منتخب تحریریں

دیہات کے شغل بھی اپنا نہ سکے

Share

گھوڑے پالے نہ بیل رکھے۔ ایک آدھ کتا رکھنے کا شوق رہا لیکن وہ حال کبھی نہ تھا جیسا کہ سرگودھا کے بڑے زمیندار مہر خداداد لَک کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ 100 یا 50 عدد شکاری کتے رکھتے تھے۔ اتنی تعداد میں شکار کا سامان رکھنا بڑی زمینداری کا کھیل ہے اور وہ ہماری کبھی نہ رہی۔ چند زمین کے ٹکڑے لیکن تصور اور خواب بڑے بڑے، ہماری تو یہ حالت رہی ہے۔
مجروں کا سُنا بہت ہے دیکھے نہایت ہی کم۔ ہمارے گاؤں کے پڑوس میں ہی ایک دوسرا گاؤں ہے جس کا سالانہ عرس خاصا مشہور ہوا کرتا تھا۔ عقیدت رکھنے والی رقاصائیں خاصی تعداد میں میلے پہ آیا کرتی تھیں اور اُن کے فن کا مظاہرہ خوب ٹھہرتا تھا۔ اس خانقاہ کے ایک پیر صاحب تھے جن سے ہماری علیک سلیک اچھی تھی۔ عرس ہوتا تو ہمیں بھی بُلا لیا کرتے۔ اگلی صف میں بطور خاص مہمان ہم بیٹھ جایا کرتے اور اس طریقے سے محفل کا مزہ اُٹھا لیتے۔ ایسے موقعوں پہ خاص مہمان بنائے جانے کا ایک یہ فائدہ رہتا ہے کہ زیادہ نوٹ اچھالنے نہیں پڑتے‘ یعنی محظوظ ہوئے تو تقریباً مفت میں ہوئے‘ لیکن وہ ہمارے دوست پیر صاحب اس دنیا سے گئے اور اب ہمارا بھی وہاں جانے کا جی نہیں کرتا۔ سو اور باتوں کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی گئی۔
زمانہ بھی بدل چکا ہے۔ اب ایسے عرسوں میں وہ دھنک نہیں رہی جو ایک زمانے میں اُن کا خاصہ ہوا کرتی تھی۔ گندم کی کٹائی پوری ہوئی تو برّی امام سرکار کا عرس ہوتا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ یوں لگتا‘ لاہور کا مخصوص بازار سارے کا سارا اس عرس کے لئے امڈ آیا ہے۔ دھمال ایسے پڑتی کہ زمین ہل کے رہ جاتی۔ چہرے ایسے کہ پورا سال اُن کی جھلک محوِ دل رہتی۔ دورِ ضیا آیا اور برّی امام کا ظاہری نقشہ جدیدیت اور ترقی کے نام پہ بدل دیا گیا۔ بہتری کیا آنی تھی پرانی روح اُس جگہ کی مار دی گئی۔ پھر پاکیزگی کے نام پہ دھمال کا پرانا رواج بھی ختم ہوتا گیا۔ مزار ہے لیکن جو اُس کی بات ہوا کرتی تھی وہ ختم ہو گئی۔ یہی حال تمام ایسی جگہوں کے ساتھ ہوا ہے۔ کسی چیز کو ہم اصلی حالت میں رہنے نہیں دیتے۔ شاید یہ ہمارا قومی مزاج بن چکا ہے۔
کتوں کے شوق کے حوالے سے مہر خداداد لَک کا ذکر اوپر ہوا۔ ایک اور قسم کے شکار کا بھی شوق دیہی زندگی میں پایا جاتا ہے… جنگلی سؤر کا شکار۔ بڑے زمیندار بھی کرتے ہیں اور چھوٹے کاشتکار بھی اس شوق میں مبتلا رہتے ہیں۔ سردار ممتاز بھٹو اور ملک غلام مصطفی کھر کے بارے میں مشہور ہے کہ اس شغل میں کافی آگے ہیں۔ ہمارے علاقے میں مختلف دیہات میں ٹیمیں بنی ہوئی ہیں جو اس شکار کیلئے نکلتی ہیں۔ خاص قسم کے کتے بڑی چاہ سے رکھے جاتے ہیں اور پھر اس شکار میں استعمال ہوتے ہیں۔ سؤر کا شکار بڑے اہتمام سے دیگر ممالک میں زمانۂ قدیم سے چلا آ رہا ہے۔ یاد پڑتا ہے کہ روس میں کمیونسٹ حکمرانی مسلط تھی تو باہر کے سربراہانِ مملکت کیلئے سؤر کے شکار کا خاص اہتمام ہوا کرتا تھا۔ روس کی سردی میں جب ہر طرف برف نظر آرہی ہو صبح سویرے بھاری بھاری اوورکوٹ پہنے مہمان سربراہان کو ماسکو کے قریب جنگلات میں لے جایا جاتا اور یہ شکار ہوتا۔ ہمارے دیہی علاقوں میں روس کے بادشاہ تو نہیں بستے لیکن اس شکار کا شوق پایا جاتا ہے۔ فرق البتہ یہ ہے کہ ہمارے لوگ سؤروں پہ ظلم بہت کرتے ہیں۔ جانور کوئی کتوں کے نرغے میں آیا تو اُسے رسیوں میں باندھ دیا جاتا ہے اور پھر اُس کی نیم نڈھال جان پہ بار بار کتوں کو چھوڑا جاتا ہے۔ ایک آدھ بار میں ایسے شکار پہ گیا لیکن اِس ظلم کا نظارہ ہوا تو پھر کبھی جانے کی ہمت نہ پڑی۔ ہمارے لوگ سمجھتے ہیں کہ سؤروں پہ ظلم عین ثواب ہے۔
انگلستان میں لومڑی کا شکار ایک خاص اہتمام سے ہوتا ہے۔ جیسی ہماری تحصیلیں ہیں انگلستان میں کاؤنٹیز ہوا کرتی ہیں۔ ہر کاؤنٹی میں لومڑی کے شکار کی ٹیمیں ہیں۔ گھوڑوں پہ شکار ہوتا ہے اور اس میں مردوخواتین گھڑ سوار برابر کا حصہ لیتے ہیں۔ لباس بھی مخصوص ہوتا ہے، لال کوٹ، سفید پتلون اور سواری کے خاص بوٹ۔ شکار کا ایک ماسٹر ہوتا ہے۔ سونگھنے والے کتوں کی ایک بڑی تعداد شکار میں شامل ہوتی ہے۔ بگل بجے تو کتے اور گھوڑے لومڑی کے پیچھے ہو لیتے ہیں۔ انگلستان کا رقبہ ہمارے رقبے سے بہت کم ہے لیکن وہاں کی زمینداریاں ہماری نسبت بہت بڑی ہوا کرتی ہیں۔ لومڑی کا شکار ان بڑے رقبوں پہ کھیلا جاتا ہے۔ گھڑ سوار نکلیں تو میلوں میل دوڑے جاتے ہیں۔ گھڑ سواری بلاجھجک اور دھڑلے کی ہوتی ہے۔ ندی آئے یا کوئی اور رکاوٹ، گھوڑے پھلانگتے چلے جاتے ہیں۔ کمزور دلوں کیلئے یہ شغل نہیں۔ گھوڑا اچھا ہونا چاہیے اور گھڑ سواری بھی کمال کی آنی چاہیے۔ تبھی آپ اس کھیل کا حصہ بن سکتے ہیں‘ اور جب کہیں دن ڈھلے شکار کا اختتام ہوا تو پھر تصور کیجیے کہ جشن کا کیسا سماں برپا ہوتا ہو گا۔
نوابی کے انداز ہر معاشرے کے اپنے اپنے ہوا کرتے ہیں۔ بڑے زمیندار یورپ اور امریکا میں ہیں اور ہمارے ہاں بھی‘ لیکن جیسے عرض کیا انداز اپنے اپنے۔ ہمارے پنجاب کا ایک خاص مزاج ہے جو صدیوں سے چلا آرہاہے۔ تقسیمِ ہند کی وجہ سے پنجاب کی بھی تقسیم ہوئی، ایک پنجاب وہاں رہ گیا اور پنجاب کا بڑا حصہ ہمارے حصے میں آیا لیکن کچھ ہماری تاریخ ایسی رہی کہ پنجاب کا صدیوں پرانا مزاج یہاں بدلتا گیا۔ سماجی روّیے کچھ ایسے بنے کہ وہ پنجاب کی پرانی بات یہاں نہ رہی۔ پنجابی مزاج شغل کرنے والا مزاج ہے۔ وہ روش تو مٹائی نہیں جا سکتی لیکن جیسے مزاروں کا ذکر ہوا اور بھی بہت ساری روایات یہاں پاکیزگی کے نام پہ مٹتی چلی گئیں۔ پنجاب کے درمیان کھینچی گئی لکیر کے دونوں اطراف آپ کو ایک طرح کے لوگ ملیں گے۔ جاٹ ہندوستانی پنجاب میں بھی ہیں اور یہاں بھی۔ شکلیں ایک ہیں، زبان ایک ہے‘ سماجی عادات ایک ہیں لیکن مزاج میں تھوڑا سا فرق آچکاہے۔ جس قسم کا بھنگڑا ہندوستانی پنجاب میں دیکھا جاسکتا ہے یہاں اب کم ہی ملتا ہے۔ ہماری شادی بیاہ کی تقریبات میں زور کھانے پہ ہوتا ہے۔ وہاں شادی بیاہ کی تقریبات ذرا مختلف ہوتی ہیں۔
یورپ اورہماری زمینداری میں ایک اور فرق بھی ہے۔ وہاں کے بڑے زمینداروں نے دیہی زندگی ترک نہیں کی، دیہاتی زندگی کو جدید بنایا ہے اورفخر اس بات میں سمجھاجاتا ہے کہ دیہات میں بڑا گھر یا محل ہے۔ یہاں پہ روایت اُلٹی بنی ہے۔ بڑے بڑے زمینداروں کی زمینداریاں تباہ ہوگئیں یا تقسیم در تقسیم کا شکار ہوئیں اور زمیندار گھرانے دیہات کو ترک کرکے شہروں کے پوش علاقوں میں مقیم ہوگئے۔ نہ صرف بڑے زمیندار بلکہ جن کا کوئی بھی رشتہ زمین سے تھا‘ انہوں نے بھی دیہات کو چھوڑنے میں عافیت سمجھی۔ اب ایک تبدیلی پاکستان میں آچکی ہے۔ ذرائع آمدورفت بہتر ہوگئے ہیں۔ دیہاتی علاقے جو پہلے دوردراز سمجھے جاتے تھے نئی سڑکوں کے بننے کی وجہ سے شہروں کے نزدیک آگئے ہیں‘ اس لئے اب نیا رجحان فارم ہاؤسز کا چل نکلا ہے۔ شہر کے آسودہ حال لوگ اب چاہنے لگے ہیں کہ قریب یا دور کے دیہاتی علاقوں میں کوئی ٹھکانہ ہو جہاں وہ فراغت کے لمحات گزار سکیں۔ یہ ایک نیا اور اچھا ٹرینڈ ہے۔
ہمارے علاقوں کو لے لیجیے۔ ایک زمانہ تھا راولپنڈی سے میرے گاؤں تک چار‘ ساڑھے چار گھنٹے کی مسافت بنتی تھی۔ تب اسلام آباد تو تھا نہیں۔ اب اسلام آبا د سے نکلے تو تقریباً ایک گھنٹے میں یہاں گاؤں تک پہنچ گئے۔ یہی ہر جگہ ہوا ہے۔ یہ امر ایک نئی طرز زندگی کی طرف نشاندہی کرتا ہے۔ جیسے دیگر ملکوں میں رواج بن چکا ہے کہ آپ شہروں سے باہر رہیں لیکن کام کی غرض سے شہروں میں جائیں۔ یہاں بھی اب ممکن ہوتا جا رہا ہے۔
فرق البتہ اتنا ہے کہ تعلیم اور طب کے حوالے سے وہ سہولیات جو شہروں میں ملتی ہیں چھوٹے قصبات میں اب تک میسر نہیں۔ سکول اور ہسپتال ہیں لیکن معیار تھوڑا نچلے درجے کا ہے۔ یہ فرق مٹ جائے تو تب بات بنے۔