کالم

جانے والے یہاں کے تھے ہی نہیں

Share

یوں تو کورونا وائرس سے مرنے والوں کی تعداد دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔ روزبروز دنیا بھر سے پہلی خبر یہی ہوتی ہے کہ فلاں ملک میں کورونا سے مرنے والوں کی تعداد اتنے ہزار ہوگئی۔ تاہم وہیں یہ بات بھی سچ ہے کہ مرنے والوں سے زیادہ تعداد اُن لوگوں کی بھی ہے جنہیں کرونا وائرس ہوا تھا اور وہ کسی طرح روبصحت بھی ہو گئے۔
ان لوگوں میں ہر عمر کے لوگ کے شامل ہیں اور کچھ تو اسّی سے نوے سال کے بھی لوگ ہیں۔ سنتے ہیں جینا اور مرنا تو اللہ کے ہاتھ میں ہے اور یہی سچ بھی ہے اور اسی پر ہمارا ایمان بھی ہے۔اگر ہم اپنی زندگی کا بغور مطالعہ کریں تو پچھلے چار مہینوں میں ہماری زندگی کئی معنوں میں بدلی ہے تو وہیں ہماری زندگی میں ایک ٹھہراؤ سا بھی آ گیا ہے۔مجھے اس بات کا احساس اور اندازہ ہے کہ دنیا بھر میں چاہے روز مرہ کی بات ہو یا کام و کاج کی بات یا سماجی طور پر،ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہماری زندگی میں ایک عجیب و غریب تبدیلی آ چکی ہے۔ اس تبدیلی کی وجہ ایک ہی ہے اور وہ ہے کورونا وائرس کی وبا اور اس کا خوف ہے۔
ایسا ہونا لازمی بھی ہے کیونکہ کورونا وائرس سے کسی ایک ملک یا سماج یا مذہب یا نسل متاثر نہیں ہوا بلکہ اس وبا نے پوری دنیا کو بیک وقت گھٹنوں کے بل گرا دیا ہے۔کہا جا رہا ہے کہ پچھلے سو برسوں میں ایسی کوئی بیماری یا مسئلہ نہیں ہوا تھاجب پوری دنیا بیک وقت الجھ کر رہ گئی ہو۔ کیا امیر، کیا غریب، کیا حکمراں تو کیا سرمایہ دار، گویا ہر طبقے کے انسان کو کورونا وائرس کی خوف نے پریشان کر دیا ہے۔ لیکن جہان انسان پریشانیوں میں مبتلا ہے تو وہیں وہ موت سے بھی کافی خوف زدہ ہے۔ظاہر سی بات ہے جس مرض کا جب کوئی علاج ہی نہ ہو تو خوف تو ہوگا ہی۔ اس کے علاوہ کورونا وائرس کے بارے میں کم جانکاری سے بھی دنیا کے بیشتر ممالک میں غلط فہمیاں پائی جا رہی ہیں۔ جس کانتیجہ یہ ہوا کہ اندھے عقائد کے ماننے والوں نے اپنے اپنے طور پر تھالی بجانے سے لے کر گوبر جلانے کی بات کرنے لگے جس سے کورونا تو نہیں بھاگا بلکہ کورونا کی دوسری لہر کے آنے کے امکان ضرور بڑھ گئے ہیں۔
مارچ کے مہینے میں جب برطانیہ دھیرے دھیرے کورونا وائرس کی لپیٹ میں آنا شروع ہوا تو برطانیہ کے تمام ہسپتال نے کورونا وائرس سے مریضوں اور اسٹاف کو محفوظ رکھنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کرنے شروع کر دیے۔ جن میں مریضوں کے رشتہ داروں کو ہسپتال جانے پر پابندی لگا دی گئی۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ مریضوں کو سب سے پہلے کورونا وائرس سے محفوظ رکھا جائے۔ اس کے علاوہ اسٹاف کی حفاظت کے لیے پی پی ای (پرسنل پروٹیکشن ایکویپمنٹ) بھی فراہم کیا جانے لگا۔ غیر طبی اسٹاف کو گھر سے کام کرنے کا احکام جاری کیا گیا۔ اور عام طور پر لاک ڈاؤن کا نفاذ کر دیا گیا تاکہ کورونا وائرس کو مزید پھیلنے سے روکا جا سکے۔اس کے باوجود برطانیہ میں اب تک کورونا وائرس سے پچاس ہزار سے زیادہ لوگوں کی موت ہوچکی ہے۔
انگریزوں میں سماجی میل ملاپ اور دنیا کی سیر کرنا کا کا ایک عام چلن ہے۔ برطانیہ میں اکثر لوگ موسمِ گرما میں لمبے دن ہونے کی وجہ سے گھروں سے باہر رہنا زندگی کا سب سے بہترین لطف مانتے ہیں۔ جو کہ کورونا وائرس کی وبا، خوف اور لاک ڈاؤن کی پابندی سے لوگ بالکل ہی نہیں کر پارہے تھے۔ اب تو پارک کو لوگوں کی سیر و تفریح کے لیے کھول دیا گیا ہے جس سے اب لوگ راحت کی سانس لے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ سوشل دوری بھی ایک دشورای بنی ہوئی ہے جس سے دفاتر یا اسکول وغیرہ یہ طے نہیں کر پارہے ہیں کہ اس کا کیا حل نکالا جائے۔ اس بات سے بھی اسپین جانے والے یا جانے کا ارادہ رکھنے والے سیاحوں کو سخت پریشانی ہوئی جب اچانک برطانوی حکومت نے اس بات کا اعلان کر دیا کہ اسپین سے لوٹنے والے سیاحوں کو دو ہفتے کے لیے قرنطینہ میں رہنا ہوگا۔ حکومت کے اس اعلان سے برطانوی سیاح کا فی ناراض ہیں کیونکہ انہیں برطانیہ واپس آکر کام دھندے سے گریز کرنا ہوگا جس سے ان کی آمدنی پر کافی اثر پڑے گا۔
ان تمام باتوں کے علاوہ میرے پچھلے کچھ ہفتے غم و مایوس میں گزرے جس میں آپ تمام لوگوں کو بھی شامل کرنا چاہوں گا۔ یوں تو دنیا بھر سے جاننے والوں کی موت کی خبر یں آرہی ہیں جن میں کچھ جاننے والے تھے اور کچھ دور کے رشتہ دار تھے۔ان میں ہی کچھ ایسے لوگوں کا بھی انتقال ہوا ہے جس سے دل غمزدہ ہے۔ سب سے پہلے عکاس کے مالک، مدیر اور ہر دلعزیز کریم رضا مونگیری کا نام لینا ضروری سمجھتا ہوں۔ ان کی موت کی خبر بھائی محمد اقبال (ڈبلو بی سی ایس) کلکتہ نے دی۔ اس سے قبل بھائی اقبال نے اس بات کا بھی اصرار کیا تھا کہ میں انہیں کال کر لوں جو کہ میں اپنی کوتاہی اور مصر وفیت کی بناپر نہ کر پایا جس کا مجھے سخت افسوس ہے۔ اس کے بعد میری خوشدامن کا حرکتِ قلب بند ہونے سے لندن میں انتقال ہوا۔ پھر پروفیسر نعیم انیس کلکتہ کے والد کے انتقال کی خبر ملی جس سے جی بھر آیااور اس کے چند دن بعد پروفیسر اعزاز افضل کے برادر نسبتی اور تنویر افضل (ڈبلو بی سی ایس) کے ماموں وحیدالنبی اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔
خوشدامن کی موت کی خبر کے بعد سوشل میڈیا پر لوگوں کی تعزیت کے پیغام سے آنکھیں نم ہوگئیں۔ اس کے علاوہ کچھ لوگوں نے فون کر کے بھی تعزیت کیا اور کچھ لوگ اچانک خاموش بھی ہوگئے۔ لیکن ان میں کئی لوگوں نے تعزیت کم اور میرا انٹرویو لینا زیادہ مناسب سمجھا۔ کیا بتائے لوگوں کی باتوں کو سن کر میں تھک سا گیا۔لیکن لوگ کہاں تھکنے والے، وہ تو عادت سے مجبور اپنے دل کی بھڑاس نکالنے میں مصروف تھے۔جس کی ایک وجہ شاید یہ ہے کہ میں لوگوں کی باتوں کو بغور سنتا ہوں جس کا اعتراف بہتوں نے کیا ہے اور جس سے ان کو بولنے میں حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ تاہم مجھے اس بات سے بھی کوفت ہوئی جب وہ غیر ضروری باتیں جو مرنے والے سے منسلک نہ تھی کئے جارہے تھے۔
اتوار 26جولائی کی صبح میری خوشدامن کا انتقال ہوا اور اسی دن ڈاکٹروں سے میڈیکل سرٹیفیکٹ لکھوا لیا تاہم اتوار ہونے کی وجہ سے ہسپتال کا (Beareavement Service)یعنی سوگوار سروس بند تھی جس کی وجہ سے میڈیکل سرٹیفیکٹ جاری نہ ہوسکا۔ لیکن دوسرے روز سوموار کو فون کرنے پر میڈیکل سرٹیفیکٹ جاری کر دیا گیا۔ اس کے بعد انگریز خاتون نے میڈیکل سرٹیفیکٹ ونڈسورتھ کونسل کے برتھ اینڈ ڈیتھ ریجسٹریشن آفس بھیج دیا جیاں ٹیلی فون پر مرنے والے کی تفصیل چیک کر کے ایک گرین سرٹیگیکٹ جاری کیا گیا۔ پھر اس گرین سر ٹیفیکٹ کو مسلم فیونیرل سروسزکو بھیجا گیا جس کے بعد انہوں نے لاش کو ہسپتال کے سرد خانے سے حاصل کیا۔ اس طرح سے ان تمام کاروائی اور کاغذات کو حاصل کرنے میں ایک دن گزر گیا۔ سوموار 27 جوالائی کی شام سات بجے میری بیگم اور چند دوستوں نے مردے کو غسل دیا اور پھر مسلم فیونرل سروس کی خواتین نے کفن پہنا کر دوبارہ سرد خانے میں لاش کو رکھ دیا۔
لندن اور برطانیہ میں جنازے کی تیاری میں ایک سے دس دن لگ جاتے ہیں جس کی ایک وجہ ضروری کاغذات اور کونسل کی اجازت لازمی ہے۔یوں تو مسلمانوں نے اب خود کا کئی قبرستان بنا لیا ہے لیکن زیادہ تر مسلمانوں کا قبرستان عیسائیوں کے قبرستان سے منسلک ہے جہاں بڑی تعداد میں مسلمان دفن ہوتے ہیں۔
28جولائی کی صبح دس بجے کونسل نے ہمیں دفنانے کی اجازت دی۔ ہمارے ساتھ تیس لوگ جنازے میں شامل ہوئے کیونکہ کورونا کی وجہ سے برطانوی حکومت نے شادی اور جنازے کے لیے صرف تیس لوگوں کو شریک ہونے کی اجازت دے رکھی ہے۔قبرستان میں نمازِ جنازہ پڑھائی گئی اور لوگوں نے تابوت اٹھا کر قبر تک پہنچایا۔لندن میں مردے کو تابوت اور بنا تابوت کے دفنایا جاتا ہے اور ہماری خوشدامن کو بھی لکڑی کے ایک تابوت میں رکھ کر دفنا دیا گیا۔ اس طرح ہماری خوشدامن سپرد خاک ہوگئی۔اِنِّاللہ و َ اِنّا اِلیہِ راجِعونَ۔ اللہ تعالیٰ ان تمام لوگوں کی مغفرت فرمائے اور لواحقین کو صبر و جمیل عطا فرمائے۔ آمین
اس گلی نے یہ سن کے صبر کیا
جانے والے یہاں کے تھے ہی نہیں