ہیڈلائن

پرویز مشرف کو سزائے موت: آئین شکنی کتنا بڑا جرم ہے؟

Share

پاکستان کے سابق آرمی چیف اور صدر پرویز مشرف کے مقدمے میں خصوصی عدالت کے فیصلے نے لوگوں کو پہلے ہی تقسیم کر رکھا تھا لیکن جمعرات کے روز اس مقدمے میں آنے والے تفصیلی فیصلہ سے اب اس غم و غصے نے شدت اختیار کر لی ہے۔

تفصیلی فیصلے کے مطابق خصوصی عدالت کے تین رکنی بینچ پر مشتمل ججوں میں سے ایک جج جسٹس وقار سیٹھ نے یہ حکم دیا ہے کہ اگر سابق آرمی چیف پرویز مشرف سزا سے پہلے انتقال کر جاتے ہیں تو اس صورت میں اُن کی لاش کو ڈی چوک پر لٹکایا جائے۔

اس سے سوشل میڈیا پر جہاں بحث کا رُخ اس تفصیلی فیصلے کی تنقید کرنے کی جانب ہو گیا ہے، وہیں قانونی ماہرین اس آئین شکنی کے نتیجے میں ملنے والی سزا پر بھی سوال اٹھا رہے ہیں۔

آئین شکنی دراصل کتنا بڑا جرم ہے؟

اگر پاکستان کے آئین کو دیکھا جائے تو سنگین غداری ایکٹ 1974 کے تحت کوئی بھی شخص اگر پاکستان کے آئین کو منسوخ کرنے کی سازش یا کوشش کرنے کے نتیجے میں پکڑا جائے یا مجرم قرار دیا جائے تو اس کو عمر قید یا سزائے موت دی جاتی ہے۔

پاکستان ان چند ممالک میں سے ہے جہاں سزائے موت اب بھی دی جاتی ہے۔ قانونی ماہر اور وکیل اسد جمال کے مطابق اس میں سب سے زیادہ اضافہ آمریت کے ادوار میں دیکھا گیا ہے جن میں جنرل ایوب، جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف کے ادوار سرِ فہرست ہیں۔

اسد جمال کہتے ہیں کہ ’سوال یہ ہے کہ کیا آئین شکنی اتنا بڑا جرم ہے کہ سزائے موت دی جائے؟ اس قانون (سنگین غداری ایکٹ 1974) میں بھی ترمیم کی اشد ضرورت ہے۔ کیونکہ یہ اکیسویں صدی کے معاشرے کی نمائندگی نہیں کرتا۔‘

پھانسی کا پھندا
پاکستان ان چند ممالک میں سے ہے جہاں سزائے موت اب بھی دی جاتی ہے

انھوں نے پاکستان میں جرم کی سزاؤں میں سختی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ عدلیہ کی طرف سے اس قسم کی زبان کا استعمال اور فیصلے کا سامنے آنا بذاتِ خود ایک پریشان کُن عمل اس لیے ہے کہ یہ ہمارے معاشرے کو مزید متشدد بنا رہا ہے۔

آئین یا کاغذ کا ٹکڑا؟

سنہ 2014 میں کراچی کے کریک کلب میں آل پاکستان مسلم لیگ اور ایک مذہبی جماعت کی مشترکہ تقریب کے دوران سابق فوجی آمر اور صدر پرویز مشرف مہمانِ خصوصی کے طور پر موجود تھے۔

جب مشرف کی تقریب سے خطاب کرنے کی باری آئی تو انھوں نے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے وہاں موجود صحافیوں کے سامنے انگریزی میں کہا ’آپ سوچیں مجھ پر غداری کا الزام لگایا گیا ہے، میں نے کیا نہیں کیا ملک کے لیے؟ اور وہ بھی پاکستان کی آئین شکنی کا الزام؟ آئین کیا ہے؟ ایک کاغذ کا ٹکڑا ہے۔‘

اسی کاغذ کے ٹکڑے کو 3 نومبر 2007 کو منسوخ کرنے کے جرم میں 17 دسمبر 2019 کو جب اُن کو تین رکنی بنچ پر مبنی خصوصی عدالت نے سزائے موت کا فیصلہ سنایا تو ایک بھرپور ردعمل سامنے آیا۔

تفصیلی فیصلے کے آنے سے کچھ دیر پہلے تک زیادہ تر غم و غصہ آئین شکنی سے زیادہ اس بات پر نظر آرہا تھا کہ پاکستان کے ایک سپہ سالار کو زبردستی مجرم بنایا جا رہا ہے۔

اس وقت سوشل میڈیا پر جسٹس سیٹھ کے تفصیلی فیصلے کی اس لائن کو بار بار شیئر کیا جا رہا ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ اگر سابق آرمی چیف پرویز مشرف سزا سے پہلے انتقال کر جاتے ہیں تو اس صورت میں اُن کی لاش کو گھسیٹ کر ڈی چوک پر تین دن کے لیے لٹکایا جائے۔

پرویز مشرف

پاکستان نے آئین بنایا یا آئین نے پاکستان؟

اسی بارے میں صحافی اور تجزیہ کار محمد ضیاالدین نے کہا ’ہمارے اداروں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ پاکستان نے آئین بنایا ہے، جو کہ غلط ہے۔ دراصل آئین نے پاکستان کو بنایا ہے۔ اب جب ادارے یہ سوچتے ہیں تو آپ اس سے اندازہ لگا لیں کہ عام آدمی کے ذہن میں کیا تاثر ہو گا؟‘

جس عام آدمی کی ضیا الدین بات کر رہے ہیں ان میں سے زیادہ تر کو تو یہ بھی واضح طور پر نہیں پتا کہ آئین شکنی جرم ہے بھی یا نہیں۔ لوگوں کے مطابق آئین کا زیادہ تر استعمال اپنے مفاد کے لیے کیا جاتا رہا ہے۔

اسلام آباد کی رہائشی روبینہ اس بارے میں کہتی ہیں ’بھٹو کو پھانسی دینے کے لیے بھی آئین کا ہی استعمال کیا گیا تھا۔ ساتھ ہی سیاستدانوں کی یہ تاریخ رہی ہے کہ وہ جہاں اپنا مفاد دیکھتے ہیں وہاں آئین کو تبدیل کر دیتے ہیں۔‘

جب روبینہ سے مزید سوال کیا گیا کہ کیا آئین شکنی جرم ہے؟ تو انھوں نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا ’وہ کن حالات میں کی جائے اس پر منحصر ہے، مشرف نے جو کیا وہ ملک کے مفاد میں کیا تھا۔‘

لیکن اسلام آباد کی ہی ایک اور رہائشی شازیہ سمجھتی ہیں کہ ’مشرف نے جو کیا وہ غداری ہے اور آئین شکنی تو بہت بڑا جرم ہے اور اس کی سزا بیشک ملنی چاہیے۔‘

اسلام آباد کے ہی رہائشی بدر اسلام نے بی بی سی کو بتایا کہ ’مشرف سابق ہیرو ہیں لیکن آئین شکنی پر سزا ہر کسی کے لیے برابر ہونی چاہیے جو اس مقدمے میں دیکھا گیا ہے۔ قومی ہیرو ہونا ایک طرف لیکن ملک کا آئین اور اس کی پاسداری ایک طرف ہے۔‘