منتخب تحریریں

ملی ارتباط کی تلاش

Share

محرم کی دستک پر دل گھبرا اٹھتا ہے۔ دروازے کے باہر کوئی فسادی ہی نہ ہو؟
یہ ایک لمبی کہانی ہے کہ تاریخ کا اختلاف کیسے گروہی افتراق میں بدل گیا۔ یہ کہانی سنانے کا یہ موقع ہے نہ محل۔ ہماری اجتماعی یادداشت میں کچھ ایسے حادثات محفوظ ہیں کہ آج بھی کتابِ تاریخ کھولیں تو لہو ٹپکنے لگتا ہے۔ ظالم اور مظلوم سب کردار جی اٹھتے ہیں اور ہم خود کو کسی رزم گاہ میں کھڑا دیکھتے ہیں۔ پھر ہم کسی ایک فوج کا حصہ بن جاتے ہیں۔ مورخین نے رطب و یابس کچھ اس طرح جمع کر دیا ہے کہ جو چاہے، اپنے موقف کے حق میں واقعات تلاش کر لے۔ تنقیح کا ذوق ہمارے ہاں فروغ نہیں پا سکاکہ علمی اختلاف کو جرم سمجھا گیا۔ مذہب اور تاریخ کی سرحدیں کچھ اس طرح باہم مل گئیں کہ ان کو الگ کرنا ممکن نہیں رہا۔ مولانا مودودی نے ایک کوشش کی۔ آج پسِ مرگ بھی پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ گروہی شناخت پر اصرار اتنا بڑھاکہ فرقہ وارانہ تعبیرات کو ایمانیات کی فہرست میں شامل کردیا گیا۔ فرقہ وارانہ علامتوں کو شہ رگ کہا گیا۔ بتانا یہ تھاکہ جس نے ان کو ہاتھ لگایا، اس نے گویا ہماری جان لینے کی کوشش کی۔ ان رویوں کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ محرم آتا ہے تو ہمارے ہاتھ دعا کے لیے اٹھ جاتے ہیں: یااللہ! آنے والے دن امن کے ساتھ گزر جائیں۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب نے سوچاکہ دعا کے ساتھ، اس بار دوا بھی کی جائے۔ فرقوں اور مسالک کے راہنماؤں کو جمع کیا جائے اور ان سے پوچھا جائے کہ ملی ارتباط کیسے ممکن ہے۔ ایک مدت کے بعد اس موضوع پر سنجیدہ گفتگو سننے کو ملی۔ دیوبندی، بریلوی، شیعہ اور اہلِ حدیث علما نے امن اور بقائے باہمی کے راستے میں حائل مسائل کی نشاندہی کی اور ساتھ ہی اصلاحِ احوال کے لیے تجاویز بھی پیش کیں۔
اس مجلس کا اختتام ایک اعلامیے پر ہوا۔ اس میں شامل چند نکات بطور خاص سب کی توجہ چاہتے ہیں۔ جیسے:
٭ اہلِ مذہب مناظرے کے بجائے مکالمے کو فروغ دیں۔
٭ تحریر و تقریر میں ایسا اسلوب نہیں اپنانا چاہیے جس سے کسی مسلک کے ماننے والوں کی دل آزاری ہو۔
٭ علمی مسائل کو عوامی فورمز پر بیان کرنے سے گریز کیا جائے۔
٭ مختلف مسالک کے قائدین اور مقدس شخصیات کے بارے میں متنازع بیانات جاری نہ کیے جائیں۔
٭ مسلکی تنظیموں میں شامل انتہا پسند عناصر کی حوصلہ شکنی کی جائے۔
اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان میں فرقہ وارانہ منافرت کے پھیلاؤ کے لیے کوئی بیرونی سازش ترتیب دی گئی ہے۔ ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب نے نشاندہی کہ جو علاقے سی پیک کی گزرگاہ ہیں، وہاں کشیدگی زیادہ ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اس ابلاغی مہم کا بھی ذکر کیا جو ایک تاریخی واقعے کے باب میں سوشل میڈیا پر چلی اور اس بات کا خدشہ پیدا ہو گیاکہ کوتاہ اندیش اسے کسی فساد میں بدل دیں۔ میرے خیال میں تو ‘تحفظِ بنیادِ اسلام بل‘‘ نے بھی کچھ ایسی ہی فضا قائم کر دی تھی۔ اللہ کا شکر ہے کہ پنجاب اسمبلی میں ہوش غالب آیا اور یہ فساد ٹل گیا۔
اسلامی نظریاتی کونسل نے اہلِ مذہب کو معاملات کی سنگینی کی جانب متوجہ کیا اور اختلاف کے آداب پر ایک سنجیدہ مکالمے کا آغاز کردیا ہے۔ یہ مکالمہ اب ناگزیر ہے۔ مکالمے کے بارے میں لیکن واضح رہنا چاہیے کہ یہ جبر کے ماحول میں نہیں ہوتا۔ جہاں اظہارِ رائے پر قدغن ہو، وہاں کوئی مکالمہ نہیں ہو سکتا۔ مکالمے کے لیے ضروری ہے کہ لوگ کسی خوف کے بغیر اپنی بات کہہ سکیں۔ کسی کی غلطی کی اصلاح، اس کی جان لے کر نہ کی جائے۔ مکالمے کو نقطہ ہائے نظر تک محدود رکھا جائے۔ اس کے لیے ریاست اور سماج، دونوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ایک طرف اظہار رائے کی آزادی کو مسدود کیا جا رہا ہے اور دوسری طرف سوشل میڈیا بے لگام ہے۔ یہ دونوں باہم مربوط ہیں۔ جب اظہار کے جائز راستے بند ہوتے ہیں تو ایک ناگزیر نتیجے کے طور پر ناجائز راستے کھل جاتے ہیں۔ جہاں نکاح کے راستے بند ہوں، وہاں بدکاری کو فروغ ملتا ہے۔
ہمارے ملک میں ایک طرف قومی امور پر ریاست کے تشکیل کردہ بیانیے سے انحراف غداری اور دوسری طرف اہلِ مذہب کے مرتب کردہ مذہبی بیانیے پر تنقید دین پر تنقید سمجھی جاتی ہے۔ اس ماحول میں مکالمہ کیسے ہو گا؟ پھر مذہبی امور پر، ہم ابہام کا شکار ہیں۔ اس کا اظہار کونسل کی نشست میں شریک دوستوں کی گفتگو میں بھی ہوا۔ مثال کے طور پر اختلاف کی عمومی بنیاد، دینی نصوص کی تاویل ہے۔ اس تاویل کا حق کسی سے کیونکر چھینا جا سکتا ہے؟ اگر کسی کے نزدیک کوئی تاویل درست نہیں تو کیا اسے ریاستی یا سماجی قوت سے دائرہ اسلام سے خارج کر دیا جائے گا؟ ان سوالات پر اہلِ مذہب غیر واضح ہیں۔ کونسل کی نشست میں شریک ایک معزز مہمان نے توجہ دلائی کہ ایمانیات کا دائرے وسیع ہوتا جا رہاہے۔ یہ بہت قابلِ غور بات ہے۔ یہی نہیں، یہاں توہین کا دائرہ بھی ہر کوئی اپنی مرضی سے وسیع کررہا ہے۔ اس حوالے سے چند سوالات کے متعین جواب ضروری ہیں۔ جیسے:
تاویل کا حق کیا کسی فرد یا گروہ سے چھینا جا سکتا ہے؟
توہین کا دائرہ کیا ہے اور اس کی حدود کیسے طے ہوں گی؟
مذہبی امور میں ریاست کی مداخلت کی نوعیت کیا ہے؟
ایک رائے یہ تھی کہ مذہبی اختلاف کو ‘پیغامِ عمان‘ کی روشنی میں حل کیا جائے جسے بعد میں او آئی سی نے بھی اختیارکر لیا۔ اس میں آٹھ فقہی مذاہب کو اسلام کی تسلیم شدہ قانونی تعبیرات شمار کیا گیاہے‘ حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی، جعفری، زیدی، ظاہری اور اباضی ۔ اسی طرح کلامی گروہوں، اشعری، ماتریدی، صوفی اور سلفی کوبھی مسلمانوں کے مصدقہ گروہ قرار دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ جنہیں مسلمان سمجھا گیا ہے،ان کی تکفیر نہیں کی جائے گی۔
یہ ایک اچھی کاوش ہے لیکن اس میں فقہی اور کلامی مسالک کی تحدید قابلِ فہم نہیں۔ یہ تعداد آٹھ کیوں ہے؟ کیا یہ نو نہیں ہو سکتی؟ فقہ دین پر غوروفکر کا نام ہے۔ یہ غوروفکر اصولِ فقہ میں ہوگا اور اطلاق میں بھی۔ اس کا دائرہ ہم کیسے بند کر سکتے ہیں؟ پھریہ وہی فقہی مسالک ہیں جن کے ماننے والوں کو کہیں نہ کہیں اقتدار حاصل ہے۔ کیا کسی فقہ کے درست ہونے کا یہی معیار ہے؟ اگر قبولیتِ عامہ کو معیار مانا جائے تو اس کا تعین تاریخ کرتی ہے۔ اگر ہم کسی نئی سوچ کو موقع نہیں دیں گے تواس کی قبولیت یا عدمِ قبولیت کا فیصلہ کیسے ہوگا؟ اس لیے یہ فقہی مذہب ہویا کلامی، اس کی تحدید مسلم سماج کے فکری ارتقا کو رونے کے مترادف ہوگا۔
اسلامی نظریاتی کونسل کی اس کاوش نے موقع پیدا کردیا ہے کہ ان سوالات پر سنجیدہ مکالمہ ہو۔ مکالمے کے کلچر کو اسی وقت فروغ مل سکتا ہے جب ان مناظرہ بازوں پر پابندی ہوجو دوسروں کی تکفیر میں بیباک ہیں۔ اس اعلامیے کے مطابق ہر مسلک کے نمائندہ لوگوں کو اپنی صفوں میں موجود ان عناصر پرنظر رکھنا ہوگی جو آج بھی مسلمانوں کی تکفیرکا علم اٹھائے ہوئے ہیں۔ اگر یہ نہیں ہوگا تو پھر ان لوگوں پر انگلی اٹھے گی جو بین المسالک ہم آہنگی کے علمبردار ہیں مگر خود احتسابی سے گریزاں ہیں۔
ہمیں اس کلچر کو فروغ دینا ہے جہاں سب اپنی بات شائستگی کے ساتھ کریں۔ دوسروں کے موقف پر جہاں ضروری سمجھیں، علمی تنقیدکریں اور افراد کے کفروایمان کا فیصلہ دینے سے گریز کریں۔ اس کے ساتھ مناظرے کے بجائے مکالمے کی فضا بنائیں۔ اگر ایسا نہ ہوا تو ہر محرم کی دستک پر ہم ایسے ہی خوف میں مبتلا ہو جائیں گے۔