کالم

سرکارسیاح وسفید دکھانے میں کمال رکھتے ہیں

Share

چینی،گندم بحران پر وفاقی تحقیقاتی ادارے کی رپورٹ جاری ہونے کے بعد وزیرا عظم نے کابینہ میں شامل تمام افراد کے قلمدان تبدیل کردیے ہیں، جن پر ملک کو لوٹنے اور مصنوعی بحران میں دھکیلنے کے الزامات ہیں۔ زیراعظم یہ تبدیلیاں کئی ماہ سے کرنا چاہ رہے تھے، لیکن موقع نہیں بن رہا تھا، آٹا چینی بحران کی رپورٹ نے وزیراعظم کا کام آسان کر دیا اور انہوں نے اس موقعے کو غنیمت جانتے ہوئے کابینہ میں اکھاڑ پچھاڑ کر دی،لیکن دکھ اس بات کا ہے کہ اتنے بڑے بحران کے بعد بھی عوام کو نقصان پہنچانے والوں کا کوئی احتساب نہیں ہواہے۔ حکومتی سطح پر کرسیوں کی تبدیلی کے علاوہ ابھی تک کچھ نہیں ہوا،لیکن بہت سے لوگ سوچ رہے ہیں کہ شاید اس بحران کی وجہ سے کہیں بہت بڑی تبدیلی آ سکتی ہے۔ عوام کی خواہش ہے کہ ان سب لوگ سے جان چھوٹ جائے،جنہوں نے انکا جینا مشکل کر دیا تھا، لیکن زمینی حقیقت کچھ اور ہی بتارہے ہیں کہ فوری طور پر کسی بڑی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ہے،یاد رہے کہ وزارتوں میں تبدیلیاں سزا اور جزا کے نظام کے برعکس ہیں،یہ تبدیلیاں بتاتی ہیں کہ فرانزک رپورٹ آنے تک وزیر اعظم نے خاموش رہنے کا پیغام دیا ہے، لیکن یہ بات طے ہے کہ فرانزک رپورٹ آنے کے بعد وزیراعظم کو کم سے کم چار افراد کی قربانی دینا پڑے گی، اگر فرانزک رپورٹ کے بعد بھی ان چار افراد کے ساتھ ہی آگے بڑھا گیا تو تبدیلی کا خواب کہیں دور چکنا چور ہو جائے گا۔
ایک زمانہ تھا کہ کسی بھی اسکینڈل کے سامنے آتے ہی حکومتی کا بینہ کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگتی تھیں، اب صورتحال مختلف ہے کہ نام زد وزرا ء بڑی ڈھٹائی کے ساتھ سامنا کرتے ہوئے صفائیا ں پیش کررہے ہیں،نچلی سطح سے لے کر انتہائی بالائی سطح تک یہی سوچ ہے کہ جرم ثابت ہوگیا تو اس کے ذمہ دار کا تبادلہ کردیا جائے،ذاتی مفادات کے پیش نظر سزاء اور جزاکی بجائے طریقہ علاج تبادلہ ڈھوندا گیا ہے۔ شائد یہی کچھ وزیر اعظم بھی کرنے کی کوشش کررہے ہیں،اگر اس کے برعکس کسی بھی سطح پر مجرم کو سزا دینے کی روایت ڈال دی جائے تو نہ صرف مجرموں کی حوصلہ شکنی ہوگی،بلکہ ملک سے جرائم کے خاتمہ میں بھی مدد ملے گی۔ وزیر اعظم عمران خان اس کا آغاز اپنی کابینہ سے کرتے ہوئے لوٹی گئی رقم مجرموں سے وصول کرنے کا سلسلہ ابھی سے شروع کردینا چاہئے،اس طرح ایک دن وہ بھی آجائے گاکہ جب بیرون ملک بینکوں میں جمع پاکستان سے لوٹی گئی رقم بھی واپس لی جا سکے گی۔ اس کے بعد ہی وہ نعرہ درست ہوسکے گا کہ بدعنوانوں اور چوروں کو نہیں چھوڑوں گا، لیکن اس ساری لوٹ مار اور بد عنوانی کے ڈانڈے تووفاقی وزراء سے جا ملتے ہیں جن کی ناک کے نیچے سب کچھ ہوتا رہاہے،چینی،گندم بحران سے فائدہ اٹھانے والوں کو ضرور پکڑا جائے، لیکن جن کے حکم پر ہوا، ان پر ہاتھ ڈالنا بھی ضروری ہے۔
تحریک انصاف حکومت جب سے اقتدار میں آئی ہے،ایک بعد ایک بحران چیلنج بن کر سامنے آجاتا ہے،وزیر اعظم تمام چیلنجز سے نبرد آزما ہیں،مگراس ساری مشق میں زیادہ بوجھ تو عوام پرہی آرہا ہے، ساری مصیبتیں تو اس ووٹر کو ہورہی ہیں، جس نے سخت موسموں میں تبدیلی کے نعرے لگائے،، تبدیلی کے لیے دھکے کھائے،کسی کا کچھ نہیں گیا، لٹ تو عام آدمی رہاہے،جبکہ حکمران تو محض زبانی کلامی دعوئے کرتے رہے کہ آنے والے دنوں میں چینی، آٹا بحران کے اصل ذمہ داروں کو سامنے لائیں گے اور عوام کو بتائیں گے کہ کس نے کیا کھیل کھیلا اور اس معاملے میں کس کی کوتاہی کی وجہ عوام کو تکلیف اٹھانا پڑی ہے۔کیا حکومت سو رہی تھی جب نچینی پچاس سے اسی پر چلی گئی، جب دالیں اسی سے اپک سو پچاس سے بڑھ گئیں توکسی کو ہوش نہیں آئی، آٹے کی قیمت مسلسل بڑھتی رہی کسی کو فکر نہ ہوئی، اب چیخ و پکار کی جارہی ہے کہ کسی کو نہیں چھوڑا جائے گا،جبکہ وزارتوں میں ردوبدل کرکے عوام کو بہلانے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے۔ اس ملک میں عام آدمی کو پہلے بھی لوٹا جا رہا تھا،آج بھی عام آدمی کو ہی لوٹا جا رہا ہے،اور کل بھی عام آدمی کوہی لوٹا جاتا رہے گا۔
بد قسمتی سے ہر دور میں پا کستانی عوام کوکبھی روٹی کپڑا اور مکان، کبھی سب سے پہلے پاکستان اور کبھی نیا پاکستان جیسے نعروں کے پیچھے بھگایا گیا ہے،لیکن اب عوام کھوکھلے نعروں کے پیچھے بھاگتے بھاگتے تھک چکے ہیں، لیکن شائدحکمرانوں اور سیاست قائدین کے سینوں میں ہڈی والے دل ہیں اور ان کے دماغ صرف جمع تقسیم کے وقت ہی کام کرتے ہیں۔حزب اقتدار ہو یا حزب اختلاف سب کے دل و دماغ میں کہیں عوام کا دکھ درد نہیں،کسی کے ذہن میں مظلوم و محروم طبقے کی سوچ نہیں،سیاسی قائدین کا جہاں کوئی اور ہے،غریب عوام کا جہاں کوئی اور ہے، اس کے باوجودعام آدمی کو آج بھی وزیراعظم عمران خان سے امید ی وابستہ کیے ہوئے ہے، لیکن اس جھوٹی اُ میدوں کے سہارے کوئی کب تک زندہ رہ سکتا ہے۔چینی،آٹا بحران کے بعدکورونا بحران نے غریبوں کو کوڑی کوڑی کا محتاج کر دیاہے، ان سے روزگار چھن چکا ہے اور فاقوں کی نوبت آ چکی ہے،خدشہ ہے کہ معاشی بحران کی شدت میں مذید اضافہ ہوگا۔ایسے میں ذمے داروں کے خلاف کارروائی کے ساتھ ساتھ کسی نئے بحران کو جنم لینے سے بھی روکنا ہوگا۔
بلا شبہ وزیر اعظم عمران خان کی نیک نیتی پر شک نہیں،مگر وہ تن تنہا کچھ نہیں کرسکتے،جبکہ کا بینہ کی اکثریت ایسے عناصر سے بھری پڑی ہے جو اپنے مفاد کے لئے کسی بھی حد تک جانے میں کوئی برائی محسوس نہیں کرتے،کیو نکہ جو کرپٹ ہے، وہ ہر حال میں کرپٹ ہی رہے گا،تھوڑا بہت وقت کے ساتھ واردات ڈالنے کا انداز بدل سکتاہے۔ سیاستدان اور سرکاری افسروں کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے،دونوں ایک دوسرے کے ہم نوالہ ہم پیالہ ہوتے ہوئے ایک دوسرے کے محتاج ہوتے ہیں۔ سیاستدان تحفظ دیتے اور سرکاری افسران قوائد وضوابط کے گھیرے میں ہر چیز کا حل نکالتے ہیں، یوں حکومتی مے خانے میں سارے بادہ خوار جی بھر کے جیتے اور پسند کی پیتے ہیں۔حکو مت خالی نعرے بازی جتنی مرضی کر لے، اسی طرح کام چلتا رہے گا،کسی ڈگر میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ سرکاری ڈرائی کلیننگ پلانٹ میلے کو اجلا اور کچھ اداروں کے پلانٹ اجلے کو میلا دکھانے میں کمال رکھتے ہیں اور وہ اپناکمال دکھاتے رہیں گے۔