پاکستان

کورونا وائرس: متحدہ عرب امارات نے پاکستان سے مسافروں کی آمد پر پابندی کیوں لگائی؟

Share

گذشتہ روز متحدہ عرب امارات کی حکومت نے پاکستان سے آنے والی تمام پروازوں کے مسافروں کی اپنے ملک آمد پر تاحکم ثانی پابندی کا اعلان کیا۔ گذشتہ ایک ہفتے کے دوران خلیجی ممالک سے آنے والی ایئرلائنز کی جانب سے مختلف فیصلوں کے بیانات سامنے آتے رہے ہیں۔

قطر ایئرویز نے اپنی پروازوں پر پاکستان سے مسافر لیجانے کا سلسلہ بند کیا اور پھر کھول دیا، امارات اور فلائی دبئی کے جانب سے بھی یہی کنفیوژن نظر آ رہی ہے کہ پروازیں شروع کی جاتی ہیں اور پھر پتا چلتا ہے کہ مسافر آ رہے ہیں مگر جا نہیں رہے۔

اس ساری صورتحال میں پاکستانی حکومت اور سول ایوی ایشن کی جانب سے کسی قسم کا کوئی بیان سامنے نہیں آتا بلکہ یہ سارا معاملہ ہے گنجلک بنا دیا گیا ہے۔ پروازیں شروع کرنے یا نہ کرنے کے فیصلے اب بظاہر ایوی ایشن کی وزارت کی بجائے کہیں اور ہوتے ہیں۔ اور اس عمل سے گزرنے والے ایوی ایشن ڈویژن، وزارتِ خارجہ اور معید یوسف کے درمیان پھنس چکے ہیں۔ معید یوسف اس وقت وزیراعظم کے قومی سلامتی کے مشیر ہیں۔

گذشتہ روز متحدہ عرب امارات کی ہنگامی کرائسز اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے اعلان کیا تھا کہ متحدہ عرب امارات آنے والی تمام پروازوں کے مسافر لانے پر اس وقت تک پابندی عائد رہے گی جب تک پاکستان بیرونِ ملک جانے والے تمام مسافروں کے کورونا کے لیبارٹری ٹیسٹ کرنے کا نظام وضع نہیں کرتا۔

مگر حقیقت میں مسئلہ کورونا کے ٹیسٹ کا نہیں بلکہ کورونا کے مستند ٹیسٹ کا ہے جس پر ایئرلائن اعتبار کر سکے اور اس کی عدم موجودگی کی وجہ سے مسافروں کو شدید پریشانی اور غیر یقینی کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

نجی ایئرلائنز کے حکام اور ٹریونل ایجنٹس کا کہنا ہے کہ “جہاں حکومت نے پاکستان آنے والی پروازوں کے معاملات میں پہلے دن سے گومگو اور کنفیوژن کی پالیسی اختیار کیے رکھی وہیں اب لگتا ہے کہ اس سارے معاملے کو اللہ توکل پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ پہلے جلدبازی میں پروازیں بند کیں اور دنیا بھر میں ہزاروں لوگوں کو پھنسوا دیا پھر سب کچھ بغیر کسی نظام کے کھلو دیا۔ نظام سے مراد ہے ایس او پیز پر عملدرآمد کروانے کا نظام”۔

حالات یہاں تک پہنچے کہ 23 جون کو ایمرٹس کی دو پرازیں معمول کے مطابق لاہور اور اسلام آباد کے ہوائی اڈوں مسافروں کو لے کر جانے تیار تھیں۔ دبئی سے آنے والے مسافروں کو اتارنے کے دوران دبئی واپسی کے لیے مسافروں کا چیک ان جاری تھا۔ کچھ مسافروں کو بورڈنگ پاس جاری ہوچکے تھے اور سامان بک کر لیا گیا تھا۔ مگر پھر اچانک کیا ہوا کہ مسافروں سے کہا گیا کہ وہ سفر نہیں کر سکتے۔

مسافروں کو واپس بھجوایا گیا جہاں ان کا سامان ان کے حوالے کیا گیا اور انھیں چلتا کیا گیا۔ اب یہ انتہائی غیر معمول قدم تھا جس کے نتیجے میں مسافروں نے حیرت اور شدید غصے کا اظہار کیا گیا۔ یاد رہے کہ امارات ایئرلائن نے اسی دن اعلان کیا تھا کہ وہ پاکستان سے اپنی پروازیں بند کر رہی ہے مگر اس کے ساتھ یہ بھی اعلان کیا گیا کہ اس روز کی تین پروازیں معمول کے مطابق مسافروں کو پاکستان سے لے کر جائیں گی۔ یہاں تک کے کراچی سے جانے والی پرواز مسافر لے کر بھی گئی مگر لاہور اور اسلام آباد کی پروازوں کے مسافروں کو ہوائی اڈے پر بلا کر بےیقینی صورتحال میں رکھا گیا۔

اس ساری صورتحال کے پسِ منظر میں پاکستان سے باہر جانے والے وہ مسافر ہیں جن کے کورونا کے ٹیسٹ اپنی منزل پر پہنچے پر مثبت آئے تھے۔

پرواز

لاہور اور اسلام آباد کے ہوائی اڈوں پر مسافروں کے ساتھ ہونے والے اس سلوک کے تانے بانے سنیچر بیس جون کو ایمرٹس کے ایک پرواز پر چھبیس مسافروں کے کورونا کے ٹیسٹ مثبت آنے کے ساتھ جڑے ہیں۔ ایمرٹس کے پرواز ای کے 380 جب ہانک کانگ پہنچی اور اس کے مسافروں کے ٹیسٹ ہوئے۔ ہانک کانگ کے سینٹر فار ہیلتھ پروٹیکشن کے مطابق ملک میں کورونا کے نئے کیسز میں سے 29 کا تعلق پاکستان سے آنے والے مسافروں سے نکلا جس کی وجہ سے ملک کے کورونا کے کیسز میں ایک دم ریکارڈ اضافہ ہوا۔

اس سے قبل 30 مئی کو قطر ایئرویز کی ایک پرواز کے 83 مسافروں میں سے 16 کا کورونا کا ٹیسٹ مثبت آیا تھا۔ اسی طرح لاہور پاکستان سے 8 جون کو سفر کرنے والے ایک مسافر کا کورونا کا ٹیسٹ مثبت نکلا تھا جو آسٹریلیا کے راستے نیوزی لینڈ پہنچا تھا۔ 4 جون کو دوحہ سے ایتھنز پہنچنے والی قطر ایئرویز کی پرواز کے 12 مسافروں کا کورونا ٹیسٹ مثبت آیا تھا جن میں سے 9 پاکستانی مسافر تھے۔ جس کے نتیجے میں قطر ایئرویز نے پروازیں معطل کیں۔

اب اس ساری صورتحال سے ایک چیز نمایاں طور پر سامنے آ رہی ہے کہ پاکستان سے کورونا کے مسافر بغیر کسی چیک اور بیلنس کے روانہ ہو رہے ہیں۔ اس صورتحال پر نہ صرف حکومتِ پاکستان کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگتا ہے بلکہ یہ بھی تاثر ملتا ہے کہ اس معاملے پر حکومت اور خاص طور پر سول ایوی ایشن غیر سنجیدہ ہے۔

دوسری جانب سول ایوی ایشن کے حکام حکومتی غیر سنجیدگی اور بے جا مداخلت کا شکوہ کرتے نظر آتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ فیصلہ سازی میں بعض اوقات اس قدر کنفیوژن ہے کہ اس پر کیا کہا جائے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ حالات غیر معمولی ہیں اور ان میں صورتحال بعض اوقات لمحہ بہ لمحہ بدل رہی ہوتی ہے۔

اسی کی مثال ایمرٹس کی جانب سے بظاہر فلپ فلاپنگ یعنی گو مگو کی کیفیت ہے۔ جسے ہوابازی سمجھنے والے تو شاید سمجھ لیں مگر عام مسافر کے لیے یہ ایک گنجلک گتھی ہے جس کا انہیں کوئی سرا نہیں ملتا۔

یعنی کافی عرصے کے بعد ایمرٹس نے اعلان کیا کہ وہ پروازیں شروع کر رہی ہے۔ پھر تئیس جون کو اعلان کیا گیا کہ اس دن کی پروازیں جائیں گیں مگر اس کے بعد پروازیں مسافر لائیں گی لیجا نہیں سکیں گی۔ کراچی کی پرواز گئی لاہور اسلام آباد کے مسافر چیک ان کے دوران یا بعد میں واپس کر دیے گئے۔

اس کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی جس کے بعد کہا گیا کہ 30 جون سے مسافروں کو لیجانے کا سلسلہ شروع کیا جائے گا۔ اور پھر متحدہ عرب امارات کی حکومت کا بیان آ گیا کہ ٹیسٹوں کا نظام بننے تک ایسا نہیں ہو گا۔

میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اب تک آپ کا سر بھی گھوم چکا ہو گا۔ اس تحریر کو لکھنے کے دوران تین بار فیصلوں میں تبدیلی یا جزوی تبدیلی کی شنید ملی۔ تصور کریں بیچارہ مسافر کتنا کنفیوز ہو گا؟

پاکستان

کورونا کا مستند ٹیسٹ لازمی

گذشتہ روز متحدہ عرب امارات کی ہنگامی کرائسز اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے اعلان کے بعد یہ بات واضح ہونا شروع ہوئی کہ ایمرٹس اپنے ہی ٹیسٹ کے نظام پر کام کر رہی ہے۔

واضح رہے کہ متحدہ عرب امارات کی ایئرلائنز پاکستان میں مستند لیبارٹریوں کی تلاش میں ہیں جن کے ٹیسٹ کو مستند سمجھا جائے اور اس کی بنیاد پر ایئرلائنز اعتماد کے ساتھ مسافروں کو لیجا سکیں۔ اس سلسلے میں امارات کی باقی تین ایئرلائنز کیا کر رہی ہیں اس بارے میں ابھی کچھ واضح نہیں ہے مگر متحدہ عرب امارت کی سب سے بڑی ایئرلائن امارات نے پاکستان میں کورونا کے ٹیسٹ کرنے والی سب سے بڑے لیبارٹریوں میں سے ایک چغتائی لیب کے ساتھ معاہدہ کیا ہے۔

چغتائی لیب کی مارکیٹنگ اور سیلز کی سربراہ جویریہ خان نے بتایا کہ “اس معاہدے کے تحت ہر اس مسافر کو جو ایمرٹس پر سفر کر کے دبئی یا وہاں سے آگے جانا چاہتا ہے روانگی سے چھیانوے گھنٹے کے اندر اندر کورونا کا ٹیسٹ کروانا ہو گا۔ لیبارٹری ایسے تمام مسافروں کو جلد از جلد ٹیسٹ کے نتائج دینے کی کوشش کرے گی۔”

انھوں نے مزید بتایا کہ چغتائی لیب ملک کے مختلف شہروں میں اپنے وسیع نیٹ ورک، ڈرائیو تھرو ٹیسٹنگ پوائنٹس اور دوسرے ذرائع سے ٹیسٹ کی سہولت فراہم کرے رہی ہے۔”

ایمرٹس کے لیے کام کرنے والے ایک اہلکار نے بتایا کہ “مسافر اس نظام سے مختلف طریقوں سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ مگر سب سے مناسب طریقہ یہ ہے کہ مسافر ٹکٹ ریزرو کروانے کے فوری بعد ٹیسٹ کروائیں اور جیسے ہی نتیجہ ملے ٹکٹ کنفرم کروا لیں۔ اس طرح غیر یقینی کی صورتحال سے بچا جا سکے گا اور مسافر کا وقت اور پیسہ بچ سکے گا۔

اب متحدہ عرب امارات کی باقی تین ایئر لائنز اور پی آئی اے اور ایئر بلو کی جانب سے پروازوں کے بارے میں اپ ڈیٹ کا انتظار ہے کہ وہ کیا نظام ترتیب دیتی ہیں یا اسی نظام کو اپناتی ہیں۔

پی آئی اے کے دو سینیئر اہلکاروں نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ ” ہم سے توقع کی جا رہی ہے کہ ہم جیریز فیڈ ایکس کے ساتھ کسی نظام پر اتفاق کریں جو ویزوں کی طرز پر ٹیسٹس کا نظام مرتب کرے گی۔ یعنی اب ویزوں، اور دوسرے لوازامات کے لیے زلیل ہونے کے بعد مسافر ان ٹیسٹوں کے لیے زلیل ہوں گے اور پھر ٹکٹ حاصل کریں گے اور مزید نوٹ چھاپیں گے”۔

سول ایوی ایشن کے ایک اہلکار نے اس میں اضافہ کیا کہ توقع نہیں دباؤ ہے۔

جمبو

حل کیا ہونا چاہیے تھا؟

پاکستانی ہوابازی سے متعلقہ تین لوگوں سے جب میں نے پوچھا کہ اس ساری صورتحال کا کس طرح حل کیا جانا چاہیے تھا تو ان تینوں کا ایک بات پر اتفاق تھا کہ آپ اپنے ملک سے جانے والے مسافروں کا کچھ زیادہ نہیں کر سکتے۔

ایک نے سوال کیا کہ کیا ایمرٹس آپ کی جانب سے آپ کے ایس او پیز کا پاس رکھا جا رہا ہے؟ کیا ایمرٹس، قطر، فلائی دبئی یا کسی بھی ایئرلائن کی پروازوں پر سوشل ڈسٹنسنگ کا ہی خیال رکھا جا رہا ہے؟

اس بات کی تصدیق ہم نے ایئرپورٹس اور گراؤنڈ ہینڈلرز سے کی تو ہمیں معلوم ہوا کہ فلائی دبئی کی جمعرات کو اسلام آباد آنے والی پرواز پر بوئنگ 737 فل یعنی 189 مسافر آئے اور 40 واپس دبئی گئے۔ ایئر اریبیا کی پرواز پر213 مسافر آئے اور 171 واپس شارجہ گئے۔ اور ایمرٹس کی 16 جون کی پرواز پر 350 سے زیادہ مسافر آئے۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ سوشل ڈیسٹنسنگ یعنی فاصلے کے اصول کا بالکل خیال نہیں کیا گیا۔

مگر نجی ایئرلائن کے اہلکار نے شکوہ کیا کہ “ہم کسی اور کی کیا بات کریں یہ کام ہمارے کرنے کے تھے۔ ہم اپنے ایس او پیز پر عملدرآمد کرواتے مگر ہمارے ادارے خیلجی ایئرلائنز کے آگے چپ ہوتے ہیں، یہی ہماری پرواز پر سوشل ڈسٹنسگ نہ ہوتی تو کہرام مچا ہوتا مگر یہ ساری باتیں آپ تک پہنچی ہی نہیں ہوں گی”۔

پی آئی اے کے اہلکار نے کہا کہ “بالاخر ایک نیا نطام بنے گا اور ہمیں ٹیسٹ کروانے کے چکر میں دالا جائے گا، مسافر قیمت ادا کرے گا، اور سفر مزید مشکل اور مہنگا ہو گا۔ اور اگر ہم نہیں کریں گے تو ہم پھنس جائے گے۔ تو ہمارے پاس کوئی پسند ناپسند کی گنجائش بھی کم ہی ہے۔ اس لیے حکومت کچھ بھی کرتی برا ہم نے ہی بننا تھا۔ ہاں حکومت شاید اچھے طریقے سے اچھی یا بری بن سکتی تھی مگر یہ اچھے طریقے سے برے بھی نہیں بن سکتے۔”