پاکستان

حکومت کی اسلام آباد ہائیکورٹ سے کلبھوشن کیلئے وکیل مقرر کرنے کی استدعا

Share

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے بھارتی جاسوس کمانڈر کلبھوشن یادیو کے لیے سرکاری وکیل مقرر کرنے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا تا کہ سزا سے متعلق عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عملدرآمد کیا جاسکے۔

 رپورٹ کے مطابق بھارتی خفیہ ادارے ریسرچ اینڈ اینالسز ونگ (را) اور بھارتی حکومت کی جانب سے کلبھوشن کی سزائے موت پر نظرِ ثانی کی درخواست سے گریز کرنے کے بعد حکومت نے سیکریٹری قانون کے توسط سے درخواست دائر کی۔

درخواست میں سیکریٹری دفاع اور جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) کے جج ایڈووکیٹ جنرل(جے اےا جی) کو فریق بنایا گیا ہے اور اسلام آباد ہائی کورٹ سے استدعا کی گئی کہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے مطابق فوجی عدالت کے فیصلے پر نظر ثانی اور دوبارہ غور کے لیے وکیل مقرر کرے۔

درخواست کے مطابق بھارتی نیوی کا کمانڈر کلبھوشن یادیو 3 مارچ 2016 کو پاکستان میں داخل یوا اور بلوچستان کے علاقے ماشاخیل میں خفیہ اطلاع پر کیے گئے آپریشن میں پاکستانی حکام نے اسے گرفتار کیا۔‎

نیول کمانڈر نے بھارتی ایجنسی را سے اپنی وابستگی کے علاوہ سندھ اور بلوچستان میں جاسوسی کی کارروائیوں میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا۔

پٹیشن میں بتایا گیا کہ فوجی عدالت میں مقدمہ چلنے کے بعد را ایجنٹ کو 10 اپریل 2017 کو سزائے موت سنائی گئی تھی۔

بعدازاں جولائی 2019 میں عالمی عدالت انصاف نے پاکستان کو ہدایت کی تھی کہ کلبھوشن کو قونصلر رسائی دی جائے اور اس کے کیس پر مؤثر نظر ثانی اور دوبارہ غور کیا جائے۔

پاکستان نے بھارت کو ’انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس(ریویو اینڈ ری کنسڈریشن) آرڈیننس 2020‘ کے تحت فوجی عدالت کی سزا کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں نظرِ ثانی اور دوبارہ غور کی درخواست دائر کرنے کی دعوت دی تھی۔

بھارتی جاسوس کی جانب سے قانون کا فائدہ اٹھانے سے انکار اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے پاس اپنی رحم کی اپیل پر ہمدردی دکھانے پر اصرار کیا گیا تھا جس کے بعد پاکستان نے یہ پیشکش بھارتی حکومت کو کردی تھی۔

آئی سی جے ریویو اینڈ ری کنسڈریشن آرڈیننس 2020 پاکستان کی عدالت عالیہ کو اختیار دیتا ہے کہ وہ اس فیصلے پر نظر ثانی اور دوبارہ غور کرسکتی ہے جس میں آئی سی جے نےقونصلر ریلیشن کے ویانا کنوینشن کے آرٹیکل 36 کے تحت غیر ملکی شہری سے متعلق کوئی فیصلہ کیا ہو یا غیر ملکی شہری ویانا کنویشن برائے قونصلر تعلقات کے آرٹیکل 36 میں دیے گئے حقوق کے حوالے سے شاکی ہو۔

اس قسم کے غیر ملکی شہری خود یا اپنے مجاز نمائندے یا اپنے ملک کے سفارتخانے کے قونصلر افسر کے ذریعے پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت چلنے والی فوجی عدالت سے سنائی گئی سزا پر نظرِ ثانی اور دوبارہ غور کے لیے درخواست دائر کرسکتے ہیں۔

درخواست میں وزارت قانون نے کہا کہ را ایجنٹ نے اپنے لیے وکیل مقرر کرنے اور سزا کے خلاف نظرثانی اور اس پر دوبارہ غور کی درخواست دائر کرنے سے انکار کردیا ہے۔

درخواست میں مزید کہا گیا کہ انہیں ’اپنے ملک یعنی بھارت کی مدد کے بغیر پاکستان میں وکیل مقرر کرنے کے لیے آزادانہ وسائل حاصل نہیں ہیں نہ ہی وہ اس کی صلاحیت رکھتے ہیں اور بھارت، آرڈیننس کے تحت وفاق کی جناب سے کی گئی پیشکش سے گریزاں ہے۔

درخواست میں کہا گیا کہ ’یہ قومی مفاد میں ہے کہ کمانڈر یادیو کے لیے قانونی نمائندہ مقرر کیا جائے تا کہ آرڈیننس کے مطابق سزا پر نظر ثانی کے عمل کا اغاز ہوسکے اور پاکستان آئی سی جے کے فیصلے پر عمل کرنے کی ذمہ داری سے سبکدوش ہوسکے‘۔

اسی کے ساتھ درخواست میں عدالت سے یہ بھی استدعا کی گئی کہ کوئی ’مناسب وکیل مقرر‘ کیا جائے جو کہ سزا یافتہ جاسوس کی جانب سے نظر ثانی اور دوبارہ غور کی درخواست دائر کرسکے۔

یہاں یہ بات مدِ نظر رہے کہ پاکستان بھارتی جاسوس کو 2 مرتبہ قونصلر رسائی فراہم کرچکا ہے جبکہ تیسری مرتبہ قونصلر افسران کی ملاقات کروانے کی بھی پیشکش کردی تھی۔

پاکستان نے را کے ایجنٹ کمانڈر یادیو کی سزائے موت کو سزا پر نظرِ ثانی اور دوبارہ غور تک کے لیے روک دیا تھا۔

عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر صحیح طور سے عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے پاکستان نے 28 مئی کو ’انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس ریویو اینڈ ری کنسیڈریشن آرڈینسس 2020‘ نافذ کیا۔

اس آرٹیننس کے تحت 60 روز میں ایک درخواست کے ذریعے اسلام آباد ہائی کورٹ میں نظرِ ثانی اور دوبارہ غور کی اپیل دائر کی جاسکتی ہے۔

آرڈیننس کے سیکشن 20 کے تحت کلبھوشن یادیو بذات خود، قانونی اختیار رکھنے والے نمائندے یا بھارتی ہائی کمیشن کے قونصلر اہلکار کے ذریعے نظرِ ثانی اپیل دائر کرسکتے ہیں۔

کلبھوشن یادیو کی گرفتاری اور عالمی عدالت میں مقدمہ

یاد رہے کہ ’را‘ کے لیے کام کرنے والے بھارتی نیوی کے حاضر سروس کمانڈر کلبھوشن یادیو عرف حسین مبارک پٹیل کو پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے 3 مارچ 2016 کو غیرقانونی طور پر پاکستان میں داخل ہوتے ہوئے گرفتار کیا تھا۔

بھارتی جاسوس نے مجسٹریٹ اور عدالت کے سامنے اعتراف کیا تھا کہ کہ انہیں ’را‘ کی جانب سے پاکستان میں دہشت گردی کے لیے منصوبہ بندی اور رابطوں کے علاوہ امن کے عمل اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جاری کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔

کلبھوشن نے یہ بھی کہا تھا کہ 2004 اور 2005 میں اس نے کراچی کے کئی دورے کیے جن کا مقصد ‘را’ کے لیے کچھ بنیادی ٹاسک سرانجام دینا تھا جب کہ 2016 میں وہ ایران کے راستے بلوچستان میں داخل ہوا۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے کلبھوشن یادیو کے اعترافی بیان کی ایک ویڈیو بھی جاری کی گئی تھی جس میں اس نے اعتراف کیا تھا کہ اس کا پاکستان میں داخل ہونے کا مقصد فنڈنگ لینے والے بلوچ علیحدگی پسندوں سے ملاقات کرنا تھا۔

بعدازاں اپریل 2017 کو آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ کلبھوشن یادیو کو فوجی عدالت نے پاکستان کی جاسوسی، کراچی اور بلوچستان میں تخریبی کارروائیوں میں ملوث ہونے پر سزائے موت دینے کا فیصلہ سنایا تھا، جس کی توثیق بعد میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کی تھی۔

بھارت نے 9 مئی 2017 کو عالمی عدالت انصاف میں کلبھوشن یادیو کی سزائے موت کے خلاف اپیل دائر کی تھی، اور درخواست کی تھی کہ آئی سی جے پاکستان کو بھارتی جاسوس کو پھانسی دینے سے روکے جسے سماعت کیلئے مقرر کرلیا گیا۔

عالمی عدالت انصاف میں کی گئی درخواست میں بھارت نے پاکستان پر ویانا کنونشن کی خلاف ورزی کا الزام لگایا گیا تھا کہ ویانا کنونشن کے مطابق جاسوسی کے الزام میں گرفتار شخص کو رسائی سے روکا نہیں جاسکتا۔

بھارت نے دعویٰ کیا تھا کہ کلبھوشن یادیو ایک بے قصور تاجر ہے جسے ایران سے اغوا کرنے کے بعد تشدد کا نشانہ بنا کر زبردستی را ایجنٹ ہونے کا اعتراف کروایا گیا لیکن بھارت اغوا کیے جانے کے کوئی بھی ثبوت پیش نہیں کرسکا تھا۔

جس کے بعد 18 مئی 2018 کو عالمی عدالت انصاف نے عبوری حکم جاری کرتے ہوئے کلبھوشن کی پھانسی روکنے کا حکم دیا تھا جس کے بعد دفتر خارجہ نے آگاہ کیا تھا کہ آئی سی جے کے حکم پر حکومتِ پاکستان نے متعلقہ اداروں کو اس پر عمل کرنے کی ہدایت کردی۔

بعد ازاں 17 جولائی 2019 کو عالمی عدالت نے کیس کا حتمی فیصلہ سنادیا تھا جس کے مطابق کلبھوشن یادیو کو پاکستانی فوجی عدالت کی جانب سے دیا جانے والا سزائے موت کا فیصلہ منسوخ اور کلبھوشن کی حوالگی کی بھارتی استدعا مسترد کردی گئی تھی۔عدالت نے اپنے فیصلے میں پاکستان کو ہدایت کی تھی کہ وہ کلبھوشن کو قونصلر رسائی دے، جس پر پاکستان نے بھارتی جاسوس کو قونصلر رسائی فراہم کردی تھی

قبل ازیں دسمبر 2017 میں پاکستان نے کلبھوشن یادیو سے ان کی اہلیہ اور والدہ کی ملاقات بھی کروائی تھی۔