کالم

تحفتاََ عادتاََ

Share

معروف تجزیہ کار جناب بیوپار بھٹی نے “انکشافات ” کا سلسہ جاری رکھتے ہوئے فرمایا ہے کہ اگرچہ یہ بات تو حق سچ ہے کہ شریف برادران میرے بچوں کا دودھ پی گئے ہیں لیکن ان کے جرائم کی فہرست یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ سوڈان میں زلزلہ آنے سے جو 70افراد ہلاک ہوئے مجھے یقین ہے کہ اس زلزلے کی آمد میں بھی شریف فیملی کا ہاتھ ہے اور اگر کوئی واٹس ایپ جے آئی ٹی بنا دی جائے تو ان الزامات کے ٹھوس ثبوت بھی تلاش کیے جا سکتے ہیں۔اور تو اور مجھے یہ بھی یقین ہے کہ چین میں نمودار ہونے والے کرونا وائرس کے پیچھے ضرور لوٹ مار مافیا کا ہاتھ ہے جواربوں کھربوں (اس سے آگے کیا ہوتا ہے بھائی جی؟) کی ویکسین بیچنا چاہتے ہیں وگرنہ چمگادڑ کی کیا مجال کہ وہ وائرس پھیلاتی۔۔ میں نے تو اپنے 70سالہ ذاتی تجربے میں یہی دیکھا ہے کہ اقتدار کے محلات میں پائی جانے والی چمگادڑیں نہایت مستقل مزاج ہوتی ہیں اور صرف خون پینے پر اکتفا کرتی ہیں۔ اسی پر جناب مجھے بابے نورے کا لطیفہ یاد آ گیا جومیں اپنے آئندہ کالم میں لکھوں گا۔ سوچ رہا ہوں کہ اس کا نام بھی لطیفہ نامہ ہی رکھ دوں۔آپ اگلے روز ٹی وی پروگرام میں حسب معمول “یبلیاں “ما ررہے تھے جبکہ خاتون ذی وقار آنسہ ریما عمر مسکرا رہی تھیں اور جناب حفیظ اللہ نیازی غصے سے پیج و تاب کھا رہے تھے اور اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں “گھُسن”کو روک رہے تھے۔

***

پیپلز پارٹی کے چیئرمین جناب بلاول بھٹو نے فرمایا ہے کہ میاں محمد نواز شریف بھی سلیکٹیڈ وزیر اعظم تھے۔ یقینا جناب بلاول بھٹو ٹھیک ہی کہتے ہوں گے کیونکہ وہ اس سلیکٹر کو اچھی طرح پہچانتے ہیں جس نے بلوچستان میں مسلم لیگ(ن) کی اکثریتی حکومت کو چند ہی دنوں میں ابا جان کے حوالے کر دیا جس کی وجہ سے زرداری صاحب “موگیمبو خوش ہوا”والی مسکراہٹ ایک بار پھر پیش کرتے پائے گئے۔یہ 100فیصد خالص جمہوری عمل تھا کہ جس کے نتیجے میں ” باپ”کی تخلیق ہوئی۔اس ” باپ” سے تعاون کرنے میں دونوں پارٹیاں یعنی PPPPاور PTIایک دوسرے سے بازی لے جاتی ہوئی محسوس ہوئیں۔مزید عرض یہ ہے کہ ہم ایک ہاتھ سے جمہوریت کی شمع بلند رکھتے ہیں اور دوسرے ہاتھ سے حالات کے مطابق اس کی لو اوپر نیچے کرتے رہتے ہیں مگر اس کا کوئی تعلق حاشا وکلا “سلیکٹرز ” نہیں ہے۔۔وہ کیا ہے کہ لو کی تپش سے کبھی کبھی ڈاکٹر عاصم حسین کے ہاتھ جھلس جاتے ہیں تو لو خود ہی نیچے ہو جاتی ہے۔ ویسے بھی اگر آپ میری گلابی اردو کے ساتھ گزارا کر رہے ہیں تو میری گلابی جمہوریت کے ساتھ بھی کریں۔

***

“قلندرانا”ڈائری سے ایک اقتباس-:
ہمارے پیارے رب جی! یہ ٹھیک ہے کہ ہم نے غلطی سے یا جیسے بھی قلندر نام رکھ لیا مگر اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ آپ ہماری قلندرانہ آزمائش ہی کرتے جائیں۔ہیں جی۔۔۔یعنی کہ 183رنز بنا کر بھی ہم ہی ہار گئے۔اب تو لاہوری ہم پر اتنے غصے میں ہیں کہ مجھے کسی گلی میں بھی اکیلے جاتے ڈر لگتا ہے کہ کوئی بچہ فرطِ جوش میں میری مونچھوں سے دست درازی نہ کر دے۔ اور تو اور یعنی کہ یہ ٹیم بھی آ گیا ہے کہ کراچی والے اور اسلام آبادی ہم سے اظہار ہمدردی کر رہے ہیں۔ اوپر سے سوشل میڈیا والے بھی ہم پر ہاسے ہی ہاسے جا رہے ہیں وہ وہ ٹویٹس اور فیس بک پوسٹیں کی جارہی ہیں اور خاکے بنائے جا رہے ہیں کہ اللہ توبہ۔ بندہ کتھے جائے۔۔۔میں نے تو عاطف کو کہا بھی ہے کہ یار تم تو نیویں نیویں ہو کر براستہ چمن واپس آسٹریلیا چلے جاؤ پر اسکو پٹھانوں سے ڈر لگ رہاہے۔۔۔ہیں جی، ابھی کل ہی وڈے پیرکہہ رہے تھے پتر جیتنا ہے تو قربانی دینی پڑے گی میں نے کہا جی ابھی بھی ہمیں ہی قربانی دینی پڑے گی؟ تو انہوں نے فرمایا کہ رانے یا تو مونچھ رکھ لو یا ٹیم رکھ لو۔اس وقت سے جب بھی ہار قریب آتی ہے تو میرے ہاتھ مونچھوں کے پاس آ جاتے ہیں۔مجھے لگتا ہے یہ سارا میلہ میری مونچھیں چرانے کیلئے ہی لگایا گیا ہے۔

***

مجھے آجکل یار دوست پوچھتے ہیں کہ بھئی اتنی دھوپ میں کوٹ پہن کر کیوں پھر رہے ہو ہم لوگ تو گاڑیوں میں اے سی چلاتے پھر رہے ہیں تو مجھے اپنے دوست حضرت پیرزادہ یاد آ جاتے ہیں جنہوں نے خواہ مخواہ ہی سردی کا ٹھیکہ اٹھا رکھا ہے۔ ابھی پچھلے دنوں لاہور کا خوبصورت دن تھا۔ کڑاکے کی دھوپ پڑ رہی تھی۔۔ میں بغیرسویٹر کے انہیں ملنے چلا گیا۔۔حضرت دیکھتے ہی ہتھے سے اُکھڑ گئے “یہ کیا بدتمیزی ہے بھائی آپ کو کیا جلدی ہے سردی سے پیچھا چھڑانے کی۔۔صرف دو تین ماہ کیلئے ہی تو آتی ہے میں نے بہت عرض کیا کہ سویٹر گاڑی میں رکھا ہے۔۔ٹھنڈ محسوس ہو گی تو پہن لوں گا اور آپ کو کیا خدا نے ڈائریکٹر سردی مقرر فرمایا ہے؟ مگر کہاں جناب۔۔۔سویٹر پہنتے ہی بنی اور صاحب کچھ ٹھنڈے ہوئے حالاں کہ آپ اسوقت اپنے روائتی لباس یعنی لانگ کوٹ میں ملبوس تھے۔اب اتنی تفصیل تو ہر ایک کو سنائی نہیں جا سکتی اس لئے کوئی پو چھے تو کہہ دیتا ہوں بس کسی کا تحفہ ہے۔شان الگ بن جاتی ہے۔ البتہ کچھ دنوں سے حضرت سے ملاقات نہیں ہو پا رہی۔نجم سیٹھی صاحب کی چڑیا کی چھوٹی بہن اُڑتی اُڑتی خبر لائی ہے کہ موصوف آجکل لانگ کوٹ کے باعث بننے والے” دھرپڑوں “کے علاج کیلئے ماہرینِ جلد کے چکر کاٹے جاتے ہیں۔

***