منتخب تحریریں

FATF: کیا بھارت اتنا طاقتور ہے!

Share

وطنِ عزیز کو بڑی مشکل سے بالآخر عمران خان صاحب کی صورت وہ ’’دیدہ ور‘‘ نصیب ہوچکا ہے جو پرچی کی مدد کے بغیر فرفرگفتگو کرتا ہے اور مخاطب کو مبہوت بنادیتا ہے۔وزیر اعظم کا منصب انہوں نے فقط ڈیڑھ سال قبل سنبھالا تھا۔ اس مختصر عرصے میں ان کی دُنیا کی واحد سپرطاقت کہلاتے امریکہ کے صدر سے پہ در پہ تین ملاقاتیں ہوچکی ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ ان کی کرشماتی شخصیت سے پہلی ہی ملاقات میں بہت متاثر ہوا۔اس کی بیوی نے ان کی وائٹ ہائوس میں موجودگی کے دوران ہمارے وزیر اعظم کے ساتھ کھڑے ہوکر بہت اشتیاق سے تصویریں کھنچوائیں۔

22جولائی 2019کے روز ہوئی اس ملاقات سے قبل صحافیوں کے روبرو ڈونلڈٹرمپ نے ازخود مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے ثالثی کا کردار ادا کرنے کی خواہش کا اظہار بھی کیا۔اس خواہش کا اظہار کرتے ہوئے اس نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ بھارتی وزیر اعظم بھی اس ضمن میں اس سے ’’ثالثی‘‘کا متمنی ہے۔ ’’ثالثی‘‘ کی خواہش نے ہمیں اجتماعی طورپر خوش گوار حیرت میں مبتلا کردیا۔22جولائی کے بعد مگر 5اگست2019ہوگیا۔مقبوضہ کشمیر کی ’’خصوصی حیثیت‘‘ بھی اس روز ختم کردی گئی۔ اس دن سے آج تک 80لاکھ کشمیری دُنیا کی وسیع تر جیل میں محصور ہوا محسوس کررہے ہیں۔

کشمیریوں کی اذیت کا ستمبر2019میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے روبرو عمران خان صاحب کی پرچی کے بغیر ہوئی تاریخی تقریر کے باوجود مداوا نہیں ہوا۔ امریکی صدرسے ہمارے وزیر اعظم کی آخری ملاقات چند ہفتے قبل سوئٹزرلینڈ کے Davosمیں ہوئی۔ مسئلہ کشمیر کا وہاں ذکر ہوا مگر حقیقی توجہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی جانب مبذول ہوگئی۔ اس تنظیم نے ہمیں جون 2018سے ’’گرے لسٹ‘‘ میں ڈال رکھا ہے۔ہم پرالزام ہے کہ ہمارا بینکاری کا نظام کمزور ہے۔زمینوں کی خریدوفروخت کے دھندے پر کڑی نگاہ نہیں رکھی جاتی۔ پاکستان میں ہنڈی اور حوالے کے ذریعے غیر ممالک سے بھاری رقوم آتی ہیں۔ان ’’کوتاہیوں‘‘ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ’’دہشت گرد‘‘ تنظیمیں خود کو منظم بناتی ہیں۔ہمسائیہ ممالک میں ’’تخریب کاری‘‘ کے منصوبے بناتی ہیں۔’’دہشت گردوں‘‘ کو مالی اعتبار سے مفلوج بنانے کے لئے ہم سے چند اقدامات کا تقاضہ ہوا۔ عمران حکومت اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ان اقدامات پر سختی سے عملدرآمد کو یقینی بنارہی ہے۔اس کے لئے اقدامات کو سراہا جارہا ہے۔

سوئٹزرلینڈ میں امریکی صدر کی ہمارے وزیر اعظم سے ملاقات کے بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی صاحب نے برملا یہ دعویٰ کیا کہ عمران خان صاحب نے ٹرمپ کو یاد دلایا کہ اس نے عمران حکومت کے اقدامات کو سراہتے ہوئے پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ سے نکلوانے میں اپنااثرورسوخ استعمال کرنے کا وعدہ کیا تھا۔FATFکے اجلاس کے دوران مگر امریکی حکام نے اس ضمن میں سرگرمی نہیں دکھائی۔

شاہ محمود قریشی صاحب نے دعویٰ یہ بھی کیا کہ عمران خان صاحب نے جب ٹرمپ کو امریکی حکام کی سردمہری کی شکایت لگائی تو وہ بہت حیران ہوا۔ پاکستانی وفد کی موجودگی میں اس نے اپنے مصاحبین کو ڈانٹا۔اس ڈانٹ نے ہمارے وزیر خارجہ کو یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ غالباََ امریکی صدر اور اس کی اسٹیبلشمنٹ ’’ایک پیج‘‘ پر نہیں ہیں۔یہ سوچتے ہوئے ہمارے بہت ہی کائیاں مخدوم صاحب اگرچہ یہ حقیقت فراموش کر گئے کہ ٹرمپ نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے جنرل میٹس،جنرل میک کرسٹیل اور جان بولٹن جیسے امریکی Deep Stateکے کئی جید نمائندوں کو توہین آمیز ٹویٹس لکھ کر فارغ کیا ہے۔ وہ Deep Stateکو نکیل ڈالنے کا عہد کرتے ہوئے وائٹ ہائوس پہنچا تھا۔اس کی دانست میں اس Stateنے اس کے خلاف Whistleblowers کی معاونت سے یوکرین کے صدر کے ساتھ ٹیلی فون پر ہوئی گفتگو کو طشت ازبام کیا تھا۔اس گفتگو کی بنیاد پر ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی تحریک پیش ہوئی۔ٹرمپ مگر اس سے فاتحانہ انداز میں بچ گیا۔FATFکے اجلاس میں بیٹھے کسی امریکی افسر میں یہ ہمت ہی نہیں ہے کہ وہ پاکستان کے حوالے سے اپنے صدر کی واضح ہدایات کے برعکس عمل کرے۔

ہمارے ہاں صحافیوں کو مگر اپنی حب الوطنی ثابت کرنے کے لئے ان دنوں ضروری ہے کہ عمران حکومت کے وزراء جو کہیں اس پر آنکھ بند کئے اعتبار کیا جائے۔ ٹھوس حقائق سے لاعلم رکھے ہم دو ٹکے کے رپورٹر پاکستانی عوام کو لہذا یہ امید دلانا شروع ہوگئے کہ FATFکے آئندہ اجلاس کے دوران اپنے صدر سے سوئٹزرلینڈ

میں پاکستانی وفد کے روبروڈانٹ کھانے کے بعد امریکی حکام ’’بندے کے پتروں‘‘ والا رویہ اختیار کریں گے۔پاکستان ان کی کاوشوں کی بدولت گرے لسٹ سے باہر آجائے گا۔ہماری اُمید کو مزید تقویت پہنچانے کے لئے بارہا یاد یہ بھی دلایا گیا کہ امریکہ کو ایک بار پھر افانستان کے حوالے سے پاکستان کا تعاون درکار ہے۔ٹرمپ نومبر2020کا صدارتی انتخابات جیتنے کے لئے افغانستان سے اپنی افواج کو ’’باعزت‘‘ واپسی کی راہ دینے والا معاہدہ بے تابی سے چاہ رہا ہے۔پاکستان کو گرے لسٹ سے نکلواکر وہ اس ضمن میں ہمارے بھرپور تعاون کو یقینی بنائے گا۔FATFکے ضمن میں تواتر سے پھیلائی خوش گمانیوں کی بابت گوشے میں اپنے گھر دبکا میں رزق کا محتاج خاموش رہا۔

گزشتہ ہفتے کے آغاز میں 18فروری کے روز چھپا کالم لکھتے ہوئے مگر اپنے دل میں موجود وسوسوں کے اظہار سے بازنہ رہ پایا۔جان کی امان پاتے ہوئے محتاط الفاظ میں اس خدشے کا اظہار کرنے کو مجبور ہوگیا کہ پیرس میں 16فروری سے 21فروری تک FATFکا جو اجلاس ہونا تھا وہ غالباََ ہمیں گرے لسٹ ہی میں رکھے گا۔ایک عام پاکستانی ہوتے ہوئے مجھے یہ حقیقت یاد دلانے میں ہرگز طمانیت محسوس نہیں ہورہی کہ میرے خدشات درست ثابت ہوئے۔عمران حکومت کے طے شدہ معیارِ حب الوطنی کا مگرتقاضہ ہے کہ میں یہ بھی اصرار کروں کہ ہمارا ازلی دشمن یعنی بھارت ہمیں بلیک لسٹ میں دھکیلنے میں ناکام رہا۔

بھارت بلاشبہ ہمارا ازلی دشمن ہے۔سوال مگر یہ اٹھانا بھی ضروری ہے کہ واقعتا وہ اتنا ہی طاقت ور ملک ہے کہ FATFمیں چین اور ترکی جیسے ممالک کے ہوتے ہوئے بھی وہ ہمیں دیوار سے لگائے رکھے۔میری عاجزانہ رائے میں ہرگز نہیں۔ FATFمیں حتمی فیصلہ سازی کی قوت اب بھی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے پاس ہے۔وہ ہماری حمایت میں ڈٹ جائیں تو بھارت بے بس ہوجائے گا۔

بارہا عرض کرچکا ہوں کہ ’’دہشت گردوں‘‘ کی مالی معاونت کا ’’سدباب‘‘ FATFکا واحد Mandateنہیں ہے۔اس کے چارٹر کو خداراغور سے پڑھیں۔ وہاں آپ کو “Proliferation” کی اصطلاح بھی نمایاں طورپر نظر آئے گی۔سادہ لفظوں میں اس اصطلاح کا مطلب ہے ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلائوکی خاطر ہوئی سرمایہ کاری۔ Proliferationکو ٹھوس تناظر میں رکھ کر پڑھیں تو آپ کو بخوبی انداز ہوجائے گا کہ وہ کیا ’’شے‘‘ ہے جو صرف بھارت ہی نہیں امریکہ ،فرانس اور برطانیہ جیسے ممالک کے دلوں میں بھی کانٹے کی طرح کھٹک رہی ہے۔ FATFکے حتمی مقاصد میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو کمزور کرنا بھی شامل ہے۔محض ’’دہشت گردوں‘‘ کی ’’مالی معاونت‘‘ ہی اس کا واحد ہدف نہیں۔

’’دہشت گردی‘‘ امریکہ کا حقیقی دردِ سر ہوتی تو حال ہی میں نیویارک ٹائمز کے صفحہ اوّل پر سراج الدین حقانی کا طویل مضمون نہ چھاپا جاتا۔ یاد رہے کہ موصوف کا ’’پتہ‘‘ لگانے کے لئے امریکہ کی FBIنے 50لاکھ ڈالر کا ’’انعام‘‘ طے کررکھا ہے۔ امریکی سی آئی اے نے اس کا اتہ پتہ بتانے کے عوض ایک کروڑ ڈالر کا وعدہ کررکھا ہے۔امریکہ کو مطلوب اس انتہائی ’’قیمتی‘‘ ایک کروڑ پچاس لاکھ ڈالر کی خطیر رقم کی قدر کے برابر ’’دہشت گرد‘‘ کی لکھی تحریر ’’نیویارک ٹائمز‘‘ جیسے اخبار تک کیسے پہنچی؟ ’’نیویارک ٹائمز‘‘ کے ادارتی بورڈ نے یہ تحریر ملنے کے بعد یقینا ہر اعتبار سے اس بات کی تصدیق کی ہوگی کہ اسے سراج الدین حقانی ہی نے لکھا یا نہیں۔اس ضمن میں ٹیلی فون اور ای میلز وغیرہ کے ذریعے بے تحاشہ رابطے ہوئے ہوں گے۔امریکی FBIاور CIAان رابطوں پر نگاہ رکھتے ہوئے سراج الدین حقانی کا سراغ لگاسکتی تھی۔

مجھے یہ دعویٰ کرنے دیجئے کہ امریکہ کی Deep Stateنے بہت سوچ سمجھ کر ’’نیویارک ٹائمز‘‘ میں سراج الدین حقانی کا مضمون چھپوایا ہے۔یہ اخبار ٹرمپ کا بدترین ناقد ہے۔ اس اخبار میں افغانستان میں ’’امن کی خاطر‘‘سراج الدین حقانی کا مضمون چھپواکر طالبان کے ساتھ معاہدے کی ممکنہ تنقید کے تدارک کا بندوبست ہوا۔

برسوں پاکستان سے Do Moreکا تقاضہ کرتے ہوئے’’حقانی نیٹ ورک‘‘ کا ذکر ہوتا رہا۔مجھ جیسے بدنصیب واویلا مچاتے رہے کہ ’’حقانی نیٹ ورک‘‘ اپنے تئیں کوئی شے نہیں ہے۔یہ طالبان کا جزولانیفک ہے۔اسلام آباد میں مقیم امریکی اور یورپی سفارت کار اس ضمن میں میری بات سننے کو بھی تیار نہیں ہوتے تھے۔مجھے بلکہ شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا۔ ’’نیویارک ٹائمز‘‘ میں چھپنے کے بعد سراج الدین حقانی مگر اب طالبان کا ’’معزز ترجمان‘‘ ہوگیا ہے۔ایک داستان میں سنائی بھیڑیے والی ’’منطق‘‘ ہمارے سامنے آئی جو بھیڑ کے بچے کو نشیب میں گئے پانی کو گدلاکرنے کا ذمہ دار ٹھہراتی ہے۔ظلم یہ بھی ہے کہ داستانوں میں سنائی ’’منطق‘‘ کا اطلاق 2020میں بھی جاری ہے۔ہمیں مگر یہ حکم ہے کہ خاموش رہو۔ سوال نہ اٹھائو۔