کالم

کیا عام شہری لاوارث ہے؟؟

Share

یوں تو معاشرے کے کئی بنیادی اجزاء یا عناصر ہوتے ہیں لیکن جب انسان کسی خاص نظام کے تحت ایک ریاست کے اندر یکجا ہو جاتے ہیں تو وہ اپنی اجتماعی زندگی کے لئے ایک عہد نامہ کرتے ہیں۔ اس عہد نامے کو ہم عام طور پر کسی ریاست کا آئین یا دستور کہتے ہیں۔ آئین کے ذریعے ایک معاشرہ طے کرتا ہے کہ وہاں حکمرانی کا نظام کیا ہو گا؟ حکمران کس طرح چنے جائیں گے؟ انہیں کس کس طریقے سے ہٹایا جا سکتا ہے؟ عوام کے حقوق کیا ہیں؟ ان کے فرائض کیا ہیں؟ قانون کی عمل داری کس طرح ہو گی؟ انصاف کا نظام کیا ہو گا؟ ادارے کس طرح وجود میں آئیں گے؟تین بنیادی ستونوں یعنی انتظامیہ، مقننہ، اور عدلیہ کی حدود کار کیا ہوں گی؟ اگر کوئی ملک وفاقی اکائیوں پر مشتمل ہے تو ان اکائیوں اور وفاق کا باہمی رشتہ کیا ہو گا؟ غرض یہ کہ ایک عمرانی معاہدے کے طور پر ملکی آئین پورے سیاسی، معاشی اور معاشرتی نظام کا نقشہ مرتب کرتا ہے۔ نیز فرد اور ریاست کے باہمی تعلق کی بھی وضاحت کرتا ہے۔
ہمارے ہاں آئین کی تاریخ کچھ ذیادہ حوصلہ افزاء نہیں۔ پہلا آئین تیار کرنے میں ہمیں نو برس لگ گئے۔ 1956 میں آئین تیار ہوا۔ اس آئین کے تحت پہلے عام انتخابات کی منصوبہ بندی شروع ہوئی۔ حتمی طور پر طے پایا کہ انتخابات 1959 کے آغاز میں ہونگے۔ اکتوبر 1958 میں مارشل لاء آگیا جو 1969 میں ایک اور مارشل لاء پر ختم ہوا۔ جنرل ایوب خان نے 1962 میں جو آئین دیا وہ اسی دن ختم ہو گیا جس دن آمر ایوب خان کے اقتدار کا سورج غروب ہوا۔ 1971 میں سقوط مشرقی پاکستان کا سانحہ پیش آیا۔ اقتدار ذولفقار علی بھٹو کے حوالے کیا گیا۔ 1973 میں تمام سیاسی جماعتوں نے سنجیدگی اور حب الوطنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک آئین تیار کیا۔ گاڑی پٹری پر چل پڑی لیکن حادثے بھی جاری رہے، گاڑی بار بار پٹری سے اترتی بھی رہی۔ کبھی آئینی جمہوریت آئی، کبھی آئین معطل کر دیا گیا لیکن اللہ کا شکر ہے ملک کی یکجہتی اور جمہوریت کی علامت کے طور پر 1973 کا آئین زندہ اور موجود ہے۔ دو درجن سے زائد ترامیم کے با وجود آئین اپنے بنیادی ڈھانچے کے ساتھ ریاستی نظام کی ضمانت دینے والی متفقہ دستاویز ہے۔
میرا موضوع پاکستان کی آئینی تاریخ کا جائزہ لینا یا یہ تجزیہ کرنا نہیں کہ بار بار یہ آئین مفلوج یا معطل کیوں کر دیا جاتا ہے۔میں سیاسی یا عسکری حکومتوں کی کارکردگی کی بات بھی نہیں کرنا چاہتی۔ میری تشویش کا باعث یہ بات ہے کہ جب آئین زندہ سلامت ہوتا ہے، جب ملک میں ایک جمہوری حکومت کام کر رہی ہوتی ہے، جب پارلیمنٹ اورہماری صوبائی اسمبلیاں بھی موجود ہوتی ہیں، جب عدالتوں سمیت تمام ادارے اپنی جگہ موجود ہوتے ہیں، جب معزز جج صاحبان نے بھی کسی پی۔سی۔او کا نہیں، آئین کا حلف اٹھا رکھا ہوتا ہے تو ایک عام شہری اس ” اعتماد” سے کیوں محروم رہتا ہے جو ایک آئینی ریاست اپنے ہر شہری کو دیتی ہے؟۔ جس کی ضمانت آئین کے کئی آرٹیکلز دیتے ہیں۔جس کے تحفظ کے لئے طرح طرح کے قوانین موجود ہوتے ہیں اور جسے یقینی بنانے کے لئے عدالتیں حرکت میں آتی ہیں۔
“اعتماد” کسی بھی زندہ اور قانون پر یقین رکھنے والے معاشرے کا بنیادی وصف ہوتا ہے۔ ایک شہری کو یقین ہوتا ہے کہ اس کا ملک آئین اور قانون رکھتا ہے۔ اسے اعتماد ہوتا ہے کہ کوئی طاقت اس کی آزادی نہیں چین سکتی۔ کوئی اسے غیر قانونی طور پر اظہار رائے کی آزادی سے محروم نہیں کر سکتا۔کوئی اس کے بنیادی حقوق پامال نہیں کر سکتا۔ ریاست اسکی جان،اس کے مال اور اس کی آزادی کی محافظ ہے۔ کوئی خلل ڈالے گا تو قانون حرکت میں آئے گا۔ ایسا کرنے والوں کو کٹہرے میں لایا جائے گا اور اسے سزا بھگتنا پڑے گی۔ ایک عام آدمی کو اعتماد ہوتا ہے کہ اسے بازار سے خالص اشیائے خوردنی مل رہی ہیں۔ اسے اعتماد ہوتا ہے کہ اسے میڈیکل سٹور سے اصلی دوائیں مل رہی ہیں۔ اسے اعتماد ہوتا ہے کہ وہ بھاری فیس دے کر جس تعلیمی ادارے میں داخلہ لے رہا ہے، وہ ادارہ واقعی رجسٹرڈ ہے۔اسے اعتماد ہوتا ہے کہ جس ہاوسنگ سوسائٹی میں پلاٹ خرید رہا ہے، وہ جعلی نہیں۔ اسے اعتماد ہوتا ہے کہ اس کے بچے بہ حفاظت سکول سے واپس آجائیں گے۔ اسے اعتماد ہوتا ہے کہ اس کا ووٹ اسی کے حق میں گنا جائے گا جس کے حق میں اس نے ڈالا ہے۔ اسے اعتماد ہوتا ہے کہ ملازمت کے لئے سفارش نہیں اہلیت کو دیکھا جاتا ہے۔
آئین اور قانون کی حکمرانی کا ثبوت یہ نہیں ہوتا کہ اس ملک میں ایک آئین ہے اور بہت سے قوانین ہیں یا اس قانون کو نافذ کرنے والی پولیس اور دیگر ادارے موجود ہیں یا ملک میں عدالتیں کام کر رہی ہیں۔ آئین اور قانون کی حکمرانی کا سب سے بڑا ثبوت عوام کے دلوں میں پایا جانے والا اعتماد ہوتا ہے۔ یہی اعتماد شہریوں کے دلوں میں اپنے آئین، اپنے نظام، اپنے قانون اور اپنے اداروں سے محبت اور تعلق پیدا کرتا ہے۔ وہ امیر ہو یا غریب، سرمایہ دار ہو یا مزدور، اسے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت اس سے ذیادتی اور نا انصافی نہیں کر سکتی۔ یہی اعتماد افراد کے گروہ کو ایک مضبوط قوم بناتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ بطور پاکستانی ہم اس اعتماد سے محروم ہیں۔ کسی عام شہری کو (خدانخواستہ) کسی حادثے یا بیماری کی صورت ہسپتال کا رخ کرنا پڑے تو وہ اور اسکے لواحقین اس اعتماد سے محروم ہوتے کہ انہیں ہسپتال میں بروقت علاج معالجے کی سہولت میسر ہو گی۔ تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم بچوں کے والدین معیار تعلیم،بچوں کے جسمانی تحفظ اور دیگر معاملات کے حوالے سے فکرمند رہتے ہیں۔ ڈگری حاصل کرنے کے بعد نوجوان بے اعتماد ی کا شکار رہتے ہیں کہ انہیں اپنی قابلیت کے بل بوتے پر ملازمت مل بھی سکے گی یا نہیں۔ برسوں سے نوکری کرتے افراد اپنی نوکری کے تحفظ کے حوالے سے اعتماد سے محروم ہوتے ہیں۔ عام شہری کو پولیس اسٹیشن جانا پڑجائے تو وہ اس اعتماد سے محروم ہوتا ہے کہ اسکی داد رسی کی جائے گی۔ عدالتی مقدمات میں الجھے شہری یہ سوچ کر امید اور بے امیدی میں مبتلا رہتے ہیں کہ انہیں انصاف نصیب ہو گا بھی یا نہیں۔ حق سچ کی لڑائی لڑتا صحافی اور اسکے عزیر و اقارب اس کی جان اور نوکری کے تحفظ کے حوالے سے خدشات میں مبتلا رہتے ہیں۔
ہمارے سیاستدانوں، ہمارے میڈیا، ہمارے دانشوروں اور ہمارے اساتذہ کو اس نکتے پر ضرور غور کرنا چاہیے کہ پاکستان میں ایک آئین،قانونی نظام، مضبوط عدلیہ اور سیکیورٹی اداروں کے باوجود ایک عام شہری اپنے آپ کو غیر محفوظ یا لاوارث کیوں محسوس کرتا ہے؟وہ خوفزدہ یا ہراساں کیوں رہتا ہے؟ اگر آئین، قانون، رکھنے کے باوجود ہم اپنے شہری کو وہ اعتماد نہیں دے سکتے جو آئین اور قانون کا لازمی تقاضا ہے تو پھر ہمیں ضرور سوچنا اور اس مسئلے کا کوئی حل نکالنا ہو گا۔ اگر کوئی شخص معاشرے کا حصہ ہوتے ہوئے بھی یہ محسوس کرنے لگے کہ اس کے آس پاس جنگل ہے تو یہ ایک اجتماعی مسئلہ ہے۔