منتخب تحریریں

ذہنی پولیو

Share

جسمانی پولیو عذاب ہے لیکن اس سے بڑا عذاب ذہنی پولیو ہے۔ معاشرہ فکری اور نظری اعتبار سے اپاہج ہو جائے تو زندہ دکھائی دینے کے باوجود، زندگی سے محروم ہو جاتا ہے۔ حریتِ فکر کی فکر کیجیے کہ ہمارے معاشرے کو اس سے محروم کیا جا رہا ہے۔
سیدنا عمرؓ نے ریاست ہی نہیں، سماج کو بھی نئی رفعتوں سے آشنا کیا۔ علامہ اقبال نے آزادیٔ رائے کے باب میں انہیں امت کا امام کہا ہے (The first critical and independent mind in Islam)۔ سید نذیر نیازی نے علامہ کے انگریزی الفاظ کا ترجمہ کیا ہے ”وہ اس امت کے اولین دل و دماغ ہیں جو ہر معاملے میں آزادیٔ رائے اور تنقید سے کام لیتے تھے‘‘۔ اقبال نے عہدِ رسالت کے جس واقعہ کو بطور مثال پیش کیا ہے، اگر میں نقل کروں تو بہت سی جبینیں شکن آلود ہو جائیں۔
حضرت عمرؓ کے ہاتھ میں کوڑا تو تھا لیکن مجرموں کے لیے، آزادیٔ رائے کو دبانے کے لیے نہیں۔ ایسا ہوتا تو سب سے پہلے اس خاتون کی پیٹھ پر برستا جس نے سِرعام ان کے فیصلے کو چیلنج کیا جب انہوں نے حق مہر کی تحدید کرنا چاہی‘ یا پھر اُس پر جس نے ان کے کُرتے پر سوال اٹھایا تھا۔ بر سبیلِ تذکرہ ان کے ہاتھ میں ہر وقت تازیانہ بھی بعد میں آنے والوں نے پکڑایا۔
میرا برسوں کا مشاہدہ یہ ہے کہ ‘اتحاد بین المسلمین‘ وہ نعرہ ہے جو ہر مسلک کا علمبردار بلند کرتا ہے لیکن اُس پر دل سے کوئی یقین نہیں رکھتا۔ میرا یہ خیال دن بدن پختہ سے پختہ تر ہوتا جا رہا ہے کہ جیسے جیسے کوئی ایک مسلک سے وابستگی میں بڑھتا چلا جاتا ہے، وہ اس نعرے سے عملاً دور ہوتا چلا جاتا ہے۔ ترتیب یہ ہے کہ سب مل کر ایک کو دائرہ اسلام سے خارج کریں۔ پھر اس کارِ خیر کو سرانجام دینے کے بعد اگلا شکار تلاش کریں۔
برسوں پہلے کی بات ہے، میں راولپنڈی کے ایک بڑے مدرسے ‘تعلیم القرآن‘ کے ایک جلسے میں شریک تھا جس کا عنوان ختمِ نبوت تھا اور اس میں سب مسالک کے لوگ شریک تھے۔ اس مدرسے کا تعلق دیوبندی مکتبِ فکر سے ہے۔ جلسے میں معروف شیعہ عالم ع غ کراروی بھی شریک تھے۔ انہوں نے اپنی تقریر کا آغاز کیا تو کہا ”آج میں بھی چار یاری ہو گیا ہوں‘‘۔ سامعین نے یہ سنا تو نعروں سے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ سامعین کی اکثریت ظاہر ہے کہ دیوبندی تھی۔ نعروں کا شور کم ہوا تو کراروی صاحب نے اپنے جملے کی شرح کی۔ یہ شرح کچھ یوں تھی کہ آج ختمِ نبوت کے مسئلے پر دیوبندی، بریلوی، اہلِ حدیث اور شیعہ، سب ایک ہو گئے۔ اس لیے میں بھی ان چار یاروں میں شامل ہو گیا۔ وما علینا الا البلاغ۔ اس کے بعد سامعین پر جیسے اوس پڑ گئی۔ پھر میں نے اسی مدرسے میں ان چار یاروں میں سے ایک کے لیے ‘کافر کافر‘ کے نعرے سنے۔
ہزاروں صفحات لکھے اور چھپے ہوئے موجود ہیں کہ مذہبی معاملات میں ایک دوسرے سے اختلاف کے نتیجے میں لوگوں نے انتہائوں کو چھوا ہے۔ صرف مولانا مودودی کے بارے میں دیوبندی اکابر کی تحریریں پڑھ لیں تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا۔ میرے علم میں نہیں کہ اتحاد بن المسلمین کے داعین میں سے کسی ایک نے اپنے اکابر کی آرا سے رجوع یا اعلانِ برأت کیا ہو۔
‘اتحاد بین المسلمین‘ کے نعرے سے نقاب الٹنے کے لیے اکثر ایک واقعہ کفایت کرتا ہے۔ لوگ دوسروں کے بارے میں اصل خیالات سامنے لے آتے ہیں۔ کبھی یہ کام شریعت بل نے کیا تھا اور کبھی ‘عورت کی حکمرانی‘ نے۔ مشرقِ وسطیٰ کی سیاست بھی اس کارِ خیر میں اپنا حصہ ڈالتی رہی ہے۔ یہ کارنامہ اس بار ‘تحفظِ بنیادِ اسلام بل‘ نے سرانجام دیا۔
ہمارے پاس اب دو راستے ہیں: ایک یہ کہ بین المسلمین اتحاد جیسے نعروں سے نکلیں اور حقیقت کے اعتراف کے ساتھ ایک لائحہ عمل بنائیں۔ اس کے لیے اتحاد بین المسلمین کے بجائے مکالمہ بین المسلمین ضروری ہے۔ دوسرا یہ کہ مذہب کے معاملے میں ریاست کی مداخلت کو ان حدود میں مقید کر دیا جائے جو فطری ہیں اور دنیا بھر میں ریاستیں جن کا لحاظ رکھتی ہیں۔
مسلمانوں میں اختلاف کیوں ہے؟ اس کا ایک سبب سیاسی ہے جو فرقہ واریت کی بنیاد بنا۔ ایک‘ کسی متن کی تفہیم کا فطری اختلاف ہے جس نے مسلکی تقسیم کو جنم دیا۔ سیاسی اختلاف رکھنے والوں نے جب مذہبی جذبات کو استعمال کیا تو اپنے اختلاف کو مذہب کا لبادہ اوڑھا دیا اور دینی نصوص کی ایسی تعبیر کی جو ان کے سیاسی موقف کی تائید کرے۔ یوں نتیجے کے طور پر فقہی اختلاف اب تاویل کا اختلاف ہے۔ اسباب کے اختلاف کے ساتھ، ہم کہہ سکتے ہیں کہ اِس وقت جو گروہ خود کو مسلمان کہتے ہیں، وہ سب ایک ہی ماخذ کی مختلف تعبیرات کو قبول کیے ہوئے ہیں۔
یہ کسی طور ممکن نہیں کہ سارے مسلمان کسی ایک تعبیر پر جمع ہو جائیں۔ اب صورت یہ ہے کہ جو قرآن و سنت کو دین کی اساس مانتا ہے‘ اس کو یہ حق دیا جائے کہ وہ ان کی جو تعبیرچاہے اختیار کر لے۔یعنی جو اللہ کے آخری رسول سیدنا محمدﷺ کو مُنزل من اللہ کا واحد ماخذ مانتا ہے، لیکن آپ سے روایت کے کسی مختلف طریقے کو قبول کرتا ہے، اسے یہ حق دے دیا جائے۔ اس میں شبہ نہیں کہ سب تعبیرات بیک وقت درست نہیں ہو سکیں لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس تنوع کو ختم کرنا ممکن نہیں ہے۔
اس صورت میں سوال یہ نہیں کہ حق کیا ہے اور باطل کیا۔ اصل سوال یہ ہے کہ اس اختلاف کے ساتھ رہنے کی کوئی تدبیر سوچی جائے۔ اس کے ساتھ سماج میں علمی سطح پر مکالمہ جاری رہے جس میں سب تعبیرات کے دلائل سامنے آ جائیں۔ لوگوں کو یہ حق دیا جائے کہ وہ جس کو درست سمجھیں قبول کر لیں۔
اس باب میں ریاست کی مداخلت ایجابی نہیں؛ سلبی ہو‘ یعنی مثبت کے بجائے منفی ہو۔ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ کوئی مکالمے اور اختلاف کے مسلمہ آداب سے تجاوز نہ کرے اور اگر کوئی کرے تو اس کو سزا دی جائے۔ ریاست کو اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں ہونی چاہیے کہ کسی کا عقیدہ کیا ہے اور کون اسلام کی کس تعبیر کو مانتا ہے۔ ریاست کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ کسی فرد یا گروہ کو اسلام کی کوئی خاص تعبیر اختیار کرنے کا پابند بنائے۔ یہ مداخلت فی الدین ہے اور بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے۔
اس باب میں ریاست سے فاش غلطیاں ہوئی ہیں۔ اب ان کے انڈے بچے نکل رہے ہیں۔ ہماری ریاست کو چاہیے تھا کہ وہ دنیا کے تجربات سے فائدہ اٹھاتی۔ دنیا میں ہر جگہ مذہبی تنوع پایا جاتا ہے لیکن جس ملک میں ریاست کی مداخلت جتنی کم ہے وہاں مذہبی اختلاف اتنا ہی کم ہے اور اس کے ساتھ مذہب بھی فروغ پا رہا ہے۔ جہاں ریاستی مداخلت زیادہ ہے وہ مذہب مسئلے کا حل نہیں، اس کا حصہ ہے۔
‘تحفظِ بنیادِ اسلام بل‘ نے اتحاد بین المسلمین کی حقیقت، مذہبی اختلاف کی نوعیت اور مذہب و ریاست کے تعلق جیسے مسائل کے باب میں ریاست اور علما کی کمزوری کو پوری طرح واضح کر دیا ہے۔ اس نے ہمیں موقع دیا ہے کہ اس مسائل کے حل کی کوئی ایسی تدبیر تلاش کریں جو ایک طرف سماجی امن کو برقرار رکھے اور دوسری طرف علمی ارتقا اور فکری بالیدگی کو یقینی بنائے۔ ریاست، صاف دکھائی دیتا ہے کہ مذہبی اختلاف کو بنیاد بنا کر آزادیٔ رائے کے دائرے کو محدود سے محدود تر کر دینا چاہتی ہے۔ یہ سماج کو ذہنی پولیو میں مبتلا کرنا ہے۔ کاش اس ملک کا دانش ور معاملے کی سنگینی کو جان سکتا!