منتخب تحریریں

ایسے کاموں میں ایسا تو ہوتا ہے

Share

انسانی عادات اخلاقیات سے کم ہی متاثر ہوتی ہیں۔ استطاعت زیادہ معنی رکھتی ہے۔ بات یہ نہیں کہ کون سا کام اچھا ہے اور کون سا بُرا بلکہ یہ کہ آپ کی استطاعت کتنی ہے۔ جب گزرے وقتوں کے بارونق بازار کھلے ہوتے تھے تو وہاں جانے کا ہر ایک کا جی چاہتا ہو گا لیکن ہوا میں نوٹ پھینکنے والے وہی ہوتے تھے جن کے پاس اُس کی استطاعت ہوتی۔
رومن تاریخ نویس سوٹونیس (Suetonius) کی مشہور کتاب ہے: The Twelve Caesars۔ اس میں اس نے سلطنت روما کے پہلے بارہ بادشاہوں یا قیصروں کی زندگیوں کا احاطہ کیا ہے۔ بہت ہی شاندار کتاب ہے اور کلاسیکی لٹریچر میں اس کا اپنا مقام ہے۔ ہر قیصر کے اوصاف تو لکھے ہیں لیکن اُن کی کمزوریوں کا بھی بھرپور ذکر ہے۔ کتاب پڑھ کے لگتا یوں ہے کہ دنیا کی تمام برائیاں ان قیصروں میں تھیں۔ کوئی اخلاقی عیب ایسا نہیں جس کا ذکر ان اوراق میں نہ ملتا ہو۔ اس پہ مشہور امریکی مصنف گور وڈال (Gore Vidal) نے بہت دلچسپ تبصرہ کیا ہے۔ لکھتے ہیں‘ ایسا نہیں کہ یہ قیصر اخلاقی طور پہ پست انسان تھے۔ حقیقت کچھ اور ہے۔ ان میں اتنی استطاعت تھی کہ گھٹیا سے گھٹیا آرزو اور تمنا کو پورا کر سکتے۔ جو گھناؤنی خواہش ان کے دریچۂ دل میں پیدا ہوئی اسے وہ پورا کر سکتے تھے۔
ہر انسان ایسی استطاعت کا مالک نہیں ہوتا۔ اٹلی کے رئیس اعظم اور سابق وزیر اعظم سلویو برلسکونی (Silvio Berlusconi) کو دیکھ لیجیے۔ ان کی عمر اب 84-83 سال ہے لیکن آتشِ دامن اب بھی جوان ہے۔ حال ہی میں ان کے ایک نئے عشق کے چرچے میڈیا کی زینت بنے۔ کچھ سال پہلے کی بات ہے کہ اُن کی پارٹیاں بڑی مشہور ہوا کرتی تھیں۔ نوجوان خواتین ان محفلوں کی جان ہوتیں۔ سلویو برلسکونی پہ ایک مقدمہ بھی چلا کہ ایک کم عمر خاتون سے پیسے کے عوض ان کے تعلقات استوار ہوئے۔ انہیں سزا بھی ہوئی لیکن مجال ہے کہ جناب برلسکونی کے سٹائل یا روپ میں تھوڑی سی لغزش بھی آئی ہو۔ اٹلی ویسے بھی رنگین مزاج ملک ہے۔ وہاں ایسی حرکات کو اتنا معیوب نہیں سمجھا جاتا جتنا کہ ہمارے جیسے احتیاطی معاشرے میں۔
کہنے کا مطلب یہ کہ بیشتر مردوں میں سلویو برلسکونی بننے کی خواہش ہوتی ہے لیکن ہر کوئی بن نہیں سکتا کیونکہ استطاعت وہ نہیں ہوتی۔ یقینا بہت سے لوگ جو قناعت کرتے ہیں یا زندگی کے سیدھے راستے پہ چلتے ہیں وہ دل سے ایسا کرتے ہوں گے‘ لیکن ہم جیسے بہتوں کی قناعت مجبوری اور محدود وسائل کی مظہر رہتی ہے۔ ہماری قناعت مجبوری کے جھنڈے تلے ہوتی ہے۔ ان راہوں پہ چل نہیں سکتے جن کا انتخاب اس دنیا کے برلسکونیوں نے کیا ہو۔
اسی زاویے سے لاہور کا حالیہ واقعہ دیکھا جا سکتا ہے۔ شادی شدہ مرد ادھر ادھر منہ مارتے ہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں۔ جب سے دنیا بنی یا یوں کہیے انسانی معاشرہ تشکیل پایا ایسا ہی ہوتا آرہا ہے۔ ظاہراً آپ بڑے سیدھے سادے معاشرے کا فرد نظر آتے ہیں۔ بیوی ہے بچے ہیں، لوگ آپ کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں‘ لیکن کسی کونے کھدرے میں اسی سیدھے سادے مرد نے کوئی ہیرا پھیری کا سامان رکھا ہوتا ہے۔ مکان کرایے پہ لے کے دیا ہوا، وسائل ہوئے تو خرید کے مکان بطور تحفہ دلرُبا کو دے دیا۔ گاڑی بھی مہیا کردی۔ ظاہر ہے ماہانہ خرچے کا اہتمام بھی کر دیا ہو گا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ایسا ہوتا ہے اور ہوتا چلا آرہا ہے۔ بادشاہوں کو ایسے تکلف کا اہتمام نہیں کرنا پڑتا تھا۔ اُن کا باقاعدہ حرم ہوتا تھا جیسا کہ ہندوستان کے تمام بادشاہوں کا رہا ہے۔ اُس میں ایک تو منکوحہ بیگمات ہوتی تھیں لیکن اُن کے ساتھ پتہ نہیں کتنی‘ سینکڑوں دنیا کے ہر کونے سے آئی ہوئی کنیزیں۔ بادشاہوں کی البتہ ایک بات یہ تھی کہ حرم چھوٹا ہو یا بڑا منکوحہ بیگمات احتجاج نہیں کر سکتی تھیں۔ بادشاہتوں میں احتجاج کی گنجائش کم ہی ہوتی تھی۔
لیکن روزمرّہ کی دنیا میں جہاں ہم بادشاہوں کا ذکر نہ کر رہے ہوں ناصرف احتجاج کی گنجائش رہتی ہے بلکہ اکثر اوقات بات تکرار تک پہنچ جاتی ہے۔ اسی لیے سمجھدار شرفا ایسی حرکات کو پردوں کے پیچھے رکھتے ہیں۔ دلرُبا کے ہاں جاتے ہیں تو چھپ چھپا کے یا کوئی بہانہ بنا کے؛ البتہ زوجہ محترمہ کے علم میں ایسی حقیقت آ جائے تو گھر میں فساد برپا ہوتا ہے اور ناخوشگوار سا ماحول بن کے رہ جاتا ہے۔ ایسے تناظر میں جو عورت اپنے آپ کو مظلوم تصورکرے اس کے دل میں انگارے تو سلگتے ہیں لیکن بیشتر اوقات وہ کچھ اور کر نہیں پاتی۔ اس کی اتنی استطاعت نہیں ہوتی۔
کون شادی شدہ عورت ہے جو نہ چاہے کہ اپنی ناجائز سوکن کو بالوں سے پکڑ کے زمین پہ گھسیٹے لیکن ایسے ارمان دل ہی میں رہ جاتے ہیں۔ زوجہ محترمہ کرنا بہت چاہتی ہیں لیکن کر نہیں پاتیں۔
لہٰذا لاہور کا واقعہ زیادتی کا مظہر نہیں، استطاعت کا مظاہرہ ہے۔ بیوی کو پتہ چلا یا کافی عرصے سے معلوم ہو گا کہ مجازی خدا اِدھر اُدھر منہ مار رہے ہیں اور اُنہوں نے فلاں جگہ اپنی دل پسند کو مہنگا گھر لے کے دیا ہوا ہے۔ تمام خرچے برداشت کر رہے ہیں اور آئے روز بہانے تراش کے گھر سے غائب ہو جاتے ہیں۔ گھر لوٹتے ہیں تو رات گئے۔ کبھی کبھار شاید واپس بھی نہ آتے ہوں‘ لیکن یہاں شوہر سے غلطی سرزد ہوگئی۔ اپنی زوجہ کی استطاعت کو نہ سمجھ سکا‘ اور نہ سمجھ سکا کہ کیسے انگارے اُس کی بیگم کے دل میں سُلگ رہے ہیں۔ بیگم محترمہ اکیلے نہیں بلکہ مناسب لاؤ لشکر کے ساتھ دلرُبا کے گھر پہنچ گئیں اور اُس کی ایسی کلاس لی جو زندگی بھر یاد رہے گی۔ دھول دھپہ کچھ زیادہ نہ کیا لیکن حالات کے پیشِ نظر جو کیا مناسب کیا۔
آج کل تو چڑی پھڑکے تو سوشل میڈیا پہ چرچا ہوجاتا ہے۔ یہ واقعہ تو بہرحال دلچسپ تھا اور جو نام ملوث ہیں وہ بھی آپ کہہ سکتے ہیں کہ مشہور ہیں۔ اس لئے کوئی حیرانی نہیں کہ سوشل میڈیا پہ اس واقعے کا چرچا کچھ زیادہ ہی ہوا اور کچھ ویڈیو وغیرہ بھی عام ہو گئی ہیں‘ لیکن اصلی بیگم نے سوشل میڈیا پہ اپنا بھرپور دفاع بھی پیش کیا۔ اس میں انہوں نے دوسری خاتون کا نام لیتے ہوئے کہا کہ ایسی عورتیں گھروں کو تباہ کرنے والی ہیں‘ میں نے بارہا اُسے منع کرنے کی کوشش کی لیکن وہ باز نہ آئی۔ ساتھ ہی اس امر کا بھی برملا اظہار کیا کہ سب سے زیادہ قصوروار اس واقعے میں اُن کے شوہر ہیں۔
اگلے روز یا اُس سے اگلے روز دوسری خاتون‘ جس کا تعلق ایکٹنگ پروفیشن سے ہے‘ نے اپنے وکلا کے ہمراہ لاہور پریس کلب میں پریس کانفرنس کی۔ ویڈیو دیکھیں تو صاف ظاہر ہو گا کہ وکیل صاحب کافی چرب زبان ہیں۔ زیادہ زور اس پہ دیا کہ گھر میں دراندازی ہوئی ہے لہٰذا دفعہ 452 کا مقدمہ بنتا ہے۔ متعلقہ تھانے میں ایف آئی آر بھی درج ہوچکی ہے لیکن دیکھا جائے تو موصوفہ کے ساتھ ہوا بالکل وہ جو ہر بیگم اپنی سوکن پہ کرنا چاہے۔ اس واقعے میں جو جارحانہ انداز اپنانے والی بیگم صاحبہ تھیں اُن کی استطاعت ایسی تھی کہ وہ دل کے ارمان پورے کر سکتی تھیں۔ ہر متاثرہ یا مظلوم بیگم ایسا نہیں کر سکتی۔
کچھ شوہر صاحب کی ویڈیو سامنے آئی ہیں جس میں وہ اپنی محبوبہ کے ساتھ بیٹھے دکھائی دیتے ہیں۔ صاف پتہ چل رہاہے کہ انہیں معلوم ہے کہ کوئی ویڈیو بنا رہا ہے لیکن اس کے باوجود بندروں والی حرکتیں فرما رہے ہیں۔ کسی اور وجہ سے نہیں تو اسی بنا پہ وہ دو چار لِتروں کے مستحق ہیں۔ آج کے زمانے میں کوئی اتنا بھی غافل دماغ ہو سکتا ہے؟ پھر ایک آدھ بار کسی گھٹیا موسیقی پہ شوہر صاحب جھوم رہے ہیں۔ گھٹیا ذوقِ موسیقی کیلئے بھی چند لِتروں کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔
ایک بات البتہ سمجھ نہیں آئی۔ اس واقعے میں وزیر اعظم عمران خان کے بھانجے حسان خان نیازی کا ذکر بھی آتا رہا۔ اُن کا رول صرف ایک وکیل کا ہے یا بات کچھ اور بھی ہے؟