دنیابھرسے

پرشانت بھوشن: انڈین وکیل کا توہین عدالت معاملے میں سپریم کورٹ سے معافی مانگنے سے انکار

Share

انڈیا کے سینیئر ایڈووکیٹ پرشانت بھوشن نے توہین عدالت کیس میں سپریم کورٹ سے غیر مشروط معافی مانگنے سے انکار کر دیا ہے۔ ان کے مطابق ‘میرے بیانات خیر سگالی کے تھے اور اگر میں معافی مانگتا ہوں تو یہ میرے ضمیر اور اس ادارے کی توہین ہوگی جس میں مجھے سب سے زیادہ یقین ہے۔’

پیر کے دن پرشانت بھوشن نے سپریم کورٹ میں اپنا جواب داخل کیا جس میں انھوں نے لکھا ہے کہ ’آج کے پریشان کن دور میں اگر انڈیا کے عوام کسی سے امید کرتے ہیں تو وہ سپریم کورٹ ہے تاکہ ملک میں قانون اور آئین کے نظام کو برقرار رکھا جا سکے، نہ کہ مطلق العنان نظام۔‘

اپنے جواب میں انھوں نے لکھا: ‘یہی وجہ ہے کہ جب باتیں بھٹکتی نظر آئیں تو ہم بول پڑے۔ یہ عدالت کی طرف سے دی گئی ذمہ داری کا احساس ہی ہے جو ہمیں یہ خاص فریضہ دیتا ہے۔’

خیال رہے کہ انڈیا کے معروف وکیل کو سپریم کورٹ نے ان کے ‘باغیانہ بیانات’ کے لیے عدالت کی توہین کا مجرم قرار دیتے ہوئے انھیں اپنے بیانات پر نظر ثانی کرنے اور غیر مشروط معافی مانگنے کے لیے 24 اگست تک کا وقت دیا تھا۔

جمعرات کو سپریم کورٹ نے پرشانت بھوشن کو غیر مشروط معافی مانگنے کا حکم دیا اور بصورت دیگر بھوشن کو سزا کے طور پر چھ ماہ قید کی سزا یا دو ہزار روپے جرمانے یا دونوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

تاہم سماعت کے دوران ہی پرشانت بھوشن نے واضح کیا تھا کہ ‘وہ بالکل معافی نہیں مانگیں گے اور ہر اس سزا کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں جو انھیں عدالت دے گی۔’

63 سالہ پرشانت بھوشن کو اپنے دو ٹویٹس کے لیے توہین عدالت کا مجرم قرار دیا گیا ہے اور سپریم کورٹ کا خیال ہے کہ ‘بھوشن کے ٹویٹس نے سپریم کورٹ کے وقار کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔’

بھوشن نے دو جون سنہ 2020 کو اپنے ٹویٹس میں چیف جسٹس پر تبصرہ کیا تھا۔ انھوں نے کچھ دیگر ججوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔

بھوشن نے عدالت میں یہ بھی کہا کہ ‘میں نے اپنی ٹویٹ میں جو کچھ لکھا وہ ایک حقیقت ہے اور مجھے اس پر اعتماد ہے، جس کا مجھے ملک کے آئین اور جمہوریت کے ذریعے اظہار کرنے کا حق ہے۔’

انڈین سپریم کورٹ

جمعرات کو سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ اگر بھوشن پیر کو معافی مانگتے ہیں تو عدالت منگل کو اس معاملے پر دوبارہ سماعت کرے گی۔

لیکن یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ اگر پرشانت بھوشن نے معافی نہیں مانگی تو عدالت مزید کیا کارروائی کرنے والی ہے۔

کیس کا نتیجہ کچھ بھی ہو پرشانت بھوشن کے معاملے سے انڈیا میں سپریم کورٹ کو بھی پرکھا جارہا ہے کہ ‘آخر انڈیا کے چیف جسٹس تنقید اور اظہار رائے کی آزادی کے متعلق کتنے روادار ہیں؟’

بہر حال پرشانت بھوشن کے معاملے پر اب تک رائے منقسم ہے۔

بہت سے بڑے وکلا، سابق سپریم کورٹ کے ججز اور اداریہ لکھنے والے نامور صحافیوں کا خیال ہے کہ اس معاملے میں سپریم کورٹ نے ضرورت سے زیادہ سخت رویہ اپنایا ہے۔

2400 سے بھی زیادہ انڈیا کے وکلا نے پرشانت بھوشن کے حق میں ایک آن لائن درخواست لکھی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ‘وکلا کے منھ پر قفل لگانے کا مطلب عدالت کی آزادی اور طاقت کو کم کرنا ہے۔’

سماج کا ایک حصہ پرشانت بھوشن کے خلاف بھی ہے جس کی رائے ہے کہ کوئی بھی وکیل قانون سے بالاتر نہیں ہے اور سپریم کورٹ نے مسٹر بھوشن کے خلاف صحیح کارروائی کی ہے۔