منتخب تحریریں

نجم الاصغر شاہیا… ایک روشن ستارہ …(آخری قسط)

Share

شاہیا کو ادب کے معاملے میں کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ کسی صورت گوارا نہ تھا۔ عروض کی غلطی ناقابل معافی جرم تھا اور مصلحت پسندی اس سے کوسوں دور تھی۔ ادبی تنظیموں اور محافل سے وہ اپنی بے لچک طبیعت کے باعث دور ہو گیا۔ اور کیا لکھوں؟ سوائے اس کی شاعری کے۔
ڈبل اسٹوری
نئی جوان چڑیوں نے بہار میں اِدھر اُدھر سے خس چنے
اور آ کے میرے گھر کی چھت کی اک کڑی پہ آشیاں بنا لیا
تھی منزل ایک ہی مرے مکان کی، طیورِ پُر شباب نے
بنا کے چھت میں آشیاں اسے دو منزلہ مکاں بنا لیا
اڑا کے جن کو لائی تھی تلاشِ آب و دانہ میرے صحن میں
وہ رفتہ رفتہ ایک دن مرے شریکِ جائداد ہو گئے
کرائوں کیسے واگزار غاصبوں سے گھر، ہمارے درمیاں
قضیۂ حقوقِ مالکانہ پر کئی فساد ہو گئے
مرے مکاں میں جب سے یہ فسادیوں کا خاندان بس گیا
میں تخلیے کو اور دوپہر کی میٹھی نیند کو ترس گیا
حق تلفی
مشتری جب اراضی کا سودا کریں
اس اراضی پہ ہوں کچھ مکاں بھی اگر
ان مکانوں کی قیمت بھی دیں مشتری
جب درختوں کا نیلام ہو دشت میں
دشت کے طائروں کا یہ حق ہے، انہیں
آشیانوں کی قیمت بھی دیں مشتری
بارشوں کے موسم میں اک بارشِ بے آب
وہ بے پانی کی بارش تھی
نہ کوئی برگ گل بھیگا، نہ کوئی پیڑ کا پتہ
نہ اس کی زد میں کوئی گھونسلہ آیا، نہ کوئی شہد کا چھتہ
مرا تن بھیگتا جاتا تھا البتہ
وہ بارش کیسی حیرانی کی بارش تھی
گھٹا جب گھر کے آتی ہے
درودیوار پر، اشجار پر، ہر پھول پر، ہر خار پر
بے جان پر، جاں دار پر یکساں برستی ہے
کشادہ ہوتا ہے داماں ہمیشہ ابرِ رحمت کا
مگر وہ ابرِ نادیدہ فقط مجھ پر ہی کیوں برسا
وہ کیسی تنگ دامانی کی بارش تھی
معالج سے ملا تو اس نے سمجھایا
بخارات اٹھتے رہتے ہیں ہمیشہ دل کے ساگر سے
کسی کی سرد مہری حد سے بڑھتی ہے
تو یہ تبخیر بھی تکثیف کے فطری مدارج سے گزرتی ہے
پھر اک گہری گھٹا بن کر امڈتی ہے
تیرا تن جس سے بھیگا تھا
ترے اندر کے ہی اک ابر نیسانی کی بارش تھی
وہ تجھ پر خود ترے اندرکی خواہش ہائے نفسانی کی بارش تھی
وہ اک انسان پر کچلے ہوئے جذباتِ انسانی کی بارش تھی
وہ رم جھم حسرتوں کی تھی سو بے پانی کی بارش تھی
یہ عزت موت نے بخشی
جنازہ اٹھ چکا ہے اب
سڑک پر چلنے والی سینکڑوں کاروں، بسوں، جیپوں، سٹیشن ویگنوں، رکشوں
مقامی منڈیوں کا مال ڈھونے والے گڈوں، ریڑھوں، خچرگاڑیوں، تانگوں
کا اک بے ہنگم اور بھاری ٹریفک رک گیا ہے اک طرف ہو کر
پیادہ بھی کھڑے ہیں احتراماً سر جھکائے صف بہ صف ہو کر
یہ کیسا پھول ہے جس کو ملی عزت تلف ہو کر
یہ ادنیٰ آج نکلا صاحبِ عزوشرف ہو کر
یہ تکریم و ادب ہے مرنے والے کے لیے ورنہ
کسی کو زندگی میں کون آسانی سے رستا دے
جنازہ جس گلی سے جس سڑک سے بھی گزرتا ہے
ہر اک ناآشنا بھی دو قدم میت کو کندھا دے
یہ عزت موت نے بخشی کسی کو کیا پڑی ورنہ
بغیر اُجرت کے اتنا بوجھ اپنے دوش پر لادے
یہ احساسِ مروّت ہے عطیہ مرگِ مُبرم کا
کسی زندہ کو اس جذبے سے کب کوئی سہارا دے
یہاں اس شہر کی پُرشور و پُرآشوب سڑکوں پر
کئی لوگ اپنی ہی لاشیں اٹھائے اپنے کندھوں پر
کھڑے رہتے ہیں پہروں بھیڑ میں پھنس کر انہیں رستہ نہیں ملتا
وہ تھک جاتے ہیں پر کندھا بدلنے کا کوئی عندیہ نہیں ملتا
یہ وہ بدبخت جن کے اہل خانہ کو کسی ہمسائے کا پُرسہ نہیں ملتا
عزیزوں میں سے بھی آتا نہیں کوئی، کسی کا تعزیت نامہ نہیں ملتا
جنازے یوں بھی اٹھتے ہیں
ہوا کے جھونکے کی دیر ہے بس
کبھی تو یہ دور ختم ہوگا
کبھی تو آخر یہ ظلم اور جور ختم ہوگا
مگر یہ ظلم اور جور کا دور جانے کس طور ختم ہوگا
قفس کے اک غُرفۂ مقفّل میں تنہا بیٹھا
میں یونہی فکروخیال کے جال بُن رہا تھا
کہ پاس اک کوٹھڑی سے پکار اٹھا کوئی رجائی
میں اس کی آواز سن رہا تھا
صدا کی شاخوں سے ٹوٹتے پھول چن رہا تھا
عجیب پاگل تھا کہہ رہا تھا
نہ غم گزیدہ، ستم رسیدہ ہوں دل شکستہ
نکل ہی آئے گا کوئی رستا
فصیل زندانِ سنگ بستہ
تو ہو چکی ہے اب اتنی خستہ
ہوا کے جھونکے کی دیر ہے بس
ہوا چلی تو یہ خستہ دیوار ایک ملبے کا ڈھیر ہے بس
ہوا چلی تو بکھر کے رہ جائیں گے ستم گر
ہوا کے جھونکے کی دیر ہے بس
میں اس کی آواز سن کے چونکا
میرے وطن پر تو بے حسی کا ہے حبس طاری
کہاں سے آئے گا کوئی جھونکا
شکریہ رضوانہ نقوی کا جس نے محنت اور لگن سے نجم الاصغر شاہیا کے کلام کو ترتیب دی، مدون کیا اور اکٹھا کر کے ہم تک پہنچایا اور شکریہ شاکرحسین شاکر کا جس نے یہ کتاب میرے ہاتھوں میں پکڑائی۔ نجم الاصغر شاہیا اپنے تئیں چھوٹا ستارہ (نجم الاصغر) بننے میں خوش تھا۔ مجھے اس سے کوئی غرض نہیں کہ وہ چھوٹا ستارہ تھا یا بڑا؛ تاہم یہ بات طے ہے کہ وہ بہت ہی روشن ستارہ تھا۔ ایسا روشن کہ رخصت کے باوجود اس کی روشنی تادیر رہے گی۔