاکستان نے تین گیندوں قبل ہی ہدف حاصل کر کے میچ میں 5وکٹوں سے فتح حاصل کر کے سیریز میں 0-1 کی برتری حاصل کر لی۔

پاکستان کی جانب سے شعیب ملک نے 45 گیندوں پر 5 چوکوں کی مدد سے ناقابل شکست 58رنز کی اننگز کھیلی اور انہیں میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔

دونوں ٹیموں کے درمیان سیریز کا دوسرا ٹی20 میچ کل بھی لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں کھیلا جائے گا۔

میچ کے لیے دونوں ٹیمیں ان کھلاڑیوں پر مشتمل تھیں۔

پاکستان: بابر اعظم(کپتان)، محمد حفیظ، شعیب ملک، افتخار احمد، محمد رضوان، عماد وسیم، شاداب خان، شاہین شاہ آفریدی، محمد حسنین اور حارث رؤف۔

بنگلہ دیش: محمد محموداللہ(کپتان)، تمیم اقبال، محمد نعیم، مٹن داس، متٓحمد متھن، سومیا سرکار، عفیف حسین، امین الاسلام، الامین حسین، شفیع الاسلام اور مستفیض الرحمٰن۔

کچھ عرصہ قبل پی سی بی کے چئیرمین احسان مانی میڈیا کو یہ بتاتے پائے گئے تھے کہ ڈومیسٹک سرکٹ کو انٹرنیشنل معیارات کے برابر لانے کے لیے وسیع پیمانے پہ تبدیلیاں کی جا رہی ہیں۔

ان وسیع پیمانے پہ لائی جانے والی تبدیلیوں میں سے ایک یہ بھی تھی کہ لوکل کیوریٹرز کی ٹریننگ کے لیے اعلیٰ پائے کے اور دنیا بھر کے جانے مانے کیوریٹرز کی خدمات حاصل کی جا رہی ہیں۔

اب پتا نہیں یہ پلان اپنی تعبیر کی کس نہج پہ ہیں مگر آج کی قذافی سٹیڈیم کی وکٹ یہ واضح کرنے کے لیے کافی تھی کہ لوکل کیوریٹرز کے لیے اعلیٰ بین الاقوامی معیارات کی ٹریننگ واقعی ضروری ہے۔

میچ سے قبل یہ کہا جا رہا تھا کہ شائقین کو محظوظ کرنے کے لیے اچھی بیٹنگ وکٹ تیار کی گئی ہے جہاں گرج چمک کے ساتھ باؤنڈریز کی برسات کا امکان ہے۔ ٹی ٹونٹی کرکٹ کے لیے وکٹ ہونی بھی ایسی ہی چاہیے۔

کرکٹ کو بہتر مارکیٹ کرنے کے لیے دنیا بھر میں ٹی ٹونٹی کے لیے تیز وکٹیں تیار کی جا رہی ہیں جہاں باؤنس متوازن ہو اور بلے بازوں کو اپنے شاٹس کھیلنے کا بھرپور موقع ملے۔ جبھی کھیل میں سنسنی پیدا ہوگی اور چوکوں چھکوں پہ شائقین کے ساتھ ساتھ سپانسرز کا بھی دل بلیوں اچھلے گا۔

شعیب ملک

لیکن آج کی وکٹ خاصی سست تھی۔ باؤنس غیر متوازن تھا اور گیند بلے پہ آ کے نہیں دے رہا تھا۔ محموداللہ نے ٹاس جیت کر بیٹنگ کا فیصلہ اس لیے کیا تھا کہ اوپنرز کے مستحکم سٹینڈ کے بعد اس وکٹ میں کافی رنز ہوں گے اور تعاقب کرتے پاکستان کی نبض پہ دباؤ کا ہاتھ رکھنا آسان ہو گا۔

ان کی یہ خواہش پوری طرح پوری نہ ہو سکی۔ تعاقب کرتے وقت پاکستان کئی مواقع پہ دباؤ کا شکار دکھائی دیا مگر اس وکٹ میں رنز کچھ زیادہ تھے ہی نہیں۔ میچ سے پہلے کے چرچوں کے برعکس ایک بار پھر لاہور کی وکٹ ‘لاہوری’ ہی ثابت ہوئی۔

یہاں ایک سو بیالیس کا ہدف بھی مشکل سا ہدف ہی تھا۔ اگر شعیب ملک کی شکل میں چار دہائیوں کا تجربہ کریز پہ موجود نہ ہوتا تو پاکستان شام کے دھندلکے میں رستہ بھول بھی سکتا تھا۔

شعیب ملک کی قسمت کچھ ایسی رہی ہے کہ شروع کے چند سال ایک طرف، وگرنہ ہر بار ان کی سلیکشن چہ میگوئیوں اور معنی خیز مسکراہٹوں کو جنم دیتی ہے۔ کبھی کوئی ‘ٹیگ’ لگتا ہے تو کبھی کوئی لیبل۔

اس بار بھی ملک کے انتخاب پہ خوب لے دے ہوئی۔ آخری بار جب شعیب ملک پاکستان ٹیم سے ڈراپ ہوئے تھے، تب وجہ ان کا اپنی بیوی کے ہمراہ شیشہ پینا بنی تھی۔ اس شیشے کا انعکاس اس قدر زیادہ تھا کہ تقریباً طے ہو چکا تھا کہ ان کا انٹرنیشنل کرئیر ختم ہو چکا ہے۔

لیکن پے در پے سیریز کی شکست اور نمبر ون رینکنگ پہ منڈلاتے سائے اس قدر گہرے تھے کہ کپتان اور کوچ نے چھ ریجنل سلیکٹرز کی مخالفت مول لے کر بھی انہیں چن لیا۔

قذافی سٹیڈیم

اس ‘دفاعی’ یا غالباً ‘نہایت جرات مندانہ’ فیصلے نے آج لاہور میں پاکستان کی لاج رکھ لی اور نمبر ون رینکنگ سے ہاتھ دھونے کا ایک اور دن ٹل گیا۔ اگر ملک آج نہ کھیل رہے ہوتے تو بعید نہیں تھا کہ ڈیتھ اوورز میں وکٹیں گرنے کے بعد انہونی ہو جاتی۔

بنگلہ دیش نے اچھا آغاز کیا۔ تمیم اقبال اور نعیم شیخ نے مستحکم پلیٹ فارم بنایا لیکن جب اسے کیش کرنے کا وقت آیا تب تک پاکستان کی دفاعی بولنگ اپنا کام دکھا چکی تھی۔

بابر اعظم کی کپتانی سرفراز احمد سے کہیں مختلف ہے۔ بابر نے اننگز کے کسی بھی مرحلے پہ ‘اٹیک’ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ میچ سے پہلے ہی ان کا ہدف یہ تھا کہ ٹوٹل کو ڈیڑھ سو سے کم رکھنا ہے۔

پھر جس طرح سے بابر نے بولنگ میں تبدیلیاں کی، اس کا ثمر یہ ہوا کہ کسی بھی مرحلے پہ بنگلہ دیشی اوپنرز ‘سیٹلڈ’ نظر نہیں آئے۔ پہلے دس اوورز کی سست روی سے ہی یہ ہوا کہ مڈل اور ڈیتھ اوورز میں بنگلہ دیش کو اپنے خول سے نکلنا پڑا اور وکٹیں گرتی گئیں۔

بابر اعظم کے لیے سال کا آغاز اچھا ہوا ہے۔ محمود اللہ کے تو سپنے ٹوٹ گئے مگر بابر اعظم یقیناً سوچ رہے ہوں گے کہ اس سال کے باقی دن بھی ایسے ہی ہوں۔