کالم

نیند کیوں رات بھر نہیں آتی!

Share

اب تو لگتا ہے کورونا ہماری زندگی کا حصّہ بن چکا ہے۔ بنے بھی کیوں نہیں، جس طرح سے کورونا نے دنیا میں دہشت پھیلائی ہے اس سے دنیا سہم کر رہ گئی ہے۔ تاہم دنیا میں اس سے قبل ہمیشہ ہی کئی وباؤں کا خوف کبھی نہ کبھی طاری رہا ہے۔ مثلاً ملیریا، ٹائفیڈ، نمونیا،ڈینگو، طاعون اور نہ جانے کیا کیا۔
ہر بار ایک بحث چھڑتی اور حکومت سے لے کر طبی ماہرین اپنی اپنی رائے سے لوگوں کو محفوظ رکھنے کی بات کرتے تو کبھی کبھی ان کی خوف زدہ باتوں سے مارے خوف کے انسان اس بیماری سے پہلے ہی مر جاتا۔لیکن 2020میں جب کورونا نے یورپ میں دستک دینا شروع کی اور اٹلی میں لوگوں کو دبوچنا شروع کیا تو دنیا بھر میں عجیب سا خوف کا ماحول پھیل گیا۔ ویسے بھی یورپ اور ترقی یافتہ ممالک میں ایسی کوئی بھی خبریں ہوتی ہیں تو اس کا اثر دنیا کے زیادہ تر حصّوں میں کافی پڑتا ہے۔چاہے دہشت گردی کی بات ہو یا الیکشن کی یا پھر مارکیٹ کے گر جانے کی۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ دنیا کے زیادہ تر امیر ترین ملک اور مارکیٹ یورپ اور امریکہ پرہی منحصر ہے۔ اس کے علاوہ دنیا کا کاروبار ڈالر سے چلتا ہے جس سے ایسی کوئی بھی بات جب یورپ یا امریکہ میں ہوتی ہے تو پوری دنیا کا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے۔
مجھے ہندوستان کے ایک وکیل صاحب کی بات یاد آرہی ہے۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ انگلینڈ کے ایک پاؤنڈ کی میں کتنے ہندوستانی روپئے بنتے ہیں۔ میں نے ان سے کہا ابھی مارکیٹ کے حساب سے 90روپئے۔ مسکرا کر کہنے لگے، اس سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ انگلینڈ کا ایک آدمی ہندوستان کے نوے آدمی کے برابر ہے۔ اب یہ بات انہوں نے کس بارے میں کہا یہ تو مجھے علم نہیں لیکن ان کی بات سے مجھے اب اس بات کا اندازہ ضرور ہو اکہ یورپ کی دنیا میں کتنی اہمیت ہے۔
دنیا کے زیادہ تر ملکوں میں لاک ڈان اب بھی جاری ہے۔ اس کے علاوہ دیہی علاقوں میں بھی لاک ڈان کی وجہ سے زندگی ٹھپ پڑ ی ہوئی ہے۔ لوگ گھروں میں اب بھی اسی خوف سے بند ہیں کہ کہیں انہیں کورونا وائرس یعنی کووڈ 19 نہ دبوچ لے۔ایشیا، یورپ مشرق وسطیٰ اور امریکہ میں زندگی تھم سی گئی ہے بلکہ یوں کہہ لیں کہ زندگی رینگ رہی ہے تو مبالغہ نہیں ہوگا۔ ان معروف، ترقی یافتہ اور بڑے شہر کے لوگ اب بے بس و مجبورہو کر کورونا وائرس کے خاتمے کی دعا مانگ رہے ہیں۔ یہی حال ہندوستان اور پاکستان کا ہے جہاں آئے دن کورونا وائرس سے مرنے والوں کی تعداد بڑھتی ہی جارہی ہے۔تاہم ہندوستان کے وزیراعظم گاہے بگاہے کبھی اپنے من کی بات تو کبھی ٹیلی ویژن پر نمودار ہو کر ہر ذی شعور انسان کو ذہنی الجھن میں ڈال کر چلے جاتے ہیں۔عام لوگوں کی پریشانیوں کا نہ کوئی سننے والا ہے اور نہ ہی ان سے کسی کو ہمدردی ہے۔ بس طرح طرح کی خبریں دیکھنے کو ملتی ہیں جس سے ہم لندن میں بیٹھے سر کھجانے لگتے ہیں۔ جیسے تالی اور تھالی بجائے یا دیا جلائے یا بابا رام دیو کا دوا کھائے۔اب آپ سوچے کہ عام آدمی پیٹ بھرنے کے لیے رعز ایک جنگ لڑ رہا ہے اور سیاستدان اور بابا اپنی دکان چمکانے کے لیے ان معسوم لوگوں کی الجھنوں میں مزید اضافہ کر کے ان کی زندگی کو عذاب بنا رکھا ہے۔
استغفراللہ!کچھ لمحے کے لیے یہ محسوس ہوتا کہ دنیا ایک سرکس بن گئی ہے اور روز ایک نیا آئٹم پیش کیا جا رہا ہے۔ بیچاری غلام عوام آنکھوں پر پٹی باندھ کر اپنے لیڈر کی بکواس پر عمل کرنے پر مجبور ہے۔ اب لوگ کریں بھی تو کیا کریں۔ ایک طرف جان کی پڑی تو دوسری طرف’اندھ
وسواش‘ کا بول بالا، بیچارے لوگ جائیں تو کہاں جائیں۔فی الحال ایسی صورتِ حال میں لوگوں کو بس اپنی جان کی پڑی ہے۔
8 جولائی کو موڈرن اسلامی ترکی سینٹر کے نوجوان امام کا ٹیکسٹ میسج آیا کہ جمعہ 10جولائی کو حکومت کے انتباہ پر نماز کے لیے سینٹر کو کھول دیا جائے گیا۔ سچ پوچھیے دل سے الحمداللہ نکلنے لگا اور نکلے بھی کیوں نہیں پورے چار مہینے بعد با جماعت جمعہ کی نماز نصیب ہوری تھی۔ تاہم حکومت نے اس بات کا اعلان پہلے ہی کر دیا تھا کہ عبادت گاہوں کو جلد کھولا جائے گا مگر شرط کے ساتھ۔ امام کا ایک پوسٹر موصول ہوا جس میں نماز ادا کرنے کے لیے مسجد جانے کی پانچ شرائط درج تھیں۔ پہلا نماز سے قبل پری بُکنگ، دوسرا منھ پر ماسک پہننا، تیسرا اپنا جانماز لے کر جانا، چوتھا دوسرے نمازی سے دو میٹر کی دوری قائم رکھنا، اور پانچواں مسجد نماز سے آدھے گھنٹے قبل ہی کھولی جائے گی۔
ٹھیک نماز سے آدھ گھنٹے قبل مسجد پہنچ گیا۔ منھ پر ماسک چڑھا ہوا تھا جو میں نے اپنے ہسپتال جانے کے بعد دوسری بار لگایا تھا۔ ترکی اسلامی سینٹر کے دروازے میں داخل ہوتے ہی پلاسٹک کی تھیلی لٹک رہی تھی جو نمازیوں کے جوتا رکھنے کے لیے تھی۔ اس کے بعد اپنے جا ئے نماز کو دوسرے نمازی سے دو میٹر کی دوری پر بچھا کر نماز پڑھی۔ نماز کے بعد خا موشی سے گھر کو لوٹ آئے۔مجھے ترکی اسلامی سینٹر کی ان تمام باتوں سے کافی خوشی ہوئی کہ ان لوگوں نے ہمیں پہلے ہی آگاہ کردیا جو کی کورونا سے محفوظ رہنے کے لیے ضروری ہے۔

اسی طرح لندن کے معروف ٹوٹنگ علاقے میں اتوار کو جانا کا اتفاق ہوا جہاں پاکستانیوں کے ریسٹورینٹ واقع ہیں۔ دراصل ہماری صاحبزادی کو پایہ نہاری کھانے کا بڑا شوق ہے۔ان کی خواہش کو پورا کرنے کے لیے میں نکل پڑا۔ ہم بھی چار مہینے کی قید کی زندگی اور خوف سے اُکتا چکے تھے۔بیس منٹ کی ڈرائیو کے بعد ٹوٹنگ کے دعوت ریسٹورینٹ پہنچ گئے۔ لیجئے جناب تمام اسٹاف بنا ماسک کے کام کر رہا تھا اور میں منھ پر ماسک لگائے،چاروں طرف گوپیا بیچ میں کنہیا محسوس کرنے لگا۔اپنے لوگ کہاں ماننے والے۔ وہ تو ہر بات پر یہی کہتے، اللہ کی مرضی کے بنا کچھ نہیں ہوگا۔ویسے بات تو سچ ہے۔اس قوم کا اللہ ہی نگہبان ہے۔
تاہم اسی دوران انگلینڈ کے بلیک برن شہر میں ایک مسجد کے امام کو کورونا ہونے کی خبر ان دنوں سرخیوں میں ہے۔دراصل اس مسجد کے امام نے ایک جنازے میں شرکت کی تھی جس میں ڈھائی سو لوگ موجود تھے۔ کیا ضرورت تھی اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو جنازہ میں شرکت کرنے کی جب کہ حکومت نے فی الحال صرف تیس لوگوں کو شادی اور جناز ے میں شرکت کی اجازت دی ہے۔پبلک ہیلتھ آفیسل نے تمام لوگوں کو 14 دن کے لیے قرنطینہ میں رکھ دیا ہے اور مسجد کو بند کر دیا گیا ہے۔اللہ تیرے بندے تو ہی جانے۔
برطانوی وزیراعظم بورس جونسن نے جب سے ماسک پہننے کا اعلان کیا ہے تب سے لوگوں میں ایک بحث چھڑی ہوئی ہے۔وزیراعظم نے سائنسی ماہرین کی رائے پر اعلان کیا کہ لوگ دکانوں میں بنا ماسک کے داخل نہیں ہوسکتے ہیں۔ تاہم اس سے قبل برٹش ٹرانسپورٹ میں مسافروں کو ماسک پہننا لازمی قرار دے دیا گیا ہے۔وہیں برطانوی حکومت نے اعلیٰ اور بہترین قسم کے ماسک بنانے کے لیے ویلس اور لنکا
شائر کی دو فیکٹریوں میں 14میلین پونڈ لگائے ہیں۔
ہمارے اسپتال رائل ہوسپٹل فار نیورو ڈِس ایبیلیٹی نے تو ایک قدم آگے بڑھ کر اس بات کا نوٹس جاری کر دیا کہ اگر کوئی اسٹاف بنا ماسک کے ہسپتال میں پایا گیا تو اس کے خلاف نظم و ضبط کی کاروائی کی جائے گی۔میں سمجھ سکتا کہ ایسا کرنا کیوں لازمی ہے کیونکہ سائنسداں کورونا کی دوسری لہر کا بے صبری سے انتظار کر رہے ہیں۔کرے بھی کیوں نہ جب بیماری کا پتہ ہی نہیں چل رہا اور اس کا کوئی علاج بھی نہ ہو تو ہم سب اللہ یا رام بھروسے ہی جی رہے ہیں۔ خدا جانے کل کس کی باری ہے۔
کہتے ہیں ’جان بچی تو لاکھوں پائے‘۔ چلیے صاحب، جان تو اب تک بچی ہوئی ہے لیکن دل سے خوف نہیں جا رہا ہے۔ آئے دن بس اسی بات کا ڈر لگا ہوا ہے کہ کورونا کہیں ہمیں نہ پکڑ لے۔کچھ لوگوں نے تو یہ کہہ کر دلاسہ دیا ہوا ہے کہ ’اللہ جو کرے گا بہتر کرے گا‘۔ غالب بھی خوب دور اندیش تھے تبھی تو کہاکہ:۔
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی