سائنس

ایمازون نے امریکی پولیس کی جانب سے اپنے چہرہ پہچاننے کے سافٹ ویئر کے استعمال پر پابندی عائد کر دی

Share

ٹیکنالوجی کمپنی ایمازون نے چہرہ پہچاننے والے اپنے متنازع سافٹ ویئر کے پولیس کی جانب سے استعمال پرایک سال کے لیے پابندی لگا دی ہے۔

یہ فیصلہ شہری حقوق کے حامیوں کی جانب سے اس ٹیکنالوجی کے استعمال میں نسلی تعصب کے بارے میں خدشات کے اظہار کے بعد کیا گیا ہے۔

اسی ہفتے آئی بی ایم نے بھی یہ کہا ہے کہ وہ ’بڑے پیمانے پر نگرانی یا نسلی بنیادوں پر ڈیٹا اکٹھا کرنے‘ کے لیے اپنا سافٹ ویئر دینا بند کر دے گا۔

امریکہ میں حال ہی میں جارج فلائیڈ کی پولیس تحویل میں ہلاکت کے بعد سے ان کمپنیوں پر دباؤ بڑھ رہا تھا جس کے نتیجے میں یہ فیصلے سامنے آئے ہیں۔

ایمیزون نے کہا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے اس سافٹ ویئر کے استعمال پر پابندی کا مطلب امریکی قانون سازوں کو یہ موقع فراہم کرنا ہے کہ وہ اس ٹیکنالوجی کے استعمال کو کنٹرول کرنے کے لیے قانون سازی کریں۔

ایمیزون نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا ’ہم نے حکومتوں سے کہا ہے کہ وہ چہرہ شناخت کرنے والی اس ٹیکنالوجی کے اخلاقی استعمال کو یقینی بنانے کے لیے سخت قواعد و ضوابط بنائیں، اور ایسا لگتا ہے کہ اب کانگریس اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے۔‘

ہم امید کرتے ہیں کہ اس ایک سال کی اس پابندی کے بعد کانگریس کو مناسب قانون کے نفاذ کے لیے کافی وقت مل جائے گا اور اگر کانگریس چاہے تو ہم مدد کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘

تاہم کمپنی نے کہا ہے کہ وہ انسانی سمگلِنگ سے نمٹنے والی تنظیموں کو اب بھی اس ٹیکنالوجی کے استعمال کی اجازت دے گی۔

چہرے کی شناخت کرنے والی دیگر مصنوعات کی طرح ایمازون کی یہ ٹیکنالوجی ‘ری کگنیشن’ تیزی سے مصنوعی ذہانت (اے آئی) کا استعمال کرتے ہوئے تصویر کا موازنہ کر سکتی ہے۔

مثال کے طور پر یہ ٹیکنالوجی کسی پولیس اہلکار کے فون کیمرا سے لی جانے والی تصویر کا موازنہ پولیس ڈیٹا بیس میں موجود مجرموں کی سینکڑوں ہزاروں تصاویر سے کر سکتی ہے۔

چہرہ پہچاننے والی ٹیکنالوجی کو اس کے مبینہ تعصب کی وجہ سے کچھ عرصے سے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور کئی مطالعوں میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس سے سفید فام لوگوں کے مقابلے میں سیاہ فام اور دیگر اقلیتی لوگوں کے چہروں کی غلط شناخت کے زیادہ امکانات ہیں۔

جارج فلائیڈ کی پولیس تحویل میں ہلاکت نے ان خدشات کو دوبارہ ہوا دی ہے اور پولیس کی حکمت عملی اور قانون کے نفاذ کے لیے اس ٹیکنالوجی کے استعمال پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔

کانگریس کو لکھے گئے ایک خط میں آئی بی ایم کے چیف ایگزیکٹو اروند کرشنا نے کہا کہ ’نسل پرستی کے خلاف جنگ بہت اہم اور ضروری ہے‘۔

انھوں نے ایسے تین شعبوں کی نشاندہی کی جہاں کمپنی کانگریس کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتی ہے۔ ان میں پولیس اصلاحات، ٹیکنالوجی کا ذمہ دارانہ طور پر استعمال، اور عملے کی تربیت اور تعلیم شامل ہے۔

کانگریس

کانگریس سے قانون سازی کے لیے مطالبات

حالیہ مہینوں میں کانگریس ٹیکنالوجی کے استعمال پر ضوابط عائد کرنے کے امکانات پر غور کر رہی ہے کیونکہ قانون ساز، کمپنیاں، اور شہری حقوق کے کارکنان نے نگرانی کے سافٹ ویئر پر سخت پابندیوں کا مطالبہ کیا ہے۔

ایوان کے ڈیموکریٹ ارکان نے پیر کو پولیس اصلاحات کا ایک قانون متعارف کروایا جو چہرہ پہچاننے کے لیے وفاقی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے ٹیکنالوجی کے استعمال پر پابندی عائد کر دے گا مگر چند کارکنان کے نزدیک یہ اقدامات کافی نہیں ہیں۔

امریکن سول لبرٹیز یونین نے کہا کہ پولیس اہلکاروں کے جسم پر موجود کیمرا کے ذریعے چہرا پہچاننے پر پابندی ہونی چاہیے اور وہ مقامی قانون نافذ کرنے والے ادارے جو جس ٹیکنالوجی کے استعمال کو محدود نہیں کرتے، ان کے لیے وفاقی فنڈنگ کم کر دینی چاہیے۔