منتخب تحریریں

سب کچھ بدل گیا اس حکومت کا ذہن نہ بدلا

Share

کالم لکھنے سے پہلے میں نے اپنے تھانے فون کیا۔ اسسٹنٹ محرر بیٹھا ہوا تھا۔ اُس سے پوچھا کہ اس بیماری کی وجہ سے تھانوں کے معمول کے کام میں فرق پڑا ہے۔ کہنے لگا کہ نارمل حالات میں تو درخواست پہ درخواست آتی تھی۔ اب ایسا نہیں رہا۔ لڑائی جھگڑے کی شرح بھی کم ہوئی ہے۔ چوری چکاری ہوتی ہے لیکن وارداتیں ایسی نہیں جیسے پہلے ہوا کرتی تھیں۔ اپنے پٹواری کو فون کیا۔ اُس نے بھی کہا کہ ایک تو ہم ریلیف وغیرہ کے کاموں میں لگے ہوئے ہیں لیکن ویسے بھی زمین کی خرید و فروخت کا جو سلسلہ تھا اس میں کافی فرق پڑا ہے۔
اپنے ایک وکیل دوست سے حالات کے بارے میں دریافت کیا۔ انہوں نے کہا کہ ایک تو تحصیلوں کے سنٹرل ریکارڈ آفس‘ جہاں سے فرد وغیرہ جاری ہوتے ہیں‘ بند پڑے ہیں۔ یہ بھی اوپر سے حکم آیا ہے کہ ضمانت کے حوالے سے جو فرد جاری ہوا کرتے تھے‘ وہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے فی الحال جاری نہیں ہوں گے۔ اس ایک اقدام کی وجہ سے عدالتوں میں لوگوں کا آنا جانا کم ہوگیاہے۔ ایسے سائلین جو جھگڑوں میں ملوث رہتے ہیں وہ بھی تھوڑا اپنے آپ پہ ضبط کررہے ہیں کہ کچھ ہوگیا تو آگے ضمانت میں دِقت ہوگی۔ جیلوں کو ہدایت ہوچکی ہے کہ پولیس کسی ملزم کو لائے تو اُسے جیل کے اندر نہیں کرنا جب تک اس کا کورونا ٹیسٹ نہ ہوا ہو اور رزلٹ نیگیٹو نہ ہو۔ اسی وجہ سے پولیس بھی احتیاط برت رہی ہے کہ چھوٹے واقعات میں مقدمہ نہ درج کیا جائے کیونکہ وَختہ پڑ جائے گا۔ پولیس کی معمول کی کارروائی جیسا کہ منشیات کے جھوٹے پرچے دینا اُس سے بھی احتیاط برتی جارہی ہے کہ خواہ مخواہ کا بوجھ اپنے لیے نہ بنایا جائے۔
اس تفصیل سے کچھ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ روزمرّہ کی سرکاری زندگی میں کتنا فرق آ چکاہے‘ اور یہ تمام تر اس بیماری کی وجہ سے‘ لیکن ایک چیز میں تبدیلی نہیں آئی اور وہ وزیراعظم عمران خان کا رویہ ہے۔ ہرروز اُن کی طرف سے ایک نہ ایک بیان جاری ہوتا ہے جس سے عام آدمی کو یہ تاثر ملتا ہے کہ بیماری تو ہے لیکن روزمرّہ کی معاشی زندگی کو چلانا بھی بہت اہم ہے‘ ورنہ لوگ بھوک سے مرجائیں گے۔ سربراہ حکومت کی اگر یہ حالت ہے تو عام لوگوں سے گلہ کیا جا سکتا ہے ۔ لاک ڈاؤن میں واضح نرمی تو اب آئی ہے لیکن ایک مہینے سے متواتر یہی بیانات ہیں کہ بھوک وننگ سے لوگ مرجائیں گے‘ اس لئے ضروری ہے کہ روزمرّہ زندگی کو چالو کیاجائے۔ ایسے بیانات ذہنی افراتفری پیدا کرنے کا سبب ہیں۔ اور نتیجہ ہم نے دیکھ لیا‘ جب لاک ڈاؤن میں سوموار سے لے کر جمعرات تک نرمی ہوئی۔ آفرین اس عوام کی بھی کہ ایسے نکلے اور سڑکوں پہ ایسا رش پیدا کیا جیسا کہ کل تو کبھی آنا ہی نہیں۔
وباتھمنے کانام نہیں لے رہی۔ دنیا ہیجان میں ہے۔ ایکسپرٹ کہہ رہے ہیں کہ شاید یہ وبا کبھی ختم نہ ہو اورہمیں اس کے ساتھ کسی نہ کسی طریقے رہنا پڑے۔ لیکن بیتے ہوئے ان تین چار دنوں کو دیکھا جائے تو گمان گزرتا ہے کہ یہاں تو کوئی بیماری نام کی چیز ہی نہیں۔ ایک تو ضروری کام ہوتا ہے جس سے جان نہیں چھڑائی جاسکتی لیکن یہاں توعالم ہی کچھ اوررہا۔ لگتا یوں تھا کہ جس کسی کے پاس موٹر کار ہے یا جو موٹرسائیکل سوارہے اس نے بازاروں کی طرف رخ ضرور کرناہے۔ میں تو چکوال کی بات کررہا ہوں۔ اپنے کوٹھے سے ایک نظر جھانکا تو سامنے تلہ گنگ روڈ کے دونوں اطراف کاریں ایک دوسرے کے اوپر کھڑی تھیں۔ موٹر سائیکلوں کا ہجوم، بندوں کا رش۔ خریداری ہورہی ہے یانہیں یہ علیحدہ بات ہے لیکن ہجوم ایسا کہ پتہ چلے‘ میلہ لگا ہوا ہے۔ شعور اورنظم وضبط، اورتو اس قوم میں اوصاف بڑے ہوں گے لیکن یہ دوچیزیں سرے سے نہیں۔ عوام کو سمجھائے تو سمجھائے کون۔ اورکوئی سمجھانے کی زحمت کرے تو سمجھے کون۔ اوپر سے وزیراعظم صاحب، ہر بیان سے قومی کنفیوژن میں مزید اضافہ کردیتے ہیں۔
ترجمانوں کی ایک فوج بھرتی کی ہوئی ہے۔ وزارت اطلاعات کے بھی پتہ نہیں کتنے سربراہان ہیں۔ ایک باقاعدہ وزیر، دوسرے فوج کے ریٹائرڈ صاحب جو سپیشل اسسٹنٹ لگا دئیے گئے ہیں۔ بات کسی سے بن نہیں رہی اور کیسے بنے جب کنفیوژن اوپر سے آرہی ہو۔ میری ہنسی نہ رکی جب معلوم ہوا کہ ہمارے جاننے والے ڈاکٹر شہباز گل جن کو کچھ ماہ قبل جناب عثمان بزدار کی ترجمانی سے فارغ کیا گیا تھا، سپیشل اسسٹنٹ ٹو پرائم منسٹر فار سیاسی کمیونیکیشن لگادئیے گئے ہیں۔ یہ عہدہ کس بلا کا نام ہے۔ اور یہ اُس وزیراعظم کی حکومت میں ہورہاہے جو کہتے نہیں تھکتے تھے کہ حکومت اورکابینہ کا سائز چھوٹا ہونا چاہیے۔ آئے تھے اس نوید کے ساتھ کہ پرائم منسٹر ہاؤس اورگورنر ہاؤس کوتبدیل کیاجائے گا۔ وہ تبدیل کیا ہونے تھے۔ یوں لگتاہے ایک سرکس لگا دیاگیاہے۔
ہمارے ملک میں کوئی چند نیک نام گزرے ہیں تو ان میں سرفہرست مولانا عبدالستار ایدھی کا ہے۔ اُن کے بیٹے اور جانشین فیصل ایدھی سے کوئی پوچھے کہ ایک کروڑ کا چیک لیے تم پرائم منسٹر ہاؤس کیا کرنے گئے تھے۔ فیصل ایدھی کو دروازے کے اندرکیا گیا تو پرائم منسٹر دو بڑے سرمایہ داروں سے محوگفتگو تھے۔ فیصل ایدھی کو چھ سات منٹ انتظار کرنا پڑا۔ وزیراعظم اٹھے اور سرمایہ دار مہمان دروازے کی طرف آئے تو اُن میں سے ایک نے فیصل ایدھی کو دیکھا تواُن کا تعارف وزیراعظم سے کرایا ۔ جس سے تاثر ملتا ہے کہ وزیراعظم کو نہیں پتہ تھا کہ یہ کون شخص دروازے کے پاس کھڑاہے۔ فیصل ایدھی سے بمشکل ایک منٹ وزیر اعظم کی گفتگو ہوئی۔ امدادی چیک وزیر اعظم کو دیا گیا اور فیصل ایدھی کو رخصت کیاگیا ۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ جب بعد میں پتہ چلا کہ فیصل ایدھی کورونا وائرس سے پازیٹیو نکلے ہیں تو شور مچا کہ وزیر اعظم کو خطرہ پڑ گیا ہے۔ اس لئے پورے اہتمام کے ساتھ اُن کا ٹیسٹ ہوا۔ کہنے کا مطلب یہ کہ اگر فیصل ایدھی آہی گیا تھا تو اُسے بٹھاتے اور اس سے معاشرے کے نچلے طبقات کے بارے میں پوچھ لیا جاتا کہ اُن پہ کیا بیت رہی ہے۔ وزیراعظم غریبوں کا نام لیے تھکتے نہیں۔ فیصل ایدھی اور بالعموم ایدھی فاؤنڈیشن سے زیادہ غریبوں کے بارے میں کون جان سکتاہے‘ لیکن فیصل ایدھی‘ جو بیچارہ اپنا کام چھوڑ کے کراچی سے آیا ہوگا‘ کو وزیر اعظم ایک منٹ سے زیادہ ٹائم نہ دے سکے۔ غریبوں کے ہمدردِ اول کا یہ حال ہے۔
باتیں غریبوں کی لیکن ان مداریوں کو تو دیکھیں جو ہمارے سرمایہ دارہیں۔ بات چلتی ہے تو ان کی۔ اثر حکومت پہ ہے تو ان کا۔ لہٰذا کو ئی حیرانی نہیں کہ پالیسیاں بنتی ہیں تو ان کے فائدے کی۔ سہولیات کس کو دی جارہی ہیں، کنسٹرکشن سیکٹر کو۔ رؤف کلاسرا کا حالیہ کالم پڑھ لیں کہ کنسٹرکشن کا کون سا بڑا نام ہے جو لندن مقیم ہے اور جس کی یاری عمران خان اورشہبازشریف دونوں سے ہے۔ کنسٹرکشن پہلے ہی مراعات یافتہ سیکٹر ہے۔ اس پہ مزید مہربانیاں۔ ایک اور بڑا پیکیج دیا جارہا ہے ایکسپورٹر ز کو۔ کوئی پوچھے جناب حفیظ شیخ سے کہ یہ ایکسپورٹر حضرات ہیں کون اور یہ ایکسپورٹ کرتے کیا ہیں۔ خواہ مخواہ کی فرضی کہانیاں ۔ ایک تو پیسہ خزانے میں ہے نہیں۔ جو تھوڑا بہت ہے اس میں سے زیادہ امداد اُن کی ہورہی ہے جونہ ضرورت مند ہیں نہ امداد کے مستحق ۔
آئے روز شوگر سکینڈل کی خبریں میڈیا میں آتی ہیں۔ فلاں نے اتنا فائدہ اٹھایا، فلاں نے اتنا ہاتھ مارا۔ سرخیاں دلچسپ بنتی ہیں لیکن ہوتا کچھ نہیں۔ نیب کی گرج آسمانوں کی گرج چمک سے زیادہ ہے لیکن شورکے بعد نتیجہ کچھ نہیں نکلتا۔ اورکیسے نکلے جب سارے مگر مچھ ملوث ہیں اوربیشتر ایسے جن کی ایک ٹانگ حکومت میں ہے۔ جنابِ وزیر اعظم صاحب کے قریب جو لوگ سمجھے جاتے ہیں، نہ صرف آج بلکہ ماضی میں بھی کوئی بتائے تو سہی کہ ان میں غریب کتنے ہیں اور موٹی آسامیاں کتنی۔ عوام بیچارے بے وقوف بنتے ہیں لیکن یہ بھی ماننا پڑے گا کہ غیور عوام کو بے وقوف بننے کا شوق بھی بہت ہے۔