دنیابھرسے

کورونا وائرس: ترکمانستان میں اب تک کوئی کیس رپورٹ کیوں نہیں ہوا؟

Share

کووڈ 19 کے نقشے پر سرخ دائروں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے، لیکن کچھ ممالک ایسے بھی ہیں جہاں ابھی تک اس بیماری کا ایک بھی تصدیق شدہ کیس رپورٹ نہیں ہوا۔ ان ممالک میں سخت ترین آمرانہ حکومت والا ترکمانستان بھی شامل ہے۔

بہت سے ماہرین میں تشویش پائی جاتی ہے کہ ترکمانستان کی حکومت شاید حقیقت کو چھپا رہی ہے اور اس سے بیماری کو ختم کرنے کی کوششوں میں خلل پڑ سکتا ہے۔

جہاں ایک طرف دنیا کورونا وائرس سے لڑ رہی ہے اور زیادہ سے زیادہ ممالک اپنی آبادیوں کو لاک ڈاؤن کر رہے ہیں، منگل کو ترکمانستان میں عالمی یوم صحت کے موقع پر ایک بڑی سائیکلنگ ریلی کا انعقاد کیا جارہا ہے۔

اس وسطی ایشیائی ملک کا دعویٰ ہے کہ وہاں ابھی تک کورونا وائرس کا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا۔ لیکن کیا ہم سنسرشپ کے لیے مشہور حکومت کی طرف سے فراہم کردہ اعداد و شمار پر اعتماد کر سکتے ہیں؟

لندن سکول آف ہائیجین اینڈ ٹراپیکل میڈیسن کے پروفیسر مارٹن میکی جنھوں نے ترکمانستان کے صحت سے متعلق نظام کا مطالعہ کیا ہے، کہتے ہیں’ترکمانستان سے ملنے والے صحت کے سرکاری اعدادوشمار انتہائی حد تک ناقابل اعتبار ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’پچھلی دہائی سے وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ترکمانستان میں ایچ آئی وی یا ایڈز کا کوئی مریض نہیں بچا، جو کہ ناممکن ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ 2000 کی دہائی میں انھوں نے طاعون سمیت کئی وباؤں کے پھیلنے کے شواہد کو دبا دیا تھا۔‘

ترکمانستان میں کئی افراد یہ تک تجویز کرنے سے خوفزدہ ہیں کہ شاید وہاں کووڈ 19 پہلے ہی موجود ہو۔

نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر دارالحکومت اشگباد کے ایک رہائشی کہتے ہیں ’میرے ایک جاننے والے جو ایک سرکاری ایجنسی میں کام کرتے ہیں، انھوں نے مجھے بتایا کہ مجھے یہ نہیں کہنا چاہیے کہ یہاں وائرس موجود ہے یا میں نے اس کے بارے میں سنا ہے، ورنہ میں مشکل میں پڑ سکتا ہوں۔‘

تاہم ترکمانستان میں حکام وبا پھوٹ پڑنے کی صورت میں اس سے نمٹنے کے لیے اقدامات اٹھا رہے ہیں۔

ملک میں موجود اقوام متحدہ کی ایجنسیوں کے ساتھ مل کر وہ لائحہ عمل پر تبادلہ خیال کر رہے ہیں۔

جھنڈا
پنووا کا یہ بھی کہنا تھا کہ کوئی تصدیق شدہ کیس سامنے نہ آنے کی وجہ سفر پر بروقت لگائی جانے والی پابندیاں بھی ہو سکتی ہیں

اقوام متحدہ کی ریزیڈنٹ کوآرڈینیٹر، ایلینا پنووا نے بی بی سی کو بتایا کہ اس منصوبے میں ملکی سطح پر رابطہ، خطرات سے متعلق رابطہ، کیس کی تفتیش، لیبارٹری کی تشخیص اور دیگر اقدامات شامل ہیں۔

جب میں نے ان سے پوچھا کہ کیا اقوام متحدہ کو ان سرکاری اعداد و شمار پر اعتماد ہے جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ترکمانستان میں کووڈ 19 کے کوئی تصدیق شدہ کیسز موجود نہیں ہیں، تو پنووا نے سیدھا جواب دینے سے گریز کیا۔

ان کا کہنا تھا ’ہم سرکاری اعداد و شمار پر انحصار کر رہے ہیں کیونکہ باقی ممالک بھی ایسا ہی کر رہے ہیں۔اعتماد کا تو کوئی سوال نہیں ہے کیوں کہ یہ کام اسی طرح چلتا ہے۔‘

پنووا کا یہ بھی کہنا تھا کہ کوئی تصدیق شدہ کیس سامنے نہ آنے کی وجہ سفر پر بروقت لگائی جانے والی پابندیاں بھی ہو سکتی ہیں۔

واقعتاً ترکمانستان نے ایک ماہ سے بھی زیادہ عرصہ پہلے اپنی بیشتر زمینی سرحدیں بند کردی تھیں۔

انھوں نے فروری کے شروع میں چین اور کچھ دوسرے ممالک کے لیے پروازیں بھی منسوخ کردیں تھیں اور تمام بین الاقوامی پروازوں کا رخ دارالحکومت سے شمال مشرق میں ترکمن آباد کی جانب موڑنا شروع کردیا، جہاں ایک قرنطینہ زون بنایا گیا تھا۔

تاہم متعدد رہائشیوں کے مطابق کچھ لوگ رشوت دیتے ہوئے زون سے باہر نکلنے میں کامیاب ہو گئے اور اس طرح انھوں نے خیموں میں دو ہفتے تنہائی میں گزارنے سے گریز کیا۔

پنووا کا کہنا تھا کہ ملک میں پہنچنے والے ہر شخص اور علامات ظاہر کرنے والے افراد کا کووڈ 19 ٹیسٹ کیا گیا تھا لیکن ایک دن میں کتنے ٹیسٹ کیے گئے اور ترکمانستان میں مجموعی طور پر کتنی ٹیسٹ کٹس موجود تھیں، پننووا اس بارے میں اعداد و شمار نہیں بتا پائیں۔

’سرکاری افسران سے بات چیت کے بعد ہم یہ سمجھتے ہیں کہ انھوں نے کافی ٹیسٹ کیے ہیں۔‘

تاہم کورونا وائرس کے پھیلاؤ سے نمٹنے کے لیے صحت کا نظام کتنا تیار ہے؟

’ہمیں نہیں معلوم‘ پنووا نے اعتراف کیا۔

’ہمیں بتایا گیا ہے کہ انھوں نے ایک خاص حد تک تیاریاں کر رکھی ہیں اور ہمیں اس پر کوئی شک نہیں ہے۔۔۔ کیونکہ یہاں کے ہسپتال ضروری سامان سے اچھی طرح لیس ہیں۔‘

‘تاہم وبا پھوٹنے کی صورت میں صحت کے نظام پر بہت دباؤ پڑتا ہے جیسا کہ کئی دوسرے ممالک میں دیکھا گیا ہے۔ لہٰذا اس سے قطع نظر کہ آپ نے کتنی تیاری کر رکھی ہے، عموماً یہ ناکافی ہے۔

جھنڈا
کیفے اور ریستوران کھلے ہیں۔ شادیوں کے لیے ہجوم جمع ہو رہے ہیں۔ کوئی بھی ماسک نہیں پہن رہا اور بڑے پیمانے پر تقریبات منعقد ہو رہی ہیں

’اسی وجہ سے ہم ان کے ساتھ پہلے ہی وینٹیلیٹروں اور دیگر آلات کے حصول کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔‘

عوام میں اس وبا سے آگاہی کا کچھ احساس موجود ہے۔ شہروں کے درمیان نقل و حرکت پر پابندی عائد کر دی گئی ہے اور اشگباد میں داخل ہونے والوں کے پاس ڈاکٹر کی اجازت ہونا لازم ہے۔

بازاروں اور دفاتر میں جڑی بوٹیوں کے علاج میں استعمال ہونے والی یُزارک نامی گھاس جلا کر اس کا دھواں چھوڑا جا رہا ہے۔

ایسا ترکمانستان کے صدر قربان قلی بردی محمدوف کے اس اعلان کے بعد کیا جا رہا ہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ اسے جلانے سے وائرس ختم ہو جائے گا لیکن اس کے کوئی ثبوت نہیں مل سکے۔

لیکن بیشتر دنیا کے برعکس، ترکمانستان میں روز مرہ کی زندگی معمول کے مطابق جاری ہے۔

کیفے اور ریستوران کھلے ہیں۔ شادیوں کے لیے ہجوم جمع ہو رہے ہیں۔ کوئی بھی ماسک نہیں پہن رہا اور بڑے پیمانے پر تقریبات منعقد ہو رہی ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ یہ ملک کورونا وائرس سے لاحق بڑے خطرے کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔

ایسا کیوں کر ہوسکتا ہے؟ شاید عالمی یوم صحت کے موقع پر منعقد ہونے والی سائیکلنگ ریلی اس کی وضاحت فراہم کر سکے۔

اس سالانہ تقریب میں سب سے مشہور شخصیت اور توجہ کا مرکز ترکمانستان کے صدر قربان قلی بردی محمدوف ہیں۔

وہ ایک صحت مند شخصیت کی شبہیہ پیش کرتے ہیں۔ سرکاری ٹی وی انھیں باقاعدگی سے جم میں ورزش کرتے، سائیکل یا موٹر سائیکل چلاتے دکھاتا ہے۔ وہ ’صحت اور خوشی‘ والی مہمات کا مرکزی چہرہ ہیں۔ ان مہمات میں سرکاری ملازمین کو ایک جیسے یونیفارم میں صبح کی ورزش کرتے دکھایا جاتا ہے۔

ان سب تقریبات کا اصل پیغام یہی ہے کہ قوم صحت مند ہے اس لیے خوش ہے، صدر کا شکریہ۔

صدر بردی محمدوف نے اپنی صدارت کا اعلان ’طاقت اور خوشی کے دور‘ کے طور پر کیا تھا۔ اگر کوویڈ-19 کی وبا پھیل جاتی ہے تو اس سے ان کے کھوکھلے پیغامات کی حقیقت سامنے آ جائے گی۔

یہی وجہ ہے کہ ترکمن حکومت اس وبا کو چھپانے کی کوشش کر سکتی ہے ، یہاں تک کہ اگر اس کے شہری متاثر بھی ہو جائیں۔

اور یہی چیز ہے پروفیسر میکی کی پریشانی کا سبب ہے۔

وہ کہتے ہیں ’ہم نے دیکھا ہے کہ کس طرح کووڈ 19 انفیکشن چین سے دنیا کے تمام حصوں میں تیزی سے منتقل ہوا۔ اس عالمگیر معیشت جس میں ہم رہ رہے ہیں، ہر ملک اتنا ہی محفوظ ہے جتنا دنیا کا سب سے کمزور ملک۔‘

’یہاں تک کہ اگر دوسرے ممالک اس وبا کو قابو کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو ان ممالک سے مسلسل انفیکشن پھیلنے کا خطرہ ہے جو ناکام ہوچکے ہیں اور ترکمانستان بھی ایسی ہی ایک اور مثال بن سکتا ہے۔‘