پاکستانہفتہ بھر کی مقبول ترین

بجلی پیدا کرنے کے 27 سالہ منصوبے میں مقامی توانائی کے وسائل نظرانداز

Share

اسلام آباد: چاروں صوبوں، آزادکشمیر کے علاوہ سرکاری اور نجی شعبے کے اہم اسٹیک ہولڈرز نے مجوزہ 27 سالہ انٹیگریٹڈ پیداواری صلاحیت کی توسیعی منصوبے (آئی جی سی ای پی 2020-2047) میں خامیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حد سے زیادہ پر عزم، مقامی توانائی کے وسائل کو کمزور اور تھرمل پلانٹس کے فوائد سے مختلف پیداواری ٹیکنالوجیز کا موازنہ کرنے میں غلط مفروضے پیش کرتا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ عوامی اور نجی شعبے کے اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کو آئی جی سی ای پی کے خلاف جمع کرائی جانے والے تقریباً دو درجن اعتراضات کا خلاصہ ہے جسے وزارت توانائی کے پاور ڈویژن کے ایک کارپوریٹ ادارے نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی نے پیش کیا تھا۔

ڈان کی نظر سے گزرنے والے دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ اعتراض کرنے والوں کی اکثریت نے ہائیڈرو پاور منصوبوں کو مبینہ طور پر پیچھے دھکیلنے پر احتجاج کیا ہے مثال کے طور پر دیامر بھاشا توانائی منصوبے کو سال 29-2028 سے بڑھا کر 2043 تک پہنچا دیا گیا۔

دیگر نے توانائی کی طلب میں اضافے کی شرح اوسطاً 7 سے 8 فیصد رہنے کی پیش گوئی پر بھی سوال اٹھایا جس میں 2047 تک درکار پیداواری صلاحیت ایک لاکھ 30 ہزار میگاواٹ سے 2 لاکھ 20 ہزار میگاواٹ تک بتائی گئی۔‎

دوسری جانب حکومتی اداروں اور اس کے ترقیاتی شراکت داروں نے اوسط شرح نمو 3.8 فیصد سے زیادہ نہیں بتائی۔

چند ماہرین نے مزید جوہری بجلی گھروں کے قیام کی بھی مخالفت کی ہے کیونکہ اس کی اوسطاً لاگت 45 لاکھ ڈالر فی میگا واٹ تک ہوتی ہے جبکہ دیگر ٹیکنالوجیز میں یہ لاگت 5 لاکھ سے 10 لاکھ ڈالر فی میگا واٹ ہے۔

آزاد کشمیر کی حکومت نے منصوبہ بندی میں خامیوں کی نشاندہی کی۔

اس نے موقف اپنایا کہ آئی جی سی ای پی کے دعوے کم لاگت پر غور کرنے پر مبنی ہیں لیکن کم سے کم لاگت کے اختیارات کا جائزہ مساوی بنیاد پر نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پن بجلی کے سستی، قابل تجدید ہونے خاص کر ذیلی خدمات مثلاً فریکوئینسی کنٹرول، گرڈ اسٹیبلیٹی، انتہائی طلب کے دوران پیداواری آپشن اور تقریباً صفر پیداواری لاگت ہونے کی وجہ سے ہر جگہ ترجیحی طور ہائیڈرو پاور کے وسائل کا استعمال کیا گیا تاہم آئی جی سی ای پی نے اس پہلو کو نظرانداز کیا۔

آزاد کشمیر حکام نے نشاندہی کی کہ پن بجلی کی معاشی زندگی کو 30 سے 50 سال بتایا گیا جو اصل میں 100 سال ہے اور یہ 100 سال قبل تعمیر کردہ منصوبوں سے ثابت ہوا ہے جو اب بھی زیر استعمال ہیں۔

اس کے برعکس جوہری آپشن کو 70 سال کی زندگی دی گئی ہے۔

آزاد کشمیر کی حکومت نے لکھا کہ ‘اس تنازع کو درست کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس نے پن بجلی کی طویل کام کرنے والی زندگی کی اصل قدر کو نظرانداز کیا جبکہ اس عرصے کے دوران پیداواری لاگت صفر کے قریب ہے’۔

آزاد جموں و کشمیر اور خیبر پختونخوا دونوں نے مطالبہ کیا ہے کہ پن بجلی کے دیگر تمام آپشنز پر کام کیا جائے تاکہ وہ خدا کے دیے ہوئے اس قدرتی وسائل سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرسکیں۔

مہنگی پن بجلی؟

انہوں نے نشاندہی کی تھرمل توانائی کی زندگی اور ایندھن کی لاگت کو نظر انداز کرکے ہائیڈرو پاور کو غلط اور صرف تعمیراتی لاگت کی بنیاد پر مہنگا منصوبہ بتانے سے کئی اہم منصوبے 20 سال پیچھے چلے گئے ہیں جسے درست کرنے کی ضرورت ہے۔

کے پی حکومت کے مطابق اس نے نجی شعبے کے تعاون سے وفاقی اور صوبائی بجلی کی پالیسیوں کے تحت متعدد منصوبوں کے لیے فزیبلٹی اسٹڈیز کی تکمیل اور دیگر کاموں میں کافی وقت اور رقم کی سرمایہ کاری کی تھی لیکن آئی جی سی ای پی نے اس طرح کے منصوبوں کو نظرانداز کردیا تھا۔

کے پی نے کہا کہ آئی جی سی ای پی کو موجودہ تخمینوں کے بارے میں دوسرا اندازہ لگانے کے بجائے مستقبل کے منصوبوں کے بارے میں تخمینہ لگانا چاہیے۔

خیبر پختونخوا نے کوئلے کے پلانٹس پر طویل المدتی انحصار، 32 ہزار 967 میگاواٹ، پر بھی تنقید کی۔

اس نے کہا کہ مقامی ذرائع کی طرف رجوع کرنا قابل تحسین ہے لیکن تھر کوئلے کے معاملے میں دستیابی اور ذیلی ضرورتوں کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے۔