کالم

بھٹو کے مقالات

Share

عبدالغنی محمدی

ذوالفقار علی بھٹو  ملک کے ایسے سیاستدانوں میں سے  تھے  جنہوں نے سیاسی افق پر  انمٹ نقو ش چھوڑے ہیں ۔ ان کے مقالات کو احمد سلیم نے “بھٹو کے مقالات ” کے نام سے جمع کیا ہے ۔  احمد سلیم نے اس کے آغاز میں انتہائی وقیع مقدمہ لکھا ہے   ، یہ پڑھنا ہی شاید کتاب کو کفایت کردے ۔ بھٹو صاحب کے مقالات سے اندازہ ہوتاہے کہ وہ  صرف سیاستدان ہی نہیں بلکہ سیاسیات کے ذہین طالب علم تھے جو ملکی اور بین الاقوامی قانون کو سمجھتے تھے ، بین الاقوامی قانون کے فوائد و نقصانات کے بارے گفتگو کرتے ہیں اس کی خوبیوں و خامیوں کا ذکر کرتے ہیں ۔ بین الاقوامی قانون کو جس طرح چند طاقتوں نے اپنی اجارہ داری کا ذریعہ بنایا ہوا وہ اس پر مضبوط تنقید کرتے ہیں ۔ بھٹو نے برکلے یونیورسٹی سے سیاسیات میں گریجویشن اور آکسفورڈ سے اصول قانون میں ماسٹر کیا تھا  ۔ ملکی و بین الاقوامی جامعات میں قانون کے استاد رہے  ۔ بھٹو صاحب اعلی پائے کے صحافی اور کالم نگار تھے ان کے کالمز اور مضامین اس دور کی تاریخ  کی بہت سی گرہوں کو کھولتے  ہیں ، ان کی تحریریں اہل دانش کے لئے سوچنے کا سامان ہیں ، سیاسیاست اور قانون کے طالب علموں کو ان کا مطالعہ لازمی کرنا چاہیے ۔

ملکی معاملات اور پالیسیوں پر  وہ بہت کھل کر گفتگو کرتےتھے کہ ہماری خارجہ پالیسی کا رخ کیا ہونا چاہیے ، چینی یا روسی بلاک کو بالکل نظر انداز کرنے کو وہ انتہائی غلط طرز عمل سمجھتے رہے  اور ان ملکو ں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا ۔ بھٹو کا میلان کمیونزم کی طرف تھا لیکن کمیونزم کو بھی وہ اسلام کے اصول مساوات کی بنیاد پر تسلیم کررہے تھے ۔ کمیونسٹ لیڈروں اور حکومتوں کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کو موضوع بحث بناتے ہیں ۔  بھٹو مغربی اقوام اور سرمایہ دارانہ نظام کے سخت ناقد واقع ہوئے تھے ، اپنے ملک میں بھی وڈیرہ شاہی کے سخت خلاف  تھے وہ ایک عوامی اور جمہوری لیڈر تھے ، عوام کو ہی اپنی طاقت کہا کرتے تھے ۔

وہ دنیا کی بڑی طاقتوں کے طاقت کے غلط استعمال پر خوب تنقید کرتے ہیں ۔ اس دور میں ایران ، انڈونیشیا اور فلسطین و دیگر ملکوں جن کے  قضیے انصاف کے اصولوں سے ہٹ کر حل کیے جاتے ہیں اس پر انصاف کے مسلمہ اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے خوب تنقید کرتے ہیں ۔ بھٹو اسلامی تاریخ سے بھی خو ب آگا ہ تھے ، وہ اسلامی ریاست اور تہذیب و تمدن کا ذکر کرتے ہیں ، اس کی خصوصیات اور امتیازات کا ذکر کرتے ہیں ۔

ان کے بعض مقالات سے صوبائی تعصبات کی شدت ظاہر ہوتی ہے جو کہ اس وقت شاید زیادہ تھی ۔ بھٹو سندھ کا مقدمہ لڑتے ہیں ، لیکن بعد میں بجا طور پر ایک ایسے قومی لیڈر کے طور پر سامنے آئے جس کو سبھی صوبوں نے تسلیم کیا ۔ بھٹو صوبائی خود مختاری کی بات کرتے ہیں، صوبائی خود مختاری سے ہی پاکستان کی بقاء ممکن ہے  ۔ ون یونٹ کی مخالفت کرتے ہیں ۔ وفاق کے صوبوں میں دخل دینے کے وہ سخت خلاف ہیں ۔

 بلوچستان میں نیپ کی حکومت ختم کرنے پر جس قسم کی دلیلیں دیتے ہیں اور نیپ کو ملک دشمن عناصر سے ملا ثابت کرتے ہیں اس سے یہی نظر آتاہے کہ مطلق العنان ہونے میں کوئی بھی پیچھے نہیں ہے ۔بھٹو دور میں بلوچستان میں بڑی سطح پر آپریشن کیے گئے ۔  مفتی محمود صاحب کے بارے کہتے ہیں جے یوآئی کوئی بڑا  عنصر نہیں تھی ، پارٹی کے لیڈر مفتی محمود ایک معمولی ذہانت والے آدمی تھے جو صرف ہمارے پس ماندہ معاشرے میں وزیر اعلی ہوسکتے تھے ۔بلوچستان کے جن لوگوں کو بھٹو نے غدار بنا رکھا تھا  جنرل ضیاء نے انہی  کو دوبارہ وفادار ی کے سرٹیفکیٹ دے کر اپنے ساتھ شامل کرلیا ۔ بھٹوکے مطابق میرے دور میں بلوچستان ، سندھ اور سرحد تینوں صوبے خطرے میں تھے ہر ایک میں علیحدگی پسند تحریکیں زوروں پر تھیں  میں نے ان سب معاملات کو حل کیا ۔

بھٹو کہتے ہیں کہ ہم نے مجیب کو کہا تھا کہ ہم حزب اختلاف کے بنچوں میں بیٹھیں گے لیکن ایسا صرف وفاقی ڈھانچہ میں ہی کریں گے ۔ لیکن ڈھانچہ اگر کنفڈریشن کا ہوا تو کنفڈریشن کے دونوں بازوؤں کو حکومت میں شرکت کرنا ہوگی ۔لیکن مجیب اپنےچھ نکات پر اس طرح اڑ گئے کہ مذاکرات اوربات چیت میں تعطل پیدا ہوگیا۔

بھٹونے جیل میں قید کے دوران بے نظیر کے لیے  ” میری سب سے پیاری بیٹی ” کے نام سے خط لکھا ۔ یہ خط جہاں آبدیدہ کردینے والا ہے وہیں ایک باپ کی جانب سے اپنی بیٹی اور ایک قومی لیڈر کی جانب سے اپنی جانشین کے نام لکھے رہنما اصول اور وصیتیں تھیں ۔ اس خط میں نہرو کی تعریف کرتے ہیں اور اندرا کے نام اس کے جیل سے لکھے خطوط کا ذکر کرتے  ہوئے اپنی مشابہت دیکھتے ہیں  ۔ نہرو کو بھارتی عوام کا عظیم لیڈر اور بڑی عزت و وقار والی شخصیت کہتے ہیں ۔  اپنی بیٹی بے نظیر بھٹو کی ہمت بڑھاتے ہیں اور بہادری سے کام لینے کی تلقین کرتے ہیں ، کہتےہیں میں تمہیں صرف ایک پیغام دیتا ہوں ، یہ پیغام آنے والے دن کا پیغام ہے اور تاریخ کا پیغام ہے ۔ صرف عوام پر یقین کر و ۔ ان کی نجات اور مساوات کے لئے کام کرو ۔ میں جیل سے تمہیں عوام کا تحفہ دیتا ہوں ۔

اس  خط میں مہذب معاشرے کی تعریف لکھتے ہیں ” مہذب معاشرہ ایک خوفزدہ کرنے والا معاشرہ نہیں ہوتا ہے ، مہذب معاشرہ وہ ہوتاہے جس نے قوم کے خصوصی جذبہ کی شناخت کرلی ہو ،جس نے ماضی و حال سے ، مذہب اور سائنس سے ، جدیدیت اور تصو ف سے ، مادیت اور روحانیت سے سمجھوتہ کرلیا ہو ۔ ایسا معاشرہ ہیجان اور خلفشار سے پاک ہوتاہے اور کلچر سے مالا مال ہوتاہے ۔

بھٹو ذکر کرتے ہیں کہ دنیا میں  تین قوتیں مذہب ، نیشنلزم اور کمیونزم کبھی ایک دوسرے کے مقابل ہوتی ہیں ، کبھی صلح صفائی سے رہنے لگتی ہیں اور کبھی  محاذ آرائی پر آجاتی ہیں ہمیں ان کے درمیان مفاہمت کا کردار اداء کرناچاہیے ۔

بھٹو صاحب کے مقالات میں شروع کے کچھ ابواب کے بعد بھٹو اور ایوب کا تذکرہ ایسا شروع ہوتا ہے کہ ختم ہی نہیں ہوتا ۔ ایوب خان کے ابتدائی دور کے حوالے سے جو مقالات ہیں خاص کر ایک مقالہ ” ہمارا صدر اور انقلاب ”  سے تو ایسا لگتا ہے کہ ایوب خان انسان نہیں فرشتہ تھے ، ان کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے گئے ہیں ۔ بعد کے مقالات میں اسی ایوب خان کو وہ طرح طرح کے برے القاب اور ملک کی خراب قسمت کاذ مہ دار ٹھہراتے ہیں ۔ بھٹو انکشاف کرتے  ہیں کہ 1959 ء میں انڈیا پاکستان  مشترکہ دفاع کو قابل قبول سمجھا گیا ۔ معاہدہ تاشقند جس کےبارے کہا جاتاہے کہ بھٹو صاحب کے ایوب خان سےاختلافات شروع ہوئے ، اس کو اپنی عینک سے  دکھانے کی کوشش کی گئی ہے اور ایوب خان کو بطور مجرم پیش کیاگیا ہے  حالانکہ جتنا کرب پاکستان میں تھا اس سے کہیں زیادہ تحفظات اس معاہدے کے معاہدے کے حوالے سے ہندوستان میں بھی تھے ۔ اس تمام معاملے میں ایسے نظر آتاہے کہ بھٹو انڈیا سے بالکل مفاہمت کے قائل نہیں اور ان کی دشمنی میں آخر حد تک جانے کےقائل ہیں ، ایوب خان کا کردار ایک مصالح پسند کا کردار نظر آتاہے جو خطے کو کسی آگ میں جھونکنے کی بجائے صلح صفائی اور امن و آشتی کی طرف لے جانا چاہتے ہیں جبکہ بھٹو صاحب ایسی کسی چیز کو ذرہ بھی برداشت کرتے نظر نہیں آتے ہیں ۔ بھٹو صاحب کے ایسا کرنے کو سیاسی موقع پرستی کہیں گے یا جذبہ حب الوطنی ؟  اس کے بارے ہمارے ہاں فیصلہ عمومی طے شدہ ذہن کے مطابق ہوتاہے لیکن سوا ل یہ ہے کہ کبھی سیاستدان جذبہ حب الوطنی کو لیے ہوئے جنگ کی باتیں کرتے ہیں تو کبھی فوج ، اور ایسا خاص وقتی حالات کے پیش نظر ہوتاہے جس  سے اکثر سیاسی فوائد سمیٹنا  مقصود ہوتاہے ۔