پاکستان

نیب کو موصول ہونے والا ایک ارب پچانوے کروڑ کا پے آرڈر: ’کامیاب اور ناکام‘ کیسوں کی ایک داستان

Share

چند روز قبل پاکستان میں انسدادِ بدعنوانی کے ادارے قومی احتساب بیورو (نیب) کے اعلی حکام اس وقت خوشی سے جھوم اٹھے جب لگ بھگ دو ارب روپے کی خطیر رقم کا ایک پے آرڈر ادارے کو موصول ہوا۔

یہ پے آرڈر ماضی کی مشہور پاکستانی فلم سٹار انجمن کے شوہر لکی علی کی جانب سے نیب کو بھیجا گیا تھا۔

یہ رقم پلی بارگین کے ذریعے حاصل ہوئی تھی اور نیب کے حکام نے اسے ادارے کی ایک ’بڑی کامیابی‘ قرار دے رہے ہیں۔

لکی علی نے اتنی بڑی رقم نیب کو کیوں دی اور یہ پیسہ انھوں نے کہاں سے کمایا تھا یہ تو ہم آپ کو آگے چل کر بتائیں گے تاہم نیب کا کہنا ہے کہ یہ خطیر رقم ان متاثرین میں جلد تقسیم کر دی جائے گی جن سے رہائشی پلاٹس کے عوض یہ پیسے مبینہ طور پر وصول کیے گئے تھے۔

ادارے کے افسران اس لیے بھی زیادہ خوش ہیں کیونکہ نیب کے میگا کرپشن ریفرنسز کی ایک طویل فہرست ہے جس میں ملک کے بڑے بڑے سیاستدان، نجی رہائشی سکیموں کے مالک، تاجروں اور سرکاری افسران کے نام شامل ہیں، مگر ان میں سے بیشتر سے کئی سال گزرنے کے باوجود کچھ خاص حاصل وصول نہیں ہو رہا ہے۔

اس وقت نیب کے کل 1226 ریفرنسز 21 مخلتف عدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں۔ خیال رہے کہ نیب کی پانچ عدالتیں غیر فعال ہیں یعنی وہاں ججز کی تعیناتی نہیں کی جا سکی ہے۔

اسی صورتحال کو دیکھ کر رواں ہفتے سپریم کورٹ نے نیب کو 120 نئی عدالتیں قائم کرنے اور تمام ریفرنسز کو تین ماہ کے عرصے میں نمٹانے کا حکم دیا ہے۔

اب ایک نظر ان دو مقدمات پر جو نیب نے منطقی انجام تک پہنچائے ہیں۔ان میں سے ایک مقدمے کو نیب حکام سب سے کامیاب جبکہ دوسرے کو ابھی تک کا ‘بدترین’ مقدمہ قرار دیتے ہیں۔

نیب کا ’کامیاب‘ مقدمہ

نیب لوگو

لکی علی کی جانب سے موصول ہونے والی ایک ارب 95 کروڑ کی خطیر رقم پلی بارگین کے ذریعے حاصل ہوئی ہے، یعنی طویل قانونی جنگ لڑنے سے پہلے ہی مبینہ ملزم اور نیب میں صلح یا ڈیل ہو گئی۔

نیب آرڈیننس کے مطابق جب کوئی ملزم مبینہ طور پر لوٹی گئی رقم کا ایک خاص حصہ نیب کو واپس کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے تو پھر اُس کے خلاف مقدمہ ختم کر دیا جاتا ہے۔

نیب قوانین پرمہارت رکھنے والے وکیل بیرسٹر امجد پرویز کہتے ہیں کہ اس طرح کی عدالتی ڈیل سے حاصل ہونے والی رقم کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہوتا کہ پلی بارگین کرنے والا قصور وار بھی ہو۔

ان کے مطابق کاروباری حضرات کی جانب سے بعض دفعہ نیب کے ساتھ ایسی ڈیل کرنے کا مقصد طویل قانونی جنگ سے بچنا اور اپنے وسائل بچانا بھی ہوتا ہے۔

نیب قوانین کے مطابق پلی بارگین کا مرحلہ عدالتی منظوری کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔

’جج کے سامنے طے پانے والی ڈیل‘

چند ہفتے قبل نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کے نام پر فراڈ کے مقدمے میں لکی علی کی پلی بارگین کی درخواست ڈی جی نیب راولپنڈی عرفان نعیم منگی کی طرف سے اسلام آباد کی ایک احتساب عدالت میں پیش کی گئی تھی۔

اس درخواست کی باقاعدہ منظوری جج محمد بشیر نے دی۔

عدالتی منظوری کے بعد لکی علی ایک ارب 95 کروڑ کی ڈیل کر کے جیل جانے کے بجائے خاموشی سے گھر چلے گئے۔

تاہم ڈیل کے مطابق اگر میاں وسیم احمد عرف لکی علی کا اس مقدمے سے جڑا مستقبل میں کوئی اور معاملہ سامنے آیا تو اس پر الگ سے کارروائی ہو گی، ایسے کسی معاملے کو اس ڈیل کے تحت استثنیٰ حاصل نہیں ہو گا۔

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ احتساب عدالتوں میں طے پانی والی پلی بارگین کے عمل کو اعلیٰ عدالتوں میں زیادہ پذیرائی نہیں مل پاتی۔ دو سال قبل ایک بار تو سپریم کورٹ نے پلی بارگین کرنے پر نیب کی سخت سرزنش بھی کی تھی۔

تاہم نیب کو ریکوری کی حد تک جو بھی بڑی کامیابی ملی وہ ملزمان سے ڈیل کی صورت ہی ملی ہے۔

لکی علی کو کن الزامات کا سامنا تھا؟

نیب
میگا کرپشن ریفرنسز کی ایک طویل فہرست ہے جس میں ملک کے بڑے بڑے سیاستدان، نجی رہائشی سکیموں کے مالک، تاجروں اور سرکاری افسران کے نام شامل ہیں

نیب کی عدالت میں جمع کرائی گئی دستاویزات کے مطابق ملزم لکی علی نے جعلی ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں پلاٹس دینے کے نام پر نو ہزار لوگوں سے فراڈ کیا تھا۔

نیب کی تحقیقات کے مطابق لکی علی گیارہ مختلف ناموں سے ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی تشہیر کرتے رہے اور سادہ لوح عوام سے پیسے بٹورتے رہے۔

نیب حکام کے مطابق راولپنڈی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ریکارڑ میں لکی علی کی ایک بھی ہاؤسنگ سوسائٹی رجسٹرڈ نہیں ہے۔

اس ڈیل کے باوجود نیب کو ابھی منزل کی تلاش ہے۔

’مدعی سست گواہ چست‘

نیب نے اس مقدمے میں خوب پھرتی دکھائی اور بہت کم وقت میں بڑی رقم برآمد کرا لی۔ مگر اب بڑا چیلنج یہ بن گیا ہے کہ جو رقم نیب نے پلی بارگین کے زریعے ریکور کی ہے اس کے تمام مدعی یا دعوے دار دستیاب نہیں ہیں۔

اس مقدمے کی پیروی کرنے والے نیب کے ایک تفتیشی افسر نے بی بی سی کو بتایا کہ اس وقت نیب کے پاس تقریباً دو ارب روپے تو آ گئے ہیں مگر اس رقم کے دعویداروں کی تعداد بہت کم بنتی ہے۔

ان کے مطابق نیب اس رقم کو نہ تو اپنے خزانے اور نہ ہی قومی خزانے میں جمع کرا سکتی ہے۔

نیب اب مزید دعویداروں کے انتظار میں ہے اور خود ایسے افراد سے رابطے بھی کیے جا رہے ہیں جو ممکنہ طور پر اس مقدمے کے مدعی ہو سکتے ہیں۔

نیب کے تفتیش کاروں کو دوران تفتیش یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ لکی علی تنہا یہ کام نہیں کر رہے تھے بلکہ اس کے ساتھ راولپنڈی اور اسلام آباد میں کام کرنے والی بڑی ہاؤسنگ سوسائٹیاں بھی شامل تھیں، جن تک نیب کی تفتیش کا دائرہ کار نہیں بڑھایا جا سکا ہے۔

ذرائع کے مطابق ان بڑی سوسائٹیوں نے لکی علی کے خلاف مقدمات کے اندراج کے بعد زمین پہلے ہی اپنے قبضے میں لے لی ہے۔ تاہم نیب نے اپنی ڈیل کو صرف لکی علی کی حد تک محدود رکھا۔

نیب دیگر ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے خلاف کب اور کیسے کارروائی کرے گا، عدالت کے سامنے طے پانے والی ڈیل میں اس کی وضاحت نہیں دی گئی ہے۔

اس ڈیل پر ڈی نیب عرفان منگی کے دستخط ثبت ہیں۔ راولپنڈی میں ان کے دفتر میں میڈیا ونگ کے اہلکاروں سے جب ان کا موقف لینے کے لیے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے نیب ترجمان سے رابطہ کرنے کو کہا۔

نیب ترجمان نوازش علی عاصم سے جب اس حوالے سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے پوچھے گئے کسی سوال پر بھی نیب کا مؤقف نہیں دیا۔

نیب کو حاصل ہونے والی اس کامیابی کے باوجود یہ سوال اپنی جگہ پر ہے کہ نیب قانونی جنگ کے ذریعے کیوں ملزمان کو سزا دلوانے اور ان سے پیسے ریکور کرانے میں کامیاب نہیں ہو پاتا۔

نیب عدالتوں کا سامنا کرنے سے کیوں گھبراتا ہے؟

نیب کے ایک سینیئر افسر نے بی بی سی کو بتایا کہ ایسے مقدمات میں عدالت میں ملزم کے خلاف ذاتی فائدے کے لیے بدنیتی، فراڈ اور عوامی اعتماد کو مجروح کرنے جیسے عوامل کو بھی ثابت کرنا ہوتا ہے۔

انھوں نے اس حوالے سے گذشتہ سال اسلامی سرمایہ کاری سے متعلق مضاربہ سکینڈل میں سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کا ذکر کیا، جس میں نیب کے لیے ایسے مقدمات کی تحقیقات کرنے کے لیے کچھ اصول وضع کر دیے گئے ہیں۔

نیب حکام کے مطابق مضاربہ مقدمے میں بھی درجنوں ریفرنسز دائر کیے گئے، ان مقدمات میں درجنوں ملزمان گرفتار ہوئے اور کئی سو کروڑ کی ریکوری بھی ہوئی مگر اس کے باوجود جب ایک ملزم حشمت اللہ ضمانت لینے سپریم کورٹ پہنچے تو اس وقت کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے نہ صرف ان کی درخواست ضمانت منظور کی بلکہ فیصلے میں یہ بھی لکھا کہ نیب اس مقدمے میں بد دیانتی اور فراڈ ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے۔

اس فیصلے کے مطابق نیب یہ ثابت کرنے میں بھی ناکام رہا کہ ملزم نے سرمایہ کاروں کی رقم ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کی۔ عدالت کے مطابق اگر تحریری معاہدوں کی خلاف ورزی ہو تو پھر اس کے لیے متعلقہ فورمز موجود ہیں یعنی نیب ایسے لین دین کے مقدمات میں ٹانگ نہیں اڑا سکتا۔

لکی علی سے جڑے مقدمے میں نیب حکام کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ میں یہ سب ثابت کرنے کے لیے زیادہ وسائل اور مہارت درکار ہوتی ہے لہٰذا نیب کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ ملزم سے ہی تسلیم کرا لے کہ اس نے پیسے دینے ہیں۔

نیب کی ناکامی کی کہانی: وہ مقدمہ جس میں خود نیب سزا بھگت رہا ہے

بحریہ ٹاون

یہ معاملہ ملک کے دو مشہور رہائشی منصوبوں کا ہے۔

ایک طرف ملک کے طاقتور محکمے فوج کی ہاؤسنگ سوسائٹی ڈی ایچ اے ہے اور دوسری طرف نجی ہاؤسنگ سوسائٹی بحریہ ٹاؤن۔

ان دونوں میں سے کس کا اثر و رسوخ زیادہ ہے اس کا فیصلہ کچھ ہی دنوں میں خود نیب نے کرنا تھا۔

نیب حکام کے مطابق ڈی ایچ اے اور بحریہ ٹاؤن کے درمیان اربوں روپے کی زمین کے تنازع کی تحقیقات اینٹی کرپشن اسٹیبلیشمنٹ راولپنڈی کر رہا تھا لیکن نیب نے ایک ‘درخواست’ جو کہ بعد میں ‘جعلی’ ثابت ہوئی کو بنیاد بنا کر اس کیس کی خود تحقیقات کرنے کا فیصلہ کیا۔

یوں بحریہ ٹاؤن اور ڈی ایچ اے کے درمیان تنازعے میں خود نیب ایک فریق بن گیا۔

نیب نے نہ صرف اُس ’جعلی درخواست‘ کی بنیاد پر ڈی ایچ اے کے ایک رئیل سٹیٹ ایجنٹ خالد رشید کے خلاف مقدمہ بنایا بلکہ بحریہ ٹاؤن کے خلاف تحقیقات کرنے والے اینٹی کرپشن کے محکمے کے افسر محمد اعظم کو بھی اس مقدمے میں ملزم بنا دیا۔

بحریہ ٹاؤن کا خالد رشید سے ڈی ایچ اے کے لیے راولپنڈی کے نواحی علاقے میں زمین خریدنے پر تنازعہ ہوا تھا۔

اینٹی کرپشن کے محکمے کی سنہ 2011 کی تحقیقات کے مطابق ریونیو ڈیپارٹمنٹ کے کچھ اہلکار اس مقدمے میں بحریہ ٹاؤن کو فائدہ پہنچا رہے ہیں۔

تحقیقات میں ان اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی سفارش بھی کی گئی۔

نیب نے اس معاملے کی تحقیق پیٹرو ٹریڈ ہاؤسنگ کمپنی کے ایک ملازم باقر رضا کی اس ‘درخواست’ کے بعد اپنے ہاتھ لی جس میں درخواست گزار نے ریئل سٹیٹ ایجنٹ خالد رشید پر چند الزامات عائد کیے۔ باقر رضا کی اس درخواست کو بنیاد بنا کر نیب کے اس وقت کے ڈی جی راولپنڈی خورشید انور بھنڈر نے اس مقدمے کو اینٹی کرپشن سے لے کر نیب تفتیشی افسر شفیق مرزا کو اس کی تفتیش سونپ دی۔

اس مقدمے کی تفصیلات کے مطابق نیب تفتیشی افسر شفیق مرزا نے خالد رشید کے ساتھ ساتھ اینٹی کرپشن کے ایک افسر محمد اعظم کو بھی اس مقدمے میں ملزم قرار دیا۔

نیب تفتیش کی روشنی میں احتساب بیورو نے ان دونوں ملزمان کے خلاف سنہ 2012 میں احتساب عدالت میں ریفرنس بھی دائر کر دیا۔

خیال رہے کہ اس مقدمے کی نیب کو منتقلی سے پہلے اینٹی کرپشن کے تفتیشی افسر محمد اعظم تفتیش کر رہے تھے، جنھوں نے ریونیو کے اہلکاروں کو بحریہ ٹاؤن کو فائدہ پہنچانے کا مرتکب قرار دیا تھا۔

اس مقدے میں خالد رشید اور محمد اعظم سنہ 2015 میں بری ہو گئے۔

ملزم بری ہوئے تو خود نیب ملزم بن گئی

بحریہ ٹاؤن کراچی

نیب کی دو دہائیوں سے زائد کی تاریخ میں شاید یہ پہلا موقع تھا کہ کوئی ملزم بری ہونے کے بعد غلط مقدمہ بنانے کی پاداش میں نیب کو ملزم بنانے میں کامیاب ہوا ہو۔

عدالتی ریکارڈ کے مطابق خالد رشید اور محمد اعظم نے اپنی بریت کے بعد سپریم کورٹ سے رجوع کیا اور سارا ماجرا عدالت عظمیٰ کے سامنے پیش کیا۔ اس وقت کے چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے حقائق پرکھے تو نیب کوغلط مقدمہ بنانے والوں کے خلاف کارروائی کا حکم دیا۔

نیب نے بحریہ ٹاؤن یا ڈی ایچ اے کے خلاف کوئی کارروائی کی یا نہیں مگر اس مقدمے میں ملوث اپنے تین افسران کے خلاف ریفرنس بنا کر انھیں جیل ضرور پہنچا دیا۔

’نیب نے جعلی درخواست پر کارروائی کی‘

نیب نے باقر رضا کی جس درخواست کو بنیاد بنا کر انکوائری اینٹی کرپشن سے اپنے آپ کو منتقل کی تھی وہ درحقیقت ‘جعلی’ ثابت ہوئی کیونکہ درخواست گزار (باقر رضا) نے اس درخواست کو سرے سے تسلیم کرنے سے ہی انکار کر دیا۔

باقر رضا نے چیئرمین نیب کو لکھے گئے اپنے ایک خط میں بتایا کہ جس درخواست کو ان کے نام سے منسوب کیا جا رہا ہے وہ ان کی کمپنی نے بحریہ ٹاؤن کے ساتھ مل کر تیار کی تھی۔

باقر رضا کاظمی کے مطابق وہ پیٹروٹریڈ کمپنی میں کیشیئر کے طور پر کام کرتے تھے۔

یہ سارا ماجرا جب اس وقت کے چیف جسٹس جواد ایس خواجہ تک پہنچا انھوں نے پیٹروٹریڈ اور بحریہ ٹاؤن کے خلاف بھی کارروائی کا حکم دیا۔

نیب نے سنہ 2016 میں اپنے تینوں افسران کو ایس او پیز کی خلاف ورزی پر بدعنوانی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کا ریفرنس بنا دیا مگر جن ہاؤسنگ سوسائٹیوں کا یہ جھگڑا تھا وہ اب بھی بلا خوف و خطر اپنا کاروبار آگے بڑھا رہی ہیں۔

چند ہفتے قبل اسلام آباد کی ایک عدالت نے مقدمے میں نامزد تینوں نیب افسران کی درخواست ضمانت مسترد کر دی جس کا مطلب یہ ہے کہ نیب کے یہ افسران سزا پوری ہونے تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہی رہیں گے۔

اس کیس کے حوالے سے بھی نیب کے متعدد متعلقہ افسران اور ترجمان کو سوالات بھجوائے گئے اور رابطے کی کوشش کی گئی تاہم کوئی جواب موصول نہ ہوا۔