کالم

ضیا الرحمن اعظمی : جنت البقیع کا نیا مہمان عزیز

Share

1943 میں اعظم گڑھ کے ہندو گھرانے میں جنم لینے والا بانکے رام میرے رب کی رحمت اور احسان کے باعث حج کے مبارک دن مسجد نبوی ؐ کے پہلو میں واقع قبرستان جنت البقیع میں آسو دہ خاک ہو گیا۔ اللہ پاک پروفیسر ڈاکٹر ضیا الرحمن اعظمی مرحوم کو اپنے جوار رحمت میں جگہ عنایت فرمائے۔نہایت خوش بخت آدمی تھے۔ ہندوستان کے ایک متمول ہندو گھرانے میں پیدا ہوئے۔ گھر والوں سے چھپ کر اسلام قبول کیا۔ عیش و عشرت کی زندگی کو خیر آباد کہا۔ تمام تر مشکلات اور مصائب کے باوجود دین اسلام پر قائم رہے۔ ہندوستان کے دینی مدارس میں تعلیم حاصل کی۔ مکہ اور مدینہ کی جامعات سے ڈگریاں سمیٹیں۔ مصر کی جامعہ الازہر سے پی۔ایچ۔ڈی کی۔ مدینہ یونیورسٹی میں استاد مقرر ہوئے۔ حدیث کے پروفیسر بنے۔ کلیہ حدیث کے ڈین کے عہدے تک پہنچے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد مسجد نبوی ﷺ میں حدیث کا درس دینے لگے۔ عربی اور ہندی میں درجنوں دینی کتابیں لکھ ڈالیں۔ دنیا کی مختلف زبانوں میں جن کے تراجم ہوئے۔ مختلف ممالک کے دینی مدارس میں جو پڑھائی جاتی ہیں۔ کیسی عافیت کی زندگی گزاری۔ کیسی سعادت کی رخصتی نصیب ہوئی۔
رواں برس جنوری میں مجھے عمرہ کی سعادت حاصل ہوئی۔ خوش قسمتی سے پروفیسر ضیا الرحمن اعظمی صاحب اور انکے اہل خانہ کیساتھ ایک تفصیلی نشست کا موقع ملا۔ ا س ملاقات کے بعد مجھے ان پر انتہائی رشک آیا۔ اللہ جانتا ہے کہ نہایت سنجیدگی سے سوچتی رہی (اور اب بھی سوچتی ہوں) کہ میں بھی کسی طرح تمام مادی خرخشوں سے اپنی جان چھڑاوں۔ کوئی ایسا کام شروع کروں جو حقیقی معنوں میں میری فلاح کا باعث بنے۔ عمرہ سے واپس آنے کے بعد میں نے اعظمی صاحب کے قبول اسلام اور ملاقات کا احوال کالم میں لکھ ڈالا۔ کالم لکھتے برسوں بیت چکے۔ اچھا برا فیڈ بیک مل ہی جاتا ہے۔ مگر یہ کالم نرالا تھا۔ کثرت سے زیر گردش رہا۔ اطلاعات ملیں کہ سعودی عرب میں بھی وائرل ہے۔ کہیں سعودی عرب سے فیڈ بیک چلا آتا ہے۔ کہیں بھارت کی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے۔ چند دن قبل ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی نے باقاعدہ فون کر کے مجھے اطلاع دی کہ ان کے حلقہ احباب میں یہ کالم نہایت مقبول ہے۔ خواتین تمہارا تعارف تلاشتی پھرتی ہیں۔آپا سے عرض کیا کہ میری یا میرے قلم کی حیثیت ہی کیا ہے۔ اعظمی صاحب کی برکت اور فیضان ہے۔ کیا معلوم تھا کہ اس کالم کے چند ماہ بعد اعظمی صاحب پر ایک تعزیتی کالم مجھے لکھنا پڑے گا۔

یوم عرفہ پر ڈاکٹر اعظمی صاحب کے انتقال کی اطلاع موصول ہوئی تو مجھے ان کیساتھ ہونے والی ملاقات یاد آگئی۔ ان کی گفتگو۔ ان کا نورانی چہرہ۔ ان کا لائبریری نما دفتر۔ اشاعت دین کے لئے محبت سے لبریز باتیں۔ سب کچھ ذہن میں گردش کرنے لگا۔اعظمی صاحب جیسی عظیم ہستی کے انتقال کا رنج و غم مجھ پر طاری تھا۔ اسکے ساتھ ساتھ لیکن ان کی با سعادت رخصتی پر مجھے رشک بھی آتا رہا۔ سوچتی رہی کہ تمام تر وبائی صورتحال کے باوجود ان کی نماز جنازہ اس مسجد میں ادا ہوئی ہے، جسے میرے نبی ﷺ نے اپنے ہاتھوں سے تعمیر کیا تھا۔ وہ جو مسجد نبوی ؐ سے چند کلومیٹر دور رہائش پذیر تھے۔ اب مسجد نبوی ؐکیساتھ منسلک احاطے میں منتقل ہو چکے ہیں۔ اس جنت البقیع کے مکین بن گئے ہیں جہاں ہزاروں صحابہ، صحابیات اور شہداء مدفون ہیں۔ اس جگہ آسودہ خاک ہو گئے ہیں، جہاں سے بہت قریب میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا روضہ اقدس موجود ہے۔ ایسی با سعادت منتقلی (انتقال) تو قسمت والوں کو نصیب ہوا کرتی ہے۔ ایسے مبارک آخری ٹھکانے کی تو ہم دعاوں میں آرزو کیا کرتے ہیں۔
مرحوم اعظمی صاحب کی عمر کم و بیش 77 برس تھی۔ ساری زندگی انہوں نے دین کی نشر و اشاعت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا۔ساٹھ کی دہائی میں جب آپ جامعہ اسلامیہ (مدینہ یونیورسٹی) میں زیر تعلیم تھے تو “ماہنامہ کانتی ” میں مقا لا جات تحریر فرمایا کرتے۔ ان تحریروں کا مقصد غیر مسلموں میں قرآن مجید پڑھنے کا شوق پیدا کرنا تھا۔ ” قرآن کی شیتل چھایا” کے نام سے یہ مضامین بعد ازاں ایک کتابی شکل میں شائع ہوئے۔یہ کتاب غیر مسلمین میں کافی مقبول ہے۔ اب تک اس کے درجن بھر ایڈیشن چھپ چکے ہیں۔ آخری دم تک اعظمی صاحب کی تمام سرگرمیوں کا منتہائے مقصود یہ تھا کہ اللہ کا پیغام غیر مسلمین تک پہنچے۔دوران ملاقات نہایت درد مندی سے فرمایا کہ مسلمانوں نے برصغیر پر کئی سو سال حکومت کی۔ عالیشان محل اور مقبرے تعمیر کروائے۔ اتنی ہی کاوش دین پھیلانے میں کی ہوتی تو آ ج سارا ہندوستان مسلمان ہو گیا ہوتا۔ یہ بات دہراتے رہے کہ کوشش میری یہ ہے کہ بھارت کے ہر ہندو گھر میں قرآن حکیم کا ترجمہ اور دین اسلام کی تعلیمات پہنچیں۔ اسی لئے میں عربی کیساتھ ساتھ ہندی زبان میں بھی لکھتا ہوں۔

اس عمر قلیل میں انہوں نے تحقیقات اسلامی کے دیگر منصوبوں کے علاوہ “الجامع الکامل” جیسا کارنامہ سر انجام دیا۔ اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ میں ہونے والی یہ بے مثال کاوش ہے۔ انہوں نے حضور اقدس ؐ کی تمام صحیح احادیث کو ایک کتاب میں یکجا کر دیا۔ صحیح احادیث کیساتھ ساتھ 3000 ضعیف (لیکن معروف) احادیث بھی نشاندہی کی غرض سے اس کتاب میں اکھٹی کر دیں۔ کتاب کا ذکر کرتے اعظمی صاحب نے فرمایا تھا کہ الحمدو للہ۔ اس کتاب کی اشاعت سے تاریخ اسلامی کا ایک خلا پر ہو گیا ہے۔ اب منکرین کیلئے سنت پر حجت کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ انیس جلدوں پر مشتمل اس ضخیم کتاب کی تلخیص اعظمی صاحب نے پانچ جلدوں میں تیار کی۔ تاکہ دیگر زبانوں میں اس علمی تحقیق کا ترجمہ با آسانی ہو سکے۔ انہوں نے بتایا تھا کہ انگریزی اور اردو میں ” تلخیص الجامع” کا ترجمہ مکمل ہو گیا ہے۔ عن قریب یہ کتابیں شائع ہو جائیں گی۔ یہ بھی فرمایا تھا کہ بنگالی اور ملائی زبان میں تلخیص کا ترجمہ جاری ہے۔ نہایت حیرت سے میں نے استفسار کیا تھا کہ آپ نے چند عشروں میں کئی صدیوں کا تحقیقی کام کیسے کھنگال ڈالا۔ ہلکی مسکراہٹ کیساتھ اعظمی صاحب نے فرمایا تھا کہ دنیا میں کوئی بھی کام نا ممکن نہیں۔ صرف لگن اور جستجو درکار ہے۔
اشاعت دین سے اعظمی صاحب کی محبت کا اندازہ کیجیے کہ وہ اپنی برسوں (بلکہ عشروں) کی محنت سے کیا گیا تحقیقی کام بغیر کسی معاوضے کے کسی بھی ایسی شخصیت یا ادارے کے حوالے کرنے پر آمادہ رہتے جو اسے کسی بھی زبان میں چھاپ سکے۔ ان کا معاوضہ اور رائیلٹی فقط یہ ہوتی کہ اللہ کا پیغام اس کے بندوں تک پہنچے۔ اس ضمن میں نئی بات میڈیا گروپ کے روح رواں چوہدری عبدالرحمن صاحب کا تذکرہ لازم ہے۔ چوہدری صاحب کو ہم ایک اچھے استاد، عمدہ منتظم اور معروف کاروباری شخصیت کے طور پر جانتے ہیں۔ نہایت حیران کن اور خوشگوار اطلاع مجھے یہ ملی کہ پروفیسر عبدالرحمن صاحب نے ایک نامور علمی شخصیت سے رابطہ کیا ہے۔ خواہش ظاہر کی ہے کہ وہ اعظمی صاحب کے تحقیقی کام کا ترجمہ چھاپنے کی سعادت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ خواہ جس قدر بھی خرچ ہو وہ اس کار خیر کے متمنی ہیں۔ اللہ پاک پروفیسر صاحب کا جذ بہ خیر سلامت رکھے اور انہیں اجر عظیم عطا فرمائے۔ اعظمی صاحب کی نصیحت، وصیت اور دین اسلام سے محبت کا اصل تقاضا یہی ہے کہ ان کے تحقیقی کام کی ترویج کی جائے۔
دوران ملاقات اعظمی صاحب نہایت عاجزی کیساتھ اپنی کتابیں مجھے دکھاتے رہے۔انتہائی انکساری سے اپنے تحقیقی منصوبوں کا تذکرہ فرماتے رہے۔ دین کی نشر و اشاعت کی ضرورت اور اہمیت بیان کرتے رہے۔تاہم اپنی ذات کو زیر بحث لانے سے گریزاں رہے۔ یہ جملے دہراتے رہے کہ میری ذات کی نہیں، میرے کام کی تشہیر کریں تاکہ ذیادہ سے ذیادہ لوگ اس سے مستفید ہو سکیں۔ ان کا چہرہ تکتے، ان کی گفتگو سنتے میں سوچتی رہی کہ میرے رب کی قدرت کہ وہ قطرے کو گوہر بنا دے۔ بانکے رام کو پروفیسر ڈاکٹر ضیا الرحمن اعظمی کا درجہ سونپ دے۔
اگرچہ اعظمی صاحب ہندوستانی تھے۔ ان کی علمی خدمات کی وجہ سے انہیں سعودی شہریت بھی حاصل تھی۔تاہم پاکستان سے بھی ان کا رشتہ و تعلق نہایت گہرا تھا۔ ان کی اہلیہ محترمہ کراچی سے ہیں (غالبا ان کی ایک بہو بھی)۔ میرے استفسار پر اعظمی صاحب نے بتایا تھا کہ برسوں سے سفر کرنا ترک کر رکھا ہے۔ اہلیہ کے بھائی کے انتقال پر آخری مرتبہ اٹھارہ بیس برس قبل کراچی گیا تھا۔ پاکستانی جامعات کی بات چلی۔ جامعہ پنجاب کا بھی تذکرہ ہوا۔ اعظمی صاحب نے بتایا کہ کسی زمانے میں پاکستانی جامعات سے پی۔ایچ۔ڈی کے مقالاجات معائنہ کی غرض سے موصول ہوا کرتے تھے۔ نہایت فراخدلی سے انہوں نے اعتراف کیا تھا کہ اہلیہ اور گھر والوں کے تعاون کے بغیر اس قدر تحقیق اور تدریس ممکن نہیں تھی۔ ظاہری طور پر ان کی بیگم نہایت سادہ خاتون ہیں۔ مگر پڑھی لکھی، باخبر اور ماڈریٹ خیالات کی حامل۔ پاکستانی صحافت اور سیاست پر بات کرتی رہیں۔ شہزادہ محمد بن سلمان کے نئے سعودی عرب اور حقوق نسواں پر بھی۔ ان کی بیٹی، بہووں اور بچوں سے مل کر میں سوچتی رہی کہ اس قدر نامی گرامی شخصیت کے اہل خانہ کتنے سادہ اور منکسر المزاج ہیں۔کئی دن سے خیال آتا ہے کہ ٹیلی فون پر انکی اہلیہ محترمہ سے تعزیت کروں۔ ابھی تک خود کو مگر آمادہ نہیں کر سکی۔دعا ہے کہ اللہ پاک ان کے اہل خانہ کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ اعظمی صاحب کے درجات بلند فرمائے۔ ان کا جسد خاکی صحابہ کرام اور شہداء کیساتھ آسودہ خاک ہے۔ اللہ انہیں جنت میں بھی انہی ہستیوں کی ہم نشینی عطا فرمائے۔آمین یا رب العالمین۔