پاکستان

کورونا وائرس: تین جنگوں میں شرکت کے بعد کورونا کی جنگ جیتنے والے 98 سالہ شخص کی کہانی

Share

دوسری جنگِ عظیم میں برطانوی افواج، اور پھر 1965 اور 1971 کی جنگوں میں پاکستانی فوج کے لیے خدمات سر انجام دینے والے مولانا فضل رؤف نے ایک اور جنگ میں فتح حاصل کر لی، لیکن اس بار یہ جنگ ذاتی نوعیت کی تھی۔

صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع چارسدہ کے گاؤن ترنگزئی سے تعلق رکھنے والے مولانا فضل رؤف حال ہی میں کووڈ 19 کے مرض میں مبتلا ہو گئے تھے۔

ماہرین کی عمومی رائے کے مطابق عمر رسیدہ افراد میں کورونا وائرس کا مطلب ان کی زندگیوں کو شدید خطرہ ہو سکتا ہے لیکن مولانا رؤف اس مرض کو شکست دے کر صحتیاب ہو گئے ہیں۔

‘کچھ دن بخار تھا مگر کوئی تکلیف نہیں ہوئی’

مولانا فضل رؤف نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انھیں تو علم ہی نہیں کہ کورونا وائرس کیا ہے۔

‘کورونا کا مجھے کچھ نہیں پتا یہ کیا ہوتا ہے۔ میں بیمار ہوا، پھر ٹھیک ہوگیا۔ اب تو بہت اچھے سے نیند بھی آتی ہے اور کوئی مسئلہ بھی نہیں ہے۔’

مولانا فضل رؤف نے اپنی طبیعت کے بارے میں بی بی سی کو بتایا کہ اکثر اوقات انھیں سینے میں تکلیف کی شکایت ہوتی رہتی تھی۔

‘پچھلے مہینے بھی تھوڑی تکلیف ہوئی تو مجھے بچے راولپنڈی ہسپتال لے کر گئے جہاں میں دو، تین رہا اور بعد میں بچے مجھے اسلام آباد میں مقیم میرے پوتے کے گھر لے گئے۔’

مولانا فضل رؤف کا کہنا ہے کہ اس دوران انھوں نے مجھے الگ کمرے میں رکھا اور میری دیکھ بھال میرا ایک پوتا اور میرا بیٹا کرتے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ماسوائے چند دن بخار کے، انھیں باقی کوئی تکلیف نہیں ہوئی اور نہ ہی جسم میں کسی قسم کا درد ہوا۔

مولانا فضل رؤف کے بیٹے جان شیر کے مطابق ان کے والد کی بیماری سے پہلے خاندان میں کچھ لوگوں کو کورونا ہوا تھا۔

‘جب انھیں بخار ہونا شروع ہوا تو ان کو ہم لوگ فوراسی ایم ایچ راولپنڈی لے گے جہاں پر ان کا کورونا ٹیسٹ پازیٹو آیا۔ ہم نے ہسپتال والوں سے گزارش کی کہ ان کو گھر ہی میں رکھنے کی اجازت دی جائے تاکہ ہم لوگ اچھے سے ان کا خیال رکھ سکیں۔’

جان شیر کے مطابق انھوں نے اپنے والد کو گھر پر رکھا اور خود ان کی تیمار داری کی۔

‘اس دوران ان کو کچھ دن بخار تو رہا مگر اس کے علاوہ کوئی اور تکلیف نہیں ہوئی تھی۔ مقررہ وقت گزرنے کے بعد ہم نے ان کے دو اور ٹیسٹ کرائے جو کہ منفی آئے۔ ان کے صحتیاب ہونے کے بعد پھر ہم ان کو واپس چارسدہ لے گئے۔’

پاکستان

‘دو ملکوں کے لیے تین جنگوں میں شرکت’

مولانا فضل رؤف کے دستیاب شناختی کارڈ پر ان کی تاریخ پیدائش 1922 درج ہے۔

مولانا فضل رؤف کے مطابق اُس دور میں عمر اور تاریخ پیدائش کا حساب رکھنے کا طریقہ ماضی میں آج کے مقابلے میں مختلف تھا۔

‘یہی وجہ ہے کہ جب میری تاریخ پیدائش 1922 لکھی گئی تو میں نے بھی بعد میں درست نہیں کروائی۔’

مولانا فضل رؤف کہتے ہیں کہ وہ پاکستان فوج سے 1968 میں ریٹائر ہوئے تھے تاہم 1971 کی جنگ میں ان کو دوبارہ طلب کیا گیا تھا۔

مولانا فضل رؤف کے مطابق 1942 میں وہ برطانوی فوج کی الیکڑیکل اینڈ میکینکل انجیرئنگ کور (ای ایم ای) میں بھرتی ہوئے تھے۔ آگرہ میں دو سال کی تربیت حاصل کی اور اس کے بعد دوسری جنگ عظیم میں خدمات انجام دیتے رہے تھے۔

دوسری جنگ عظیم میں شرکت کے میڈل انھوں نے ابھی بھی سنبھال کر رکھے ہوئے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ وہ برطانوی فوج میں خدمات کے دوران جموں اور کشمیر کے علاقے میں وقت گزارنے کے ساتھ میرٹھ میں بھی رہے تھے۔

جب برصغیر کی تقسیم ہوئی تو چارسدہ اور صوبہ خیبرپختونخواہ پاکستان میں شامل ہوگیا تھا۔ جس بنا پر ان کی شمولیت پاکستان فوج میں ہو گئی۔

‘زندگی میں ہمشیہ خالص خوراک اور چلنے کو معمول بنا لیا تھا’

مولانا فضل رؤف سے جب بات چیت چل رہی تھی تو محسوس ہوا کہ انھیں ظاہری طور پر کوئی کمزوری محسوس نہیں ہورہی تھی۔ وہ گفتگو کے دوران کچھ چیزوں اور جگہوں کے نام وغیرہ بھول رہے تھے مگر لگتا تھا کہ یاداشت پر کچھ زیادہ فرق نہیں پڑا تھا۔

مولانا فضل روف کا کہنا تھا کہ فوج میں تو زندگی ویسے ہی سخت ہوتی ہے مگر انھوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ویسا ہی معمول رکھا ہے۔

‘ریٹائرمنٹ کے بعد بھی میں نے سادہ زندگی اور سخت گزاری ہے۔ صبح سویرے اٹھا جایا کرتا تھا۔ نماز جماعت کے ساتھ پڑھاتا تھا۔ جس کے بعد واک کرتا تھا۔ کبھی کوئی فضول قسم کی ٹینشن نہیں پالی۔’

انھوں نے بتایا کہ پانچ سال پہلے تک وہ اپنی زمینوں کی نگرانی بھی خود کیا کرتے تھے۔

پاکستان

مولانا فضل رؤف کا کہنا تھا کہ انھوں نے ہمیشہ گھر کا سادہ اور خالص کھانا کھایا ہے اور کبھی بھی یہ خواہش نہیں کی کہ باہر اور ہوٹلوں سے کھانا کھائیں۔

مولانا فضل رؤف کے پوتے محسن خان کا کہنا تھا کہ ہمارے بابا جی ہیشہ کھانے میں دیسی گھی استعمال کرتے تھے۔

‘چند سال قبل ان کو سینے میں تکلیف ہوئی تو وہ ہم نے بند کروا دیا تھا۔ مجھے نہیں یاد کے کبھی انھوں نے گھر سے باہر کا کھانا کھایا ہو۔’

مولانا فضل کے پوتے کے مطابق چار سال پہلے ان کو ٹانگ میں فریکچر ہوا تھا جس کے بعد وہ زیادہ چلتے پھرتے نہیں ہیں ورنہ ان کو ہمشیہ متحرک ہی دیکھا تھا۔