Site icon DUNYA PAKISTAN

سپریم کورٹ: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کا فیصلہ محفوظ

Share

سپریم کورٹ آف پاکستان نے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو چیلنج کرنے کے معاملے کی طویل سماعتوں کے بعد کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا اور آج سہ پہر مختصر فیصلہ سنائے جانے کا امکان ہے۔

عدالت عظمیٰ میں جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی فل کورٹ صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائر عیسیٰ کی درخواست پر سماعت کر رہا ہے، جہاں جسٹس عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک حکومتی وکیل فروغ نسیم کے دلائل پر جواب الجواب دے رہے ہیں۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز حکومتی وکیل فروغ نسیم نے اپنے دلائل مکمل کیے تھے جس پر عدالت نے ان سے تحریری معروضات جمع کروانے کا کہا تھا جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے بھی ویڈیو لنک کے ذریعے اپنا بیان ریکارڈ کروایا تھا۔

آج (جمعہ) کو کیس کی سماعت شروع ہوئی تو سب سے پہلے وفاقی حکومت کے وکیل فروغ نسیم نے کچھ دستاویزات جبکہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے ٹیکس ریکارڈ کی دستاویز سربمہر لفافے میں عدالت میں جمع کروائیں۔‎

مزید یہ جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ کی جانب سے بھی زرعی زمین اور پاسپورٹ کی نقول عدالت میں جمع کروائی گئیں۔

اس پر سربراہ بینچ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم ابھی اس لفافے کا جائزہ نہیں لیتے اور نہ ہی اس پر کوئی آرڈر پاس کریں گے۔

‏انہوں نے کہا کہ معزز جج (جسٹس قاضی فائز عیسیٰ) کی اہلیہ تمام دستاویز ریکارڈ پر لاچکی ہیں، آپ اس کی تصدیق کروائیں، ہم ابھی درخواست گزار کے وکیل منیر اے ملک کو سنتے ہیں۔

ساتھ ہی عدالت نے منیر اے ملک کو ہدایت کی کہ وہ اپنے دلائل کو مختصر رکھیں، جس پر وکیل جسٹس عیسیٰ نے کہا کہ ساڑھے 10 بجے تک اپنے دلائل مکمل کردوں گا۔

جس پر جسٹس عمر عطا بندیال بولے کے عدالت پہلے بھی آپ کو دلائل کے لیے 21 دن دے چکی ہے۔

منیر اے ملک نے اپنے جواب الجواب میں کہا کہ افتخارچوہدری کیس میں سپریم جوڈیشل کونسل پر بدنیتی کے الزامات تھے، ‏سپریم۔جوڈیشل کونسل نے بدنیتی پر کوئی فیصلہ نہیں دیا تھا، توقع ہے کہ مجھے جوڈیشل کونسل کی بدنیتی پر بات نہیں کرنا پڑے گی۔

منیر اے ملک نے کہا کہ سمجھ نہیں آرہا حکومت کا اصل میں کیس ہے کیا، فروغ نسیم نے کہا ان کا اصل کیس وہ نہیں جو ریفرنس میں ہے، برطانوی جج جسٹس جبرالٹر کی اہلیہ کے خط اور ان کی برطرفی کا حوالہ دیا گیا، جسٹس جبرالٹر نے خود کو اہلیہ کی مہم کے ساتھ منسلک کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ‏جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کبھی اہلیہ کی جائیدادیں خود سے منسوب نہیں کیں، الیکشن اور نیب قوانین میں شوہر اہلیہ کے اثاثوں پر جوابدہ ہوتا ہے۔

اپنے جواب الجواب میں منیر اے ملک نے کہا کہ فروغ نسیم نے کہا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ آنے میں دیر کر دی، ‏بد قسمتی سے فروغ نسیم غلط بس میں سوار ہوگئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت ایف بی آر جانے کے بجائے سپریم جوڈیشل کونسل آگئی، ایف بی آر اپنا کام کرے ہم نے کبھی رکاوٹ نہیں ڈالی۔

منیر اے ملک بولے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی اور عدلیہ کی عزت کی خاطر ریفرنس چیلنج کیا، ‏چاہتے ہیں کہ عدلیہ جسٹس عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کالعدم قرار دے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل کا کہنا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے احکامات اور شوکاز نوٹس میں فرق ہے۔

سماعت کے دوران جسٹس عیسیٰ کے وکیل نے ریفرنس میں لگائے گئے جائیدادوں کے الزامات پر کہا کہ لندن کی جائیدادوں کی تلاش کے لیے سرچ انجن 192 ڈاٹ کام کا استعمال کیا گیا، اس پر سرچ کرنے کے لیے ادائیگی کرنا پڑتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آن لائن ادائیگی کی رسید ویب سائٹ متعلقہ بندے کو ای میل کرتی ہے، ضیاالمصطفیٰ نے ہائی کمیشن کی تصدیق شدہ جائیداد کی تین نقول حاصل کیں،ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ جن سیاسی شخصیات کی جائیدادیں سرچ کیں اس کی رسیدیں بھی ساتھ لگائی ہیں، حکومت رسیدیں دے تو سامنے آجائے گا کہ جائیدادیں کس نے سرچ کیں۔

منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ صحافی عبدالوحید ڈوگرنے ایک جائیداد کا بتایا تھا، تاہم اگر سرچ انجن پر اثاثہ جات ریکوری یونٹ (اے آر یو) نے جائیداد تلاش کیں تو رسیدیں دے دیں۔ اس پر عدالتی بینچ کے رکن جسٹس فیصل عرب بولے کے اے آر یو نے بظاہر صرف سہولت کاری کا کام کیا ہے۔

سماعت کے دوران منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ حکومت کہتی ہے کہ دھرنا کیس کے فیصلے پر ایکشن لینا ہوتا تو دونوں ججز کے خلاف لیتے لیکن حکومت صرف فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ لکھنے والے جج کو ہٹانا چاہتی ہے۔

منیراے ملک نے جواب الجواب میں کہا کہ ‏سپریم کورٹ نے پاکستان سے باہر گئے پیسے کو واپس لانے کے لیے کمیٹی بنائی تھی، مذکورہ کمیٹی نے تجویز کیا تھا کہ آمدن اور اثاثوں کے فارم میں کئی ابہام ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ الزام عائد کیا گیا کہ جسٹس عیسیٰ نے جان بوجھ کر جائیدادیں چھپائیں جبکہ عدالتی کمیٹی کہتی ہے کہ غیر ملکی اثاثے ظاہر کرنے سے متعلق قانون میں بھی ابہام ہے۔

جسٹس عیسیٰ کے وکیل کی بات پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ کا موقف تھا کہ ریفرنس سے پہلے جج کی اہلیہ سے دستاویز لی جائیں، گزشتہ روز کی سماعت کے بعد آپ کے مؤقف کو تقویت ملتی ہے۔

منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ کیا ہم ایسا قانون چاہتے ہیں کہ ایک ادارہ دوسرے کی جاسوسی کرے؟ جس پر جسٹس یحییٰ آفریدی کا کہنا تھا کہ جج کے بنیادی حقوق زیادہ اہم ہیں، یا ان کا لیا گیا حلف؟ اس پر منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ عدالت درخواست کو انفرادی شخص کے حقوق کی پٹیشن کے طور پر نہ لے۔

ساتھ ہی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک کا جواب الجواب پورا ہوگیا۔

جسٹس عیسیٰ کے وکیل کا جواب الجواب کے بعد سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل حامد خان نے دلائل دینا شروع کیے اور کہا کہ اسلام ہر مرد اور عورت کو جائیداد رکھنے کا حق دیتا ہے۔

اس موقع پر حامد خان نے قرآن پاک کی سورۃ النسا کا بھی حوالہ دیا۔

سماعت کے دوران سندھ بار کونسل کے وکیل رضا ربانی نے بھی دلائل دیے اور کہا کہ ‏قوائد میں جن ایجنسیوں کا ذکر ہے وہ پہلے سے قائم شدہ ہیں، جس پر جسٹس منصور علی شاہ بولے کے جتنی بھی ایجنسیاں موجود ہیں ان کو قانون کی سپورٹ بھی حاصل ہے، تاہم اس کے جواب میں رضا ربانی نے کہا کہ اے آر یو کو لامحدود اختیارات دیئے گئے۔

رضا ربانی کا کہنا تھا کہ نوٹیفیکیشن کے مطابق اے آر یو کو کابینہ کے فیصلے کا تحفظ حاصل ہے، ‏اے آر یو یونٹ کے لیے قانون سازی نہیں کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ تاثر دیا گیا کہ آے ار یو قانونی فورس ہے، حکومت کے مطابق وزیر اعظم ادارہ بنا سکتے ہیں تاہم وزیراعظم وزارت یا ڈویژن بنا سکتے ہیں۔

بعد ازاں بار کونسل کے وکلا کے بھی دلائل مکمل ہوگئے جس کے بعد عدالت میں کیس کی سماعت مکمل ہوگئی۔

ساتھ ہی سپریم کورٹ نے سماعت مکمل ہونے کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا، جس کا مختصر فیصلہ آج سہ پہر 4 بجے سنائے جانے کا امکان ہے۔

اس موقع پر جسٹس عمر عطا بندیال کی جانب سے یہ ریمارکس دیے گئے کہ یہ ہمارے لیے بڑا اہم معاملہ ہے، ہمیں سوچنے کا وقت دیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ بار کونسل اور بار ایسوسی ایشن کا عدلیہ پر مکمل اعتماد ہے، تاہم سوال یہ ہے کہ ریفرنس مکمل خارج کردیں؟

Exit mobile version