منتخب تحریریں

یہ کورونا خود کو سمجھتا کیا ہے؟

Share

کورونا، کورونا، کورونا، خلقِ خدا کا ناک میں دم کر رکھا ہے اور ہر لب پر اس کے لئے بد دعائیں ہیں۔ بس اہلِ مغرب ہیں جو اسے کبھی بددعا نہیں دیتے بلکہ اس کی روک تھام کے لئے ویکسین کی تیاریوں میں مشغول ہیں۔ بےوقوف لوگ ہیں، اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں۔ کسی دن لاہور تشریف لائیں اور مجھے میزبانی کا شرف بخشیں۔ میں انہیں اپنے پیرو و مرشِد سائیں کوڈے شاہ کے درِ اقدس پر لے جائوں گا۔ بابا جی ننگ دھڑنگ ہوں گے، میرا یہ مغربی دوست قطعاً اس کا برا نہیں مانے گا کیونکہ مغرب میں ساحلِ سمندر کے علاوہ بھی کئی مقامات پر ملنگ اور ملنگیاں ننگ دھڑنگ نظر آتے اور نظر آتی ہیں۔ میرے مرشد سائیں کوڈے شاہ بہت مہمان نواز ہیں۔ وہ کونڈی ڈنڈے سے کچھ پتے گھوٹ کر اس میں پانی ملا کر ایک بڑے پیالے میں میرے اس مغربی سائنسدان کو پینے کے لئے پیش کریں گے اور کورونا کے حوالے سے کچھ معرفانہ گفتگو فرمائیں گے۔ بس اس درویشی مشروب پیتے ہی ان کے دِل کی دنیا بدل جائے گی اور واپس اپنے ملک جا کر وہ اپنی لیبارٹری کو تالا لگائیں گے اور لوگوں کو بتائیں گے کہ یہ کورونا ورونا نام کی کوئی چیز نہیں۔ یہ پروپیگنڈا ایک خاص منصوبے کے تحت کیا جا رہا ہے۔ بس اللہ کرے میرے اس مغربی سائنسدان دوست کی آمد سے پہلے میرے پیر و مرشد سائیں کوڈے شاہ کورونا میں مبتلا ہو کر فوت نہ ہو جائیں۔

یہ کالم میں ان نام نہاد پڑھے لکھے لوگوں کا یہ وہم دور کرنے کے لئے لکھ رہا ہوں کہ یہ وائرس لاعلاج ہے، میں انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ اگر یہ وائرس ہے بھی تو لاعلاج نہیں ہے مگر اس کا علاج اہلِ مغرب اور دوسری ترقی یافتہ اقوام کے پاس نہیں ہمارے پاس ہے۔ ایک بہت پہنچے ہوئے بزرگ نے مجھے ایک جنتر منتر سکھایا اور کہا کہ یہ پڑھ کر ایک زور دار پھونک مارو، تمہارے اردگرد جتنے بھی لوگ ہوں گے وہ سب کے سب ہر طرح کی بیماری سے صحت یاب ہو جائیں گے۔ میں نے ایسے ہی کیا مگر میں کیا، میری پھونک کیا۔ وہ بمشکل ایک گز تک پہنچی۔ جہاں کوئی بھی نہیں تھا۔ تاہم اس ناکامی سے میں حوصلہ نہیں ہارا بلکہ میں نے اپنے دوست سلیم موٹے کو اس کارِ خیر کے لئے تیار کیا۔ وہ سانس بھی لیتا ہے تو ایسی شدید آندھی آتی ہے کہ کئی تناور درخت جڑ سے اکھڑ جاتے ہیں۔ میں نے اسے جنتر منتر سکھایا اور ایک بہت بڑی مارکیٹ میں لے گیا جہاں لوگ سافٹ لاک ڈائون میں ہزاروں کی تعداد میں کندھے سے کندھا جوڑے موجود تھے۔ شکر ہے انہوں نے ماسک نہیں پہنے ہوئے تھے ورنہ پھونک ان کے ناک کے راستے اندر نہ جا سکتی۔ البتہ کچھ لوگوں نے ماسک شو، شا کے لئے چہرے پر باندھنے کے بجائے گلے میں لٹکائے ہوئے تھے۔ سلیم موٹے کو میں نے پھونک مارنے کے لئے ’’کیو‘‘ دیا اور اس کے ساتھ ہی اس نے اپنے پیٹ میں سینکڑوں لیٹر موجود ہوا کی پھونک مار دی مگر اس موٹی عقل والے کو یاد نہ رہا کہ میں نے اسے یہ پھونک اپنے منہ سے مارنے کے لئے کہا تھا۔ بس یہ بےراہرو پھونک ہوا میں پھیلی تو مجمع میں بھگدڑ مچ گئی۔ اکثر لوگ بےہوش ہو گئے۔ صرف وہی بچے جنہوں نے گلے میں لٹکے ہوئے ماسک سختی سے ناک پر باندھ لئے۔

سلیم موٹے کی اس بیوقوفی سے مجھے بہت غصہ آیا۔ میں تو غصہ پی گیا مگر جو تھوڑے بہت ہوش میں تھے، انہوں نے اسے زدوکوب بھی کیا۔ بہرحال میں مایوس نہیں ہوں کیونکہ میں بھی ان پڑھے لکھے لوگوں میں شامل ہوں جو سمجھتے ہیں کہ اگر واقعی کورونا کوئی جان لیوا وائرس ہے تو بھی ڈرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ جو رات قبر میں آنی ہے، وہ آنی ہی ہے۔ ویسے بھی ہمارے ہاں اللہ کے فضل و کرم سے ایسی پاکباز ہستیاں موجود ہیں جن کی ہمارے درمیان موجودگی ہمیں ہر بلا سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔ میں نے سوشل میڈیا میں ایسے بہت سے بزرگوں کی زیارت کی ہے۔ ایک نورانی صورت والے بزرگ کے گرد خواتین و حضرات کا مجمع لگا رہتا ہے۔ جو ان سے گلے ملنے کے لئے بےتاب ہوتے ہیں کہ ان کے جسم سے جسم مس ہوتے ہی جسم کی ساری کثافتیں ختم ہو جاتی ہیں۔ جب خواتین ان سے گلے ملتی ہیں تو یہ بزرگ بہت دیر تک ان سے چمٹے رہتے ہیں، انہیں شاید ادراک ہو جاتا ہے کہ ان کی کثافتیں اتنی جلدی ختم ہونے والی نہیں۔ اس کے بعد وہ اس بزرگ کے سامنے ناچتی ہیں اور کورونا نام کی اگر کوئی بیماری یا کوئی اور مسئلہ ہے بھی تو شفایاب ہو کر گھر جاتی ہیں۔ ایک ننگ دھڑنگ بزرگ کے گرد بلا مبالغہ قوالی کی تھاپ پر ہزاروں لڑکیاں اور لڑکے دھمال ڈال رہے ہوتے ہیں۔ درمیان میں بزرگ اپنے کسی مرید کو بلاتے ہیں اور اس کے کان میں کچھ کہتے ہیں۔ اس پر وہ مرید لائوڈ اسپیکر پر اعلان کرتا ہے کہ سائیں جی کا حکم ہے کہ یہاں جو کوئی بھی موجود ہے وہ دھمال ڈالے اور اس کے علاوہ وہ یہ اعلان بھی کرتا ہے کہ سائیں جی فرماتے ہیں، جو دھمال نہ ڈالے وہ…..ہے، یہاں آپ کوئی بھی بدترین اور غلیظ ترین گالی ڈال سکتے ہیں جو ہزاروں کے خواتین و حضرات کے مجمع میں دہرائی جاتی ہے۔ یہ سب لوگ کوئی پاگل تو نہیں ہیں جو پاکستان کے مختلف شہروں سے یہاں جمع ہوتے ہیں اور من کی مرادیں پا کر ہی جاتے ہوں گے ورنہ ہر بار اتنا بڑا ’’شو‘‘ تو منعقد نہیں ہو سکتا۔

میں آخر میں صرف یہ گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ جہاں اتنے پہنچے ہوئے بزرگ ایک ہی دھرتی پر موجود ہوں جہاں ہر دوسرا شخص آپ کو کچھ دعائیہ کلمات وٹس ایپ کرتا ہو، جہاں سینکڑوں دیسی نسخے آپ کو بتانے والے ہزاروں کی تعداد میں موجود ہوں، ان کی موجودگی میں مغربی سائنسدانوں کی طرف دیکھنا اپنے ایمان پر عدمِ اطمینان کی علامت ہے۔ ہم پاکستانیوں نے تو در و دیوار ہر قسم کی بیماریوں اور ہر قسم کی ’’کمزوریوں‘‘ کے شرطیہ علاج کے اعلان سے بھر رکھے ہیں۔ یہ کورونا خود کو سمجھتا کیا ہے؟