سائنسہفتہ بھر کی مقبول ترین

’شہروں میں زیرِ زمین کھیتوں کا رواج، خوراک کی کمی کا حل ہے‘

Share

سپر مارکیٹوں کے خالی شیلف اب ہم جیسے بہت سے لوگوں کے لیے معمول کی بات بن چکے ہیں۔ اور جب سپر مارکیٹوں میں شیلف دوبارہ بھر بھی جائیں تو ان سٹورز میں داخل ہونے کے لیے گاہکوں کی لمبی لمبی قطاریں نظر آتی ہیں۔

ہمیں بار بار بتایا جاتا ہے کہ خوراک کی کمی نہیں ہے لیکن اصل مسئلہ اس خوراک کو لوگوں تک پہنچانا ہے۔

کورونا کی وبا کے باعث لوگوں کی نقل و حرکت پر پابندی کی وجہ سے مزدور کھیتوں تک پہنچ نہیں پا رہے، چیزوں کو درآمد کرنے پر پابندیاں عائد ہیں جس کی وجہ سے ہول سیل (تھوک) کا کاروبار بری طرح متاثر ہوا ہے جس کی وجہ خوراک کی پیداوار آہستہ آہستہ کم ہورہی ہے، خواہ یہ عارضی ہی کیوں نہ ہو۔

لیکن کیا خوراک کی پیدوار کے لیے ہمارے پاس اس سے بہتر کوئی ذریعہ ہے؟

خوراک کی سپلائی لائن کے فاصلے کو کم کرنے کے لیے ہمیں خوراک کو صارفین کے قریب ہی اگانے کی ضروت ہے۔ کئی بڑے شہروں کے مرکزی علاقوں میں بہت سی ایسی جگہیں موجود ہیں جنھیں استعمال میں لا کر شہریوں کو خوراک کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔

مثال کے طور پر امریکہ، شمالی یورپ اور کینیڈا میں سردیوں اور موسم بہار میں تمام تازہ سزیاں اور پھل باہر سے درآمد کیے جاتے ہیں کیونکہ صارفین سارا سال تازہ سبزیوں اور پھلوں تک رسائی چاہتے ہیں۔

خوراک کو صارفین کے نزدیک ہی اگانے کی باتیں کہنے کو اچھی لگتی ہیں لیکن ایسا ممکن بنانے کے لیے بہت ساری آراضی کی ضرورت ہے۔

جدید سائنسی آلات کی مدد سے صنعتی پیمانے پر کاشتکاری نے خوراک کی قیمتوں میں کمی کی ہے اور لوگوں کی خوراک تک با آسانی رسائی ممکن ہو پائی ہے۔

لیکن ایسے بڑے فارمز بنانے کے لیے بڑی زمینوں اور بڑی مشینوں کی ضرورت ہوتی ہے جو صارفین کے قریب ممکن نہیں ہے۔

زیر زمین زرعی فارمز
پیرس میں انڈرگراؤنڈ پارکنگ کی خالی جگہیں زرعی فارمز میں بدل رہی ہیں

اگر ہم چاہتے ہیں ہم خوراک کو شہروں کے قریب پیدا کریں جہاں زیادہ صارفین موجود ہیں تو پھر ہمیں شہروں میں خوراک اگانے کے لیے زمین تلاش کرنا ہو گی۔

اس کا ایک حل یہ ہے کہ ہم سزیوں اور پھل کو جدید ٹیکنالوجی سے لیس انڈور فارمز میں پیدا کریں جیسے جاپان اور سکاٹ لینڈ میں ہو رہا ہے۔

لیکن شہروں میں پہلے ہی ضرورت سے زیادہ عمارتیں تعمیر ہو چکی ہیں اور وہاں خوراک کی پیداوار کی جدید فیکٹری لگانے کے لیے جگہ ڈھونڈنا آسان نہیں۔ اگر ہم شہروں میں جگہیں ڈھونڈیں تو بہت سے جگہیں مل جائیں گیں۔

مثال کے طور پر فرانس کے دارالحکومت پیرس میں زیر زمین 600 ہیکٹر خالی جگہ موجود ہے جس کا کوئی تصرف نہیں ہے۔

یہ زیر زمین پارکنگ کی جگہیں ہیں۔ ستر کی دہائی میں فرانس میں یہ لازمی تھا کہ ہر فلیٹ کے پاس دو گاڑیاں پارک کرنے کی جگہیں ہونی چاہیں۔

سائیکلوپونک نامی کمپنی کے چیف ایگزیکٹو یاں نویل گرٹز کا کہنا ہے کہ انڈرگراؤنڈ پارکنگ کی یہ جگہیں خالی پڑی ہیں۔ 700 ہیکڑ خالی جہگوں کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ امریکہ میں ایک فارم اوسطً 170 ہیکٹر یعنی 420 ایکڑوں پر مشتمل ہوتا ہے۔

گرٹز کہتے ہیں کہ لوگوں کو یہ سمجھانا مشکل ہے کہ ان خالی جگہوں کو پارکنگ کےعلاوہ بھی کسی اور مقصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

لیکن گرٹز ان خالی جگہوں کو استعمال میں لانے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ وہ زیر زمین کار پارکوں کو زرعی فارمز میں بدل دیں اور وہاں مشروم اور کاسنی کی کاشت کریں۔

یہ دونوں فصلیں باآسانی زیر زمین اگائی جا سکتی ہیں۔

لیکن گرٹز بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ 700 ہیکٹر (1720 ایکٹر) صرف مشروم اور کاسنی کی کاشت کے لیے زیادہ ہے۔

لیکن سائیکلوپونک کا خیال خوراک کی پیداوار کے نئے منصوبوں سے متعلق ہے۔ ‘ہم نے ایک این جی او کو جگہ دی ہے جو روزانہ چار ہزار لوگوں کو ہسپتالوں میں کھانا مہیا کراتے ہیں۔ اسی طرح ایک اور کمپنی زیر زمین فارم سے روزانہ 500 سے 1000 خوراک کے پیکٹ پیرس میں لوگوں کو بہم پہنچا رہے ہیں۔

ہمارے پاس خوراک کو منزل تک پہنچانے اور کولڈ سٹوریج کی سہولتیں ہیں اور کھانے کا نیا کاروبار شروع کرنے کے لیے انھی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہیں۔

گرٹز زیر زمین چھوٹے چھوٹے کچن تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔’آخر کار شاید کچھ خوراک زیر زمین ہی اگائی جائی، وہیں اسے تیار کر کے اسے پکا کر پیرس کے وسط سے صارفین تک پہنچایا جائے۔’

گرٹز کہتے ہیں کہ سب سے مشکل کام فائر ڈیپارٹمنٹ سے زیر زمین کاروبار شروع کرنے کی اجازت حاصل کرنا تھی لیکن اب آہستہ آہستہ شہروں میں فارمنگ کے حوالے سے رائےتبدیل ہو رہی ہے۔

لندن میں زیر زمیں سرنگ
لندن میں دوسری جنگ عظیم کے دوران شہریوں کے تحفظ کے لیے تعمیر ہونے والے بنکر میں اب سبزیاں اگائی جا رہی ہیں

کچھ شہری کاشتکار جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے خوراک پیدا کرنے کے نت نئے طریقے ڈھونڈ رہے ہیں۔ سکوائر روٹس شپنگ کنٹینروں میں تبدیلیاں کر کے ان میں زرعی فارمز بنا رہے ہیں۔

سکوائر روٹس کے چیف ایگزیکٹو ٹوبیاز پیگز کہتے ہیں:’ساری دنیا میں لوگ خوراک چاہتے ہیں لیکن اسے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا اصل مسئلہ ہے۔’

کیوں نہ خوراک کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کی بجائے وہاں کے ڈیٹا کو منتقل کیا جائے۔’ مثال کے طور جینوا میں جس درجہ حرارت اور ماحول میں بیزل پیدا ہوتی ہے، ان معلومات کو پیرس منتقل کر کے اسے پیرس میں اگا لیا جائے۔’

سکوائر روٹس جینوا میں ہوا میں نمی کے تناسب، روشنی، گرمی ،زمین اور غذائیت کی معلومات کو اکٹھا کر کے پیرس میں ایسا ہی مصنوعی ماحول تیار کرکے وہی بیزل پیدا کر رہی ہیں۔

سکوائر روٹس تین برسوں میں جڑی بوٹیوں اور پتوں کو اگانے سے آگے بڑھ کر اب شلجم، بینگن، سٹرا بیری، اور ٹماٹر بھی پیدا کر رہے ہیں۔ سکوائر روٹس نے کنٹینروں میں پیدا ہونے والی ہیبانیروس مرچیں کھانے کے ایک مقابلے کا بھی اہتمام کیا ہے۔ ہیبانیروس کا شمار کڑی ترین مرچوں کی اقسام میں ہوتا ہے۔

یہ سوال کہ آپ کیا اور کہاں کاشت کر سکتے ہیں، یہ ایک معاشی معاملہ ہے۔ پودے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں اور شمسی توانائی کو بائیو ماس میں تبدیل کرتے ہیں۔ سبزی جتنی بھاری ہو گی اس میں اتنا ہی زیادہ بائیو ماس ہو گا، لہذا آپ کو زیادہ توانائی کی ضرورت ہو گی جس سے اخراجات میں اضافہ ہو گا۔

لیکن جڑی بوٹیاں جن میں پودینا، بیزل، ہرے پیاز اور پتی دار سبزیوں میں بائیو ماس کی مقدار کم ہوتی ہے۔ پیگز کا کہنا ہے کہ وہ ایسی پیداوار کو مارکیٹ میں بیچ سکتے ہیں جو قمیت میں نامیاتی سبزیوں سے مقابلہ کے قابل ہو۔

‘جب میں سپر مارکیٹ میں جاتا ہوں اور وہاں سبزیاں اور پھل اپنی کثافت کے حساب سے لائن میں رکھی ہوتی ہیں تو میں سوچتا ہوں ہم بھی اپنی سبزی کو اسی لائن میں دیکھنا چاہیں گے۔ ہمارے ٹماٹر اور سٹرابیری تو بالکل تجارت کے قابل ہو چکے ہیں، اور ہم وہاں سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ کھیت والے کاشتکار اپنی پیداواری لاگت کو کم کرنے کے لیے سورج کی تمازت کو بڑھا یا گٹھا نہیں سکتے لیکن ہم یہاں ٹیکنالوجی کی مدد سے ایسا کر سکتے ہیں۔’

پیرس کی ہی طرح امریکہ میں گاڑیوں کو پارک کرنے کی ایسی بے شمار جگہیں ہیں جو استعمال نہیں ہو رہی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق امریکہ میں دو ارب پارکنگ کی جگہیں خالی ہیں اور اگر ان جگہوں میں ممکنہ کساد بازاری کے دور میں بند ہونے والے کاروباروں کو بھی شامل کر لیا جائے تو لاکھوں سکوائر فٹ تعمیر شدہ ایریا بھی مہیا ہو جائے گا۔

پیگز کہتے ہیں کہ مقامی حکام شپنگ کنٹینرز کے حوالے سے پہلے ہی ضابطے تیار کر چکے ہیں جس کا مطلب ہے کہ کنٹینروں کو فارمنگ کے لیے تبدیل کرنا نئی عمارت بنانے سے آسان ہے۔

زیر زمین زرعی فارمز
اگر خوراک صارفین کے قریب پیدا کی جائے تو انھیں تازہ خوراک مل سکتی

پیگز کہتے ہیں کہ ان کنیٹرز میں آپ کو بہت سی چیزیں مفت میں دستیاب ہو جاتی ہیں کیونکہ ان کنٹینروں کو خوراک کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنےکے لیے تیار کیا جاتا ہے اور ان میں مخصوص درجہ حرارت کو برقرار رکھا جا سکتا ہے۔’ آپ اسے اٹھا کر ٹرک کے اوپر رکھتے ہیں اور اسے لے جا کر ایک پارکنگ میں ڈال دیتے ہیں۔ آپ اس میں پانی اور بجلی کے کنکشن دیں تو وہ کھیت بن جاتا ہے،موجودہ انفراسٹرکچر کو مختلف اندازمیں استعمال کیا جا سکتا ہے۔’

سکوائر روٹس کے کنٹینرز میں انٹرنیٹ کنکشن کا ہونا لازمی ہے کیونکہ اس سے وہ دوسرے کنٹینروں کے ساتھ جڑا رہ سکتا ہے اور وہاں ہونے والی کسی تبدیلی سے باخبر رہ سکتا ہے۔

نیویارک میں سکوائر روٹس اپنی سبزیوں کی پیداوار اپنے ارد گرد پانچ میل کے ایریا میں سٹورز کو فراہم کرتا ہے۔ سبزیوں کو فارم سے سٹور تک منتقل کرنے کے لیے اسے ٹرکوں کی ضرورت نہیں اور وہ بیٹری سے چلنے والے تین پہیہ سائیکلوں کو استعمال کرتے ہیں جن کے فرنٹ پر کولڈ سٹوریج ہوتا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ خواراک کے فارم سے مارکیٹ تک پہنچنے میں دو ہفتوں کی بجائے دو گھنٹے لگتے ہیں۔

سٹیو ڈرنگ بھی ایک انڈرگراؤنڈ کاشتکار ہیں۔ وہ ‘گروانگ انڈرگراؤنڈ’ کمپنی کے بانیوں میں سے ایک ہیں۔ وہ لندن میں دوسری جنگ عظیم کے دوران شہریوں کو فضائی حملوں سے بچانے کے لیے تعمیر ہونے والے ایک بڑے بنکر میں سبزیاں اگا رہے ہیں۔

سٹیو ڈرنگ اور اس کے سرمایہ دار ساتھی عمودی کاشتکاری کا سوچ رہے تھے۔ لیکن کسی شہر کے مرکز میں سبزیاں اگانے کے لیے جگہ کا حصول اور وہاں اس مقصد کے لیے عمارت کی تعیمر آسان کام نہیں۔

لندن ٹرانسپورٹ کے محکمے کے پاس 70 ہزا مربع فیٹ خالی سرنگوں کی جگہیں ہیں۔ سٹیو ڈرنگ نے لندن ٹرانسپورٹ سے ایک بڑے بنکر جس میں آٹھ ہزار افراد کے پناہ لینے کی جگہ موجود ہے، کو قائل کر لیا کہ وہ اسے اس کی چابیاں تھما دیں تاکہ وہ وہاں اپنا سبزی فارم تیار کر سکیں۔

پہلی نظر میں یہ فارم ٹی وی سیریل ‘بریکنگ بیڈ’ کی طرح کی چیز نظر آتی ہے جہاں سبزیاں گلابی روشنی میں لپٹی ہوئی نظر آتی ہیں۔ ڈرنگ نے بنکر کی درمیانی منزل پر عارضی پلاسٹک کی سرنگیں تیار کی ہیں جبکہ پانی اور فلٹریشن پلانٹ نیچے والی منزل پر ہے۔

ڈرنگ کے فارم میں ہائیڈرو پونک سسٹم ‘ایب اینڈ فلو’ کا استعمال کرتے ہیں۔ اس نظام میں پانی فصل کو لگایا جاتا ہے اور وہ فلٹر سے رس کر واپس استعمال میں آ جاتا ہے۔

زیر زمین زرعی فارمز
نقل و حمل پر پابندیوں کی وجہ سے خوراک کو مارکیٹ کے قریب اگانے کا روج بڑھ رہا ہے

پیرس کے انڈگراونڈ کار پارکنگ کی طرح یہ بنکر بھی مخصوص درجہ حرارت پیدا کر کے فصلوں کی پیداوار حاصل کرنے کے لیے انتہائی موزوں ہے۔ ‘ اگر باہر درجہ حرارت منفی پانچ سنٹی گریڈ یا 30 سنٹی گریڈ ہے تو 120 فٹ گہرے اس بنکر کے اندر درجہ حرارت مسلسل چودہ سنٹی گریڈ ہی ہو گا۔‘

ڈرنگ کہتے ہیں کہ وہ یا دوسرے ان جیسے کاشتکار جو کچھ کر رہے ہیں اسے غلط نام دیا گیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ وہ بھی وہی ٹیکنالوجی استعمال کر رہے ہیں جو کھیتوں میں کاشتکار عمودی فارمنگ کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔

ڈرنگ کہتے ہیں کہ ان کی فارمنگ کو اگر ‘کنٹرولڈ اینوائرمنٹ ایگریکلچر’ کا نام دیا جائے تو مناسب ہو گا۔

‘ہم یہاں ایک مخصوص درجہ حرارت کو برقرار رکھ کر فصلیں کاشت کرتے ہیں اور اگر درجہ حرارت پہلے ہی چودہ سنٹی گریڈ ہے تو اسے مطلوبہ درجہ حرارت تک لانے میں بہت آسان ہے۔’

ڈرنگ کا کہنا ہے کہ لمبی سرنگ میں سب سے بڑا مسئلہ تازہ ہوا کے گزر کو ممکن بنانا ہوتا ہے وگرنہ فصلوں کو مختلف بیماریاں لگ جاتی ہیں۔ ڈرنگ نے جس ٹنل کو حاصل کر رکھا ہے اس میں آٹھ ہزار لوگوں کو سمونے کی گنجائش موجود ہے اور وہاں پہلے ہی بہت اعلیٰ قسم کے وینٹیلٹرز نصب ہیں۔

ڈرنگ کہتے ہیں کہ وہ لندن میں انڈرگراونڈ کار پارک کے ہر مالک سے بات کر چکے ہیں کیونکہ وہ اور ان کے ساتھی چاہتے ہیں کہ ان خالی جگہوں کو منافع بخش بنائیں۔

لوگ شہری علاقوں میں موجود خالی جگہوں کو استعمال کرنے کے مواقعوں کو تلاش کر رہے ہیں۔

گرٹز کہتے ہیں کہ لاک ڈاؤن کے وجہ سے ہاتھ سے کام کرنے ولے مقامی لوگوں کی عزت میں اضافہ ہوا ہے۔ ‘لوگوں کو معلوم ہوا کہ اگر مقامی طور پر کوئی کام ہو رہا ہے تو یہ ان کے لیے فائدہ مند ہے۔’

پیگز کا کہنا ہے کہ جب مالی حالات تنگ ہوں تو لوگ اپنے کھانے کے بارے میں سوچنا شروع کرتے ہیں۔

‘جب آپ گھر پر کھانا کھا رہے ہیں تو آپ کو اس کی اہمیت کا بھی خیال کرنا پڑتا ہے۔ سنہ 2008 کے معاشی بحران کے دوران بھی یہ ہی دیکھنے میں آیا۔ ‘ کسی کو اس کی فکر نہیں تھی کہ ان کا کھانا کہاں سے آ رہا ہے، انھیں بس سستی اور مناسب خوراک چاہیے تھی۔

لیکن موجودہ مالی بحران نے صحت کی ایک وبا سے جنم لیا ہے۔ لوگ اپنی خوراک کے حوالے سے نئے فیصلے کر رہے ہیں۔ اب شاید ہم پہلے سے زیادہ اس بارے میں سوچیں گے کہ ہماری خوراک کہاں سے آ رہی ہے اور اس میں کیا ہے۔