صحت

کیا مائیکرو ویو میں گرم کیا ہوا کھانا صحت کے لیے محفوظ ہے؟

Share

کچن میں سب سے زیادہ زیرِ استعمال رہنے کے باوجود مائیکرو ویو سے زیادہ کسی اور مشین پر آرا تقسیم نہیں ہیں۔ وہ لوگ جو کھانا پکانا نہیں جانتے ہیں یا پکا نہیں سکتے ہیں وہ تو اس کی تعریفوں کے پُل باندھ دیتے ہیں تاہم پیشہ وار شیف (باورچی) حضرات کے لیے یہ مشین کھانا پکانے کے فن کو گٹر میں ڈبو رہی ہے۔

لیکن کھانا پکانے کے تنازع سے بھی آگے کی ایک بحث ہے کہ کب مائیکرو ویو سے کھانا پکانا مضرِ صحت ہو جاتا ہے؟

عالمی ادارہ صحت کی ہدایات بتاتی ہیں کہ اگر مائیکرو ویو کا صحیح استعمال کیا جائے تو اس سے نکلنے والی تابکاری شعائوں کے حوالے سے پریشان ہونے کی بات نہیں۔ تاہم اس حوالے سے دیگر تشویش والی باتیں کم واضح ہیں۔

جن میں یہ بات بھی شامل ہے کہ کیا مائیکرو ویو سے پکنے والی خوراک کی غذائیت متاثر ہوتی ہے یا یہ کہ آیا پلاسٹک کے برتنوں میں کھانے کو گرم کرنے سے انسانی جسم کے ہارمونز میں مسائل پیدا ہوتے ہیں۔

غدائیت میں کمی

اس حوالے سے کی گئی تحقیق کے مطابق مائیکرو ویو میں پکنے سے سبزیوں کی غذائیت میں کمی واقع ہوتی ہے۔

مثال کے طور پر مائیکرو ویو میں پکنے والی سبزیوں کے متعلق پتا چلا کہ یہ ’فلیوونائیڈ‘ کہلانے والے نباتات کا ایک گروہ جِس میں سفید اور زرد مادّے قُدرتی طور سے پائے جاتے ہیں، اُن کو 97 فیصد تک ختم کر دیتا ہے۔ یہ ابال کر پکانے کی نسبت ایک تہائی زیادہ خاتمہ ہے۔

مائیکرو ویو

تاہم بروکلی، گوبھی کی ایک قِسم، کی مائیکرو ویو میں پکنے کی وجہ سے غذائیت میں کمی پر سنہ 2019 میں کی جانے والی تحقیق میں نشاندہی کی گئی کہ اس معاملے پر ماضی میں کی جانے والی تحقیقات نے پکنے کے وقت، درجہ حرارت، اور پکتے وقت بروکلی پانی میں ڈوبی ہوئی تھی یا نہیں جیسی مختلف باتوں کا مطالعہ کیا گیا ہے۔

اس تحقیق سے پتا چلا کہ جب انھوں نے بروکلی کو ایک منٹ کے لیے مائیکرو ویو میں پکایا تو اس کے غذائی اجزا کو بالکل کم نہیں ہوئے۔

بھاپ (سٹیم) یا مائیکرو ویو میں پکنے سے شاید ’فلیوونائیڈ‘ میں بہتری آتی ہے جن کا دل کے امراض کے خطرے میں کمی لانے میں ایک کردار ہے۔

ان محققین نے لکھا کہ ’مطالعے کے دوران یہ معلوم ہوا کہ پکانے کے وقت کے حالتِ کار میں مائیکرو ویو کے استعمال سے ’فلیوونائیڈ‘ کو بھاپ کے مقابلے میں بہتر انداز میں محفوظ ہوتا ہے۔’

تاہم انھیں یہ بھی پتا چلا کہ بہت زیادہ پانی کے ساتھ مائیکرو ویو میں پکانے سے ’فلیوونائیڈ‘ کی مقدار کم ہو گئی۔

امریکہ کے محکمہ زراعت کے بیلٹس وائل ہیومن ریسرچ سینٹر کے سائنسدان ژین لی وُو کہتے ہیں کہ اس بارے میں کوئی متفقہ میکینزم نہیں ہے جو یہ وضاحت دے سکے کہ مائیکرو ویو کس طرح ’فلیوونائیڈ‘ کی مقدار کو بڑھا سکتا ہے۔

شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ مائیکرو ویو میں ’فلیوونائیڈ‘ کی مقدار کو ماپنا زیادہ آسان ہے، یا شاید ان نباتات کے ٹِشوز کو نرم کرنے سے ان کو جدا کر کے ان کو ماپنا آسان ہوتا ہے، بنسبت اس کے کہ ان کی مقدار میں اضافے کے بارے میں جانا جائے۔

بہرحال اس بارے میں کوئی ایک سیدھا سادہ جواب نہیں ہے کہ آیا مائیکرو ویو میں سبزیوں کے پکانے کے علاوہ کسی اور طریقے سے طریقے سے ان میں غذائیت برقرار رہے گی۔

ژین لی وُو کے مطابق، اس کی وجہ یہ ہے کہ خوراک کی ہر قسم اپنی شکل و صورت اور غذائیت کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہے۔

وُو نے کہا کہ ’اگرچہ عموماً مائیکرو ویو میں کھانے کی تیاری کو ترجیح دی جاتی ہے، لیکن ہر سبزی کے لیے اُس کے پکنے کے لیے موزوں ترین وقت ہر ایک کا اپنا اپنا ہو گا۔

’جب ہم گھروں میں پکائے جانے والے عام طریقوں کو دیکھتے ہیں تو کم از کم نباتات سے حاصل کی گئی زیادہ تر غداؤں کو مائیکرو ویو پر پکائے جانے کو ترجیح دی جاتی ہے، لیکن شاید ان سے لی گئی ہر غذا کو نہیں۔‘

ایک اور تحقیق کے مطابق، محقیقین نے بھاپ سے تیار ہونے والی سبزیوں سے، مائیکرو ویو میں پکنے والی اور ابلنے والی سبزیوں میں پائے جانے والے ’فینولِک‘ کے اجزا کا موازنہ کیا، فینولِک وہ مرکبات ہوتے ہیں جن سے صحت کے لیے کئی فائدے وابستہ ہوتے ہیں۔

مائیکرو ویو اور بھاپ میں کدو، مٹر اور گندنے کے پکنے کی وجہ سے اس کے فینولِک اجزا میں کمی واقع ہوئی جبکہ ساگ، شملہ مرچیں، بروکلی اور سبز پھلیوں میں کمی واقع نہیں ہوئی۔ ان محققین نے اینٹی آکسیڈینٹ ایکٹیویٹیز کا بھی جائزہ لیا، اینٹی آکسیڈینٹ عمل تکسید کو روکنے والا عمل ہوتا ہے جو خصوصاً کھُلی ہوا میں رکھی ہوئی اشیا کے تحفظ کے لیے اِستعمال ہوتا ہے۔

دونوں معیاروں کے مطابق سبزیوں کی غدائیت ابال کر پکانے کی نسبت مائیکرو ویو میں زیادہ بہتر برقرار رہی۔

محققین کے مطابق شاید ابال کر پکانے کی نسبت مائیکرو ویو کے ذریعے پکانے سے چند سبزیوں کی غذائی خصوصیات بہتر حالت میں برقرار رہتی ہیں۔

مائیکرو ویو

پلاسٹک کو گرم کرنا

ہم اکثر اوقات کھانوں کو پلاسٹک کنٹینر یا کور میں رکھ کر مائیکرو ویو میں گرم کرتے ہیں۔ اس بارے میں چند سائنسدان اس کے فیتھلیٹ جیسے اجزا کے پیٹ میں جانے کے خطرات کے بارے میں خبردار کرتے ہیں کہ یہ انسانی صحت کے لیے مضر ہوتا ہے۔ جب انھیں گرم کیا جاتا ہے تو پلاسٹک کے اجزا خوراک میں شامل ہو جاتے ہیں۔

امریکہ کی واشنگٹن سٹیٹ یونیورسٹی میں فوڈ انجینیئرنگ پروفیسر جُمنگ ٹینگ کہتے ہیں کہ ’پلاسٹک کی کچھ اقسام مائیکرو ویو کے لیے تیار ہی نہیں کی گئی ہیں کیونکہ ان میں پولیمر مرکب شامل ہوتا ہے جو اسے نرم اور لچکدار بناتا ہے اور وہ مائیکرو ویو میں 100 سیلسیس درجہ حرارت سے زیادہ گرم ہونے کی صورت میں پگھل جاتا ہے۔

سنہ 2011 کی ایک تحقیق کے مطابق، محققین نے غذا محفوظ کرنے والے 400 کے قریب کنٹینر خریدے، تجربات کیے اور ان پر آشکار ہوا کہ ان میں سے اکثر ایسے کنٹینر تھے جن میں سے ایسے کیمیائی مرکبات رستے تھے جو انسانی جسم میں ہارمونز کو متاثر کرتے تھے۔

فیتھلیٹس پلاسٹک کی اشیا بنانے میں کافی استعمال ہوتے ہیں جن سے پلاسٹک کو نرم اور لچکدار بنایا جاتا ہے یا کھانے کے کنٹینروں میں، پانی کی بوتلوں میں اور کھانے کو کور کرنے والے کنٹینروں اور ان کے کوروں میں کھانا سپلائی کرنے والے ریستورانوں میں کافی زیادہ استعمال ہوتے ہیں۔

ان کے متعلق پتا چلا ہے کہ ان کی وجہ سے انسانی جسم میں ہارمونز متاثر ہوتے ہیں اور غذا کے معدہ میں ٹوٹنے کا عمل مشکلات کا شکار ہوتا ہے۔

بچوں میں فیتھلیٹس خون کے دباؤ میں اور انسولین کی مزاحمت میں بھی اضافہ کر سکتا ہے۔ جس کی وجہ سے ذیابیطس اور نفسیاتی مرض پیٹ میں خوراک کے اجزا کے ٹوٹنے کا عمل متاثر کرتے ہیں۔

ان مضرِ صحت پلاسٹک کے اجزا کا تولیدگی، دما اور اعصابی بیماریوں سے بھی تعلق دریافت کیا گیا ہے۔

نیو یارک یونیورسٹی میں آبادیاتی صحت اور ماحولیاتی ادویات کے پروفیسرلیونارڈو ٹراسانڈے کہتے ہیں کہ فیتھلیٹس سے تھائیرائیڈ ہارمون کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ دیگر فوائد کے علاوہ یہ متاثر ہونے والے ہارمونز حاملہ عورتوں کے پیٹ میں بچوں کی ذہنی نشو و نما کے لیے بہت ضروری ہوتے ہیں۔

بسفینول ایک مرکب ہے جو پلاسٹک کی مصنوعات میں کافی زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ اس کے بارے میں بھی تحقیقی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ اس سے بھی ہارمونز متاثر ہوتے ہیں۔ تاہم اس کے بارے میں فیتھلیٹس کی نسبت تحقیقات محدود ہیں۔

فیتھلیٹس ہر جگہ موجود ہیں یہاں تک کہ بچوں کے کھلونوں اور باڈی لوشنز میں بھی ہیں اور اس کے بارے میں بھی کم معلومات ہیں کہ ان سے انسانی جسم کو کتنا نقصان پہنچتا ہے۔ تاہم سائنسدانوں کی ایک بڑی تعداد اس بات پر متفق ہے کہ فیتھلیٹس والے پلاسٹک خطرہ بڑھاتے ہیں۔

امریکہ کی اریزونا یونیورسٹی میں ماحولیاتی انجینیئرنگ کے پروفیسر رالف ہیلڈن کہتے ہیں کہ ’مائیکرو ویو میں آلودگی متحرک ہوتی ہے۔ اس طریقے کا استعمال لبارٹریوں میں کیا جاتا ہے جس سے مختلف نمونوں سے کسی کیمیائی تجزیے سے پہلے آلودگیوں کو الگ کیا جاتا ہے۔

ٹریسانڈے کہتے ہیں کہ مائیکرو ویو میں ہم کتنی مرتبہ کھانا گرم کرتے ہیں اور اس سے پیدا ہونے والے خطرات ضروری نہیں کہ بڑھ جائیں۔۔۔ کیونکہ فیتھلیٹ کو کتنی مرتبہ گرم کیا گیا ہے اور اس کا ہارمونز کے متاثر ہونے کے خطرے سے کتنا تعلق ہے، اسے کسی گراف میں خط مستقیم پر ظاہر نہیں کیا جا سکتا ہے۔

مائیکرو ویو

ٹریسانڈے کہتے ہیں کہ ’پرانے نظام تعلیم کے مطابق خوراک کی مقدار زہر کے اثر کو طے کرتی تھی لیکن اب کئی طریقوں سے تحقیق کرنے کے بعد ہم اس خیال پر پہنچے ہیں کہ کم خطرہ ان جگہوں پر ہوتا ہے جہاں اثرات کے کافی زیادہ نتائج بنتے ہیں، اس لیے اب خطرے کی کسی بھی مقدار کو محفوظ نہیں سمجھا جاتا ہے۔‘

اس بات کا یاد رکھنا ضروری ہے کہ جب کھانے کو پلاسٹک کنٹینر میں گرم کیا جائے تو وہ پلاسٹک مائیکرو ویو کی حدت کی وجہ سے خوراک کو متاثر کرے گا چاہے وہ پلاسٹک خوارک سے مس بھی نہ ہو رہا ہو۔ جیسے کے ایک ڈھکنا ہوتا ہے، جو خوراک کو چھو نہیں رہا ہوتا ہے لیکن گرم ہونے کی صورت میں اس سے کھانا متاثر ہو گا۔

کنٹینر میں کھانے کے گرم ہونے کی صورت میں اس میں سے پانی بھاپ کی صورت میں اٹھتا ہے، اور اس ڈھکنے کی اندرونی سطح پر کھانے میں سے نکلنے والا کیمیکل بھاپ کے پانی کے ساتھ دوبارہ سے کھانے پر قطروں کی صورت میں گرتا ہے۔

اس کے نقصانات کو کم سے کم کرنے کے لیے کھانے کو ایسے میٹریل میں گرم کرنا چاہیے جو پلاسٹک کے نہ بنے ہوئے ہوں جیسا کے سرامک پلیٹیں ہیں۔ اگر آپ پھر بھی پلاسٹک کی پلیٹیں استعمال کرتے ہیں تو ایسی پلیٹوں کے استعمال سے گریز کریں جن کی شکل بگڑ گئی ہو، کیونکہ پرانی اور خراب حالت کی پلاسٹک کی پلیٹوں میں سے کیمیکل کے اخراج کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔

آپ اپنے کنٹینروں پر یونیورسل ری سائیکلنگ کا نشان بھی چیک کر سکتے ہیں جو کے ایسی مصنوعات کے پیندے میں لگے ہوتے ہیں، جن پر ’3‘ کا ہندسہ اور ‘V’ اور ‘PVC’ لکھا ہوتا ہے جو فیتھلیٹس کی موجودگی کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔

مائیکرو ویو

کھانا گرم کرنے کے خطرات

آپ چاہے پلاسٹک کا استعمال نہ بھی کریں مائیکرو ویو میں کھانا گرم کرنے کے کئی دیگر نقصانات بھی ہیں، جن میں بے ترتیبی سے گرم کرنے کا عمل اور بہت زیادہ درجہ حرارت کے ساتھ گرم کرنے کا عمل بھی شامل ہے۔

پہلے مائیکرو ویو کو پکے ہوئے کھانے کو دوبارہ سے گرم کرنے کے استعمال پر غور کریں بجائے اس کے کہ اس میں کھانا تیار کرنے کا سوچیں، کیونکہ امکان ہے کہ یہ بے تریبی سے یعنی ایک ہی طرح سارا کھانا نہ پکا پائے گا۔

یونیورسٹی آف جارجیا کے فوڈ سیفٹی کے پروفیسر فرانسیسکو ڈئیز۔گونزالیز کہتے ہیں کہ ’اس کا اس بات پر انحصار ہے کہ آپ کھانے کا کتنا حصہ گرم کرتے ہیں، اس کھانے کا کچھ حصہ دوسرے حصے کی نسبت زیادہ گرم ہو گا۔‘

’گرم کیے جانے والے کھانے کا درجہ حرارت مختلف جگہوں پر مختلف ہو گا۔ کھانے کی ہر سطح یا جگہ پر ایک جیسا درجہ حرارت ہونا بہت مشکل ہے، خاص کر جب ہم کچا کھانا پکانے کی بات کریں۔‘

لیکن اہم بات یہ ہے کہ پکے ہوئے کھانے کو دوبارہ سے گرم کرنے کے اپنے مضمرات بھی ہیں۔ کھانے کے ہر حصے کو نقصان دہ بیکٹیریا سے پاک کرنے کے لیے 82 سیلسیس درجہ حرارت تک گرم کرنا ضروری ہے اور کھانے کے ٹھندا ہونے پر بیکٹیریا پھر سے پیدا ہو سکتے ہیں۔ آپ کو ایک مرتبہ سے زیادہ دوبارہ کھانا گرم نہیں کرنا چاہیے۔

مائیکرو ویو

مائیکرو ویو کا زیادہ درجہ حرارت بھی خطرات کا باعث ہو سکتا ہے۔ عام طور پر زیادہ درجہ حرارت سے کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے لیکن چند ایک تحقیقات اشارہ دیتی ہیں کہ جڑوں والی سبزیوں اور دلیا سمیت نشاستہ دار خوراک کو زیادہ درجہ حرارت پر گرم کرنے سے نقصان کے امکانات بنتے ہیں۔

اسرائیل کی القدس میں ہیبریو یونیورسٹی کے غدائیت کی سائنس کے پروفیسر بیٹی شوارٹز نے اپنے سٹوڈنٹس کو دوپہر کے کھانے کے وقفے کے دوران آلوؤں کو مائیکرو ویو میں گرم کرتے ہوئے دیکھا کہ ان میں آلوؤں کے اندر چھوٹے چھوٹے شیشے کی طرح کی قلمیں بن رہی تھیں۔

جب اُس نے ان کا تجزیہ کیا تو اسے پتا چلا کہ ان میں ایکریلامائیڈ کیمیائی مرکب کی مقدار زیادہ تھی۔ یہ مرکب کھانا پکاتے ہوئے قدرتی طور پر ایک اضافی تیل کے طور پر پیدا ہوتا ہے۔

شوارٹز نے ’طلبہ کو کہا کہ وہ مائیکرو ویو میں آلو پکانے کی بجائے انھیں پانی میں ابال کر پکائیں، اس سے پتا چلا کہ اب آلوؤں میں ایکریلامائیڈ کی مقدار کم پیدا ہوئی تھی، جو ان کے مطابق مائیکرو ویو میں زیادہ درجہ حرارت کی وجہ س پیدا ہوتے ہیں۔

اس بارے میں تشویش پائی جاتی ہے کیونکہ جانوروں میں اس کے مطالعے کے بعد پتہ چلا ہے کہ ایکرلامائیڈ کارسینوجن کی طرح کام کرتا ہے یعنی کینسر پیدا کرتا ہے کیونکہ یہ ڈی این اے سے چھیڑ چھاڑ کرتا ہے، لیکن ان کے انسانوں میں اس کینسر پیدا کرنے کے بارے میں تحقیق محدود ہیں۔

اس بارے میں کی جانے والی تحقیق کہتی ہیں کہ کھانا پکانے کے دیگر طریقوں کی نسبت مائیکرو ویو ایکریلامائیڈ کے پیدا ہونے کے لیے زیادہ ساز گار ماحول مہیا کرتا ہے۔

شوارّز کے مطابق ‘100سیلسیس درجہ حرارت پر اتنی توانائی پیدا ہو جاتی ہے جو مالیکیولز کے خود کار جوڑوں میں تبدیلی پیدا کردیتی ہے جس کی زیادہ توانائی سے ایک نیا مالیکیول پیدا ہوتا ہے جو ڈی این اے کے خلاف کام کرتا ہے، اور پھر اس سے ان مالیکیولز میں نیا تغیر جنم لیتا ہے۔ اور جب اس طرح بہت زیادہ تغیرات پیدا ہوتے ہیں تو ان سے کینسر پیدا ہوسکتا ہے۔‘

جانوروں کے مطالعے سے یہ ثابت ہوا ہے کہ ایسا ان میں ہوتا ہے۔ ان میں ایک طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ مائیکرو ویو میں پکانے سے پہلے آپ آلوؤں کو پانی میں ڈبو دیں۔

مائیکرو ویو

ریڈیائی شعاؤں سے تحفظ

جہاں تک مائیکرو ویو کی ریڈیائی شعاؤں کا تعلق ہے یہ مکمل طور پر بے ضرر ہیں۔ مائیکرو ویو میں الیکٹرانک ریڈیائی لہریں بہت خفیف ہوتی ہیں۔

اتنی ہی خفیف جتنی کہ ریڈیو یا ایک بجلی کے بلب کی ہوتی ہیں۔ جب آپ مائیکرو ویو میں کھانا رکھتے ہیں تو یہ ایسی خفیف لہروں کو جذب کر لیتا ہے جو کھانے میں پانی کے مالیکیولز میں ارتعاش پیدا کرتا ہے، جس سے ان میں ٹکراؤ ہوتا ہے اور کھانا گرم ہوتا ہے۔

ٹینگ کہتے ہیں کہ انسان بھی الیکٹرومیگنیٹکس لہریں کو جذب کرتے ہیں۔ لیکن مائیکرو ویو نسبتاً بہت خفیف معیار کی لہریں پیدا کرتا ہے جو مائیکرو ویو کے اندر ہی محدود رہتی ہیں۔

فرض کریں کے اگر ایسا نہ ہوتا تب بھی یہ لہریں بے ضرر ہوتی ہیں۔ (اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مائیکرو ویو کی حدت بے ضرر نہیں ہے، لہٰذا آپ کسی بھی زندہ مخلوق کو اس میں مت ڈالیں۔

ٹینگ کہتے ہیں کہ ’مائیکرو ویو کی لہریں ان الیکٹرومیگنیٹک لہروں کا حصہ ہیں جن سے ہمیں روز مرہ کی زندگی میں سابقہ رہتا ہے۔ جب آپ ڈبل روٹی تیار کرتے ہیں آپ تنور سے نکلنے والی حدت کی وجہ سے الیکٹرومیگنیٹک لہروں اور انفرا ریڈ انرجی کے سامنے ہوتے۔ یہاں تک کہ لوگ آپس میں ریڈیو ایکٹو شعاؤوں کا تبادلہ کر رہے ہوتے ہیں۔‘

‘اگر آپ سورج کی شعاؤوں میں پکائی ہوئی فصل کو کھا رہے ہیں تو پھر آپ کو مائیکرو ویو میں تیار کیے گئے کھانے کے بارے میں کوئی تشویش نہیں ہونی چاہیے۔‘

ایکس ریز کے برعکس، مائیکرو ویو آئیونازنگ ریڈییشن (آئیونی تابکاری) استعمال نہیں کرتے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ ان میں اتنی توانائی نہیں ہوتی ہے کہ یہ الیکٹران کو ایٹم سے جدا کرسکیں۔

جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے میڈیکل سینٹر میں پروفیسر آف ریڈی ایشن میڈیسن ٹموتھی جارگینسن کہتے ہیں کہ ’ڈی این اے کو نقصان پہنچانے کے لیے آپ کو کیمیا بانڈ کو توڑنا پڑتا ہے۔ تابکاری اثرات سے لاکت کا یہ سب سے بڑا طریقہ ہیں۔۔۔ اس سے خلیوں میں تغیر پیدا ہوتا ہے اور کینسر شروع ہوتا ہے۔‘

جارگنسین کہتے ہیں کہ مائیکرو ویو کے تابکاری اثرات کے بارے میں تشویش کا آغاز اس کے ایجاد ہونے کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا۔

خاص کر امریکی فوج کے میساچیوسٹ ریاست میں ایک تحقیقی ادارے آرمی نیٹک ریسرچ اینڈڈیویلپمنٹ لباریٹریز میں مائیکرو ویوکے بارے میں خدشات اور خوف کو دور کرنے کے لیے اس کی سیفٹی کے بارے میں سائینس دانوں نے کافی ریسرچ کیں۔

ایک تحقیق کے مطابق، جب بھی مائیکرو ویو میں کھانا بنانے کا خیال آتا ہے تو بہت کچھ سوچنا پڑتا ہے۔

مائیکرو ویو کو کچن کا ایک محفوظ اپلائینس تصور کیا جاتا ہے لیکن اس کے ساتھ کچھ قباحتیں بھی ہیں اور خاص طور پر ماہرین اب بھی پلاسٹک کے ڈبوں یا کنٹینروں کے بارے میں اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہیں کہ انھیں مائیکرو ویو میں استعمال کرنے سے ہمارے ہارمونز ماتثر ہوتے ہیں جن کے صحت خراب ہو سکتی ہے۔