کالم

اختیارکا نا جائز استعمال

Share

انسان کی زندگی میں کچھ باتیں یا واقعات ایسے ہوتے ہیں جو بظاہر ایک بڑا جرم ہوتا ہے لیکن بحالتِ مجبوری وہ بات اور واقعات کچھ پل کے لیے ایک راز بن جاتے ہیں۔ ایک ایسا راز جو اس کی زندگی میں آہستہ آہستہ پنپتا رہتا ہے۔
کبھی زخم کی صورت میں تازہ رہتا ہے تو کبھی درد کے احساس کے ساتھ تڑپاتا رہتا ہے۔اس تکلیف کو انسان محسوس کر تے ہوئے جیتا رہتا ہے تو کبھی اس تکلیف کے دباؤ سے اپنی جان بھی دے دیتا ہے۔کبھی وہ اپنی کمزوری کی پرواہ نہ کر کے اس سے بدلہ لینا چاہتا ہے تو کبھی تمام کوششوں کے باوجود ہار بھی جاتا ہے۔
برطانیہ میں ’اوپن سوسائٹی‘ یعنی ایک ایسا سماج جہاں ہر کسی کو اپنے انسانی حقوق کی جانکاری ہوتی ہے۔ جس سے لوگوں میں پولیس، اعلیٰ آفیسر، منیجر،منسٹر، ڈائریکٹر، پروفیسر، ٹیچر، کونسلر وغیرہ سے اپنے حقوق کے متعلق سوال پوچھنے کا حق ہوتا ہے۔اس کے علاوہ لوگوں میں اس بات کا خوف نہیں ہوتا کہ ان کے سوال کرنے سے ان کا انجام یا حشر برا ہوگا۔ جیسا کہ بر صغیر میں اس کے بر عکس ہے۔برطانیہ میں حکومت اور پالیسی بنانے والوں نے لگ بھگ پچاس برسوں میں عام لوگوں میں مساوات،بااختیار،اور ان کے حق کے لیے مسلسل کوششیں کی ہیں۔ ان باتوں کے بعد اگر کسی کے ساتھ جب زیادتی یا ناانصافی ہوتی ہے تو اس کے لیے ایک شکایتی کمیشن بھی ہے جہاں اس فرد کو اپنی شکایت پیش کرنے کا موقعہ دیا جاتاہے۔ جس کے بعد آزادانہ طور پر کمیشن اس شکایت کی چھان بین کرتا ہے۔
برطانیہ میں مساواتی ایکشن پلان کو فروغ دینے کے لیے ہر ممکن یہ کوشش کی جاتی ہے کہ مساواتی اور تنوع پالیسی کو اچھی طرح لاگو کیا جائے۔
برطانیہ کی پانچ اہم قدریں ہیں۔ جمہوریت،قانون کی حکمرانی،انفرادی آزادی،باہمی احترام اور مختلف عقائد اور مذاہب کی رواداری۔ان باتوں کو تمام پرائمری اسکول کے بچوں کو پڑھایا اور بتایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ دفاتر وغیرہ میں بھی اسے سختی سے لاگو کیا جاتا ہے۔ جس سے ہر کسی کو انفرادی طور پر دیکھا جاتا ہے نا کہ رنگ ونسل، عقیدہ، اور مذہب کے طور پر پہچانا یا پرکھا جاتا ہے۔جس کی وجہ سے ایک فرد کو برطانیہ کے ماحول میں انفرادی طور پر اپنی زندگی گزارنے میں کوئی دشواری یا رکاوٹ نہیں ہوتی ہے۔اس کے علاوہ ملازمت میں بھی اسی کے تحت ہر کسی کو بنا کسی بھید بھاؤ کے نوکری پانے میں بھی آسانی ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ عورتوں کو بھی ان کے تمام حقوق سے آگاہی ہوتی ہے۔ جس سے وہ نوکری سے لے کر شادی، طلاق اور گھریلو تشدد کے معاملات میں انفرادی طور پر اپنے حقوق سے محروم نہیں رہتی ہیں۔ انفرادی آزادی اور باہمی احترام کی قدروں کی وجہ سے انہیں سماج اور دفاتر میں اپنی انفرادیت بنانے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی ہے۔جس کی وجہ سے مرد اور عورت کا فرق مٹ جاتا ہے اور و ہ اپنی خوبی اور قابلیت سے اپنے کام کو بخوبی انجام دیتی ہیں۔اس طرح انفرادی اور اجتماعی طور پرہر کسی کو اپنی زندگی آزادنہ طور پر گزارنے کا موقعہ مل جاتاہے۔ جس سے اس فرد میں باہمی احترام فروغ پاتا ہے اور وہ برطانیہ کا ایک مہذب شہری بھی کہلاتا ہے۔

تاہم بہت سارے ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے عہدے، طاقت، دولت اور خراب کردار کی وجہ سے اپنے مفاد کے لیے کچھ ایسے کام کر جاتے ہیں جس سے انسان کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔تاہم اس شخص کے خلاف کاروائی بھی ہوتا ہے اور میڈیا بھی ایسے لوگوں کے بارے میں پوری تفتیش کے ساتھ رپورٹ شائع کرتا ہے۔ جس سے لوگوں میں اعتماد پیدا ہوتا ہے اور قانون کی حکمرانی پر اعتماد بھی بڑھتا ہے۔
ایساہی ایک واقعہ حال ہی میں اسکاٹ لینڈ میں پیش آیا جب ایک معروف برٹش بیلے ڈانس اسکول کے نائب پرنسپل کو اس لیے استعفیٰ دینا پڑا کہ اس پر ساٹھ لڑکیوں کے ساتھ جنسی سلوک کے لیے ورغلانے کا الزام ہے۔نائب پرنسپل جوناتھن بارٹن اپنی پوزیشن کا ناجائز فائدہ اٹھا کر لڑکیوں کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرتا تھا جس میں سولہ سال کی لڑکی بھی شامل ہے۔اسکاٹ لینڈ کے ارگائل کے بیلے ویسٹ اسکاٹ لینڈ اسکول میں لڑکیاں سالانہ 9 ہزارپونڈ فیس ادا کر کے بیلے اسکول میں رہائش پزیر تھیں۔آئی ٹی وی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سابق طلباء، اسٹاف اور والدین نے بتایا کہ جوناتھن کس طرح سے اپنی جنسی پیاس بجھانے کے لیے رہائش پزیر لڑکیوں کو اپنا شکار بناتا تھا۔تاہم آئی ٹی وی کی رپورٹ کے بعد جوناتھن کواپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا ہے۔ جوناتھن کے وکیل نے مزید بیان دینے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ معاملے کی چھان بین ہو رہی ہے اور میرے موکل نے سختی سے ان الزامات کو مسترد کیا ہے۔
آئی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے ایک خاتون نے بتایا کہ جوناتھن کلاس کی اپنی پسندیدہ لڑکی کو خاص توجہ کا مرکز بناتا تھا اور اس طرح وہ اس لڑکی کے ساتھ اپنی ہوس کا نشانہ بناتا تھا۔جوناتھن اکثر کرسمس کے تحفے خریدتا اور اس میں اپنی پسند اور مذاق کے طور پر باتیں لکھتا۔اس کے علاوہ ایک سولہ سالہ لڑکی نے کہا کہ اُس وقت وہ بہت بھولی اور نادان تھی۔ جوناتھن اسے رات بھر ٹیکسٹ میسج بھیجتا رہتا اور شب کی آدھی پہر کو وہ اسے اپنے کمرے میں آنے پر مجبور کرتا جس کے بعد وہ اپنی جنسی ہوس کو پورا کرتا۔ اس سولہ سالہ لڑکی کا کہنا ہے کہ اُس وقت وہ جوناتھن کے قبضے میں تھی کیونکہ اسے ایک معروف بیلے ڈانسر بننا تھا جس کہ لیے وہ بحالتِ مجبوری جوناتھن کو ناراض کرنا مناسب نہیں سمجھی۔ لیکن اب اس میں ہمت ہے کہ وہ جوناتھن کے گھناونے کرتوت کے خلاف آواز اٹھائے۔
جوناتھن بذاتِ خود ایک عمدہ بیلی ڈانسر تھا اور اسکول کے وائس پرنسپل ہونے کی وجہ سے لڑکیاں اس سے خوف زدہ بھی رہتی تھیں۔ زیادہ تر لڑکیوں نے کہا کہ جوناتھن کی حرکت سے وہ پریشان تو ہوتی تھیں لیکن ان میں اتنی ہمت نہیں ہوتی تھی کہ وہ جوناتھن کی حرکت کے خلاف شکایت کرے۔ اس کے علاوہ لڑکیاں اسکول میں رہائش پزید تھیں اور اسکول اونچی پہاڑی پر واقع تھا جو عام آبادی والے علاقوں سے کافی دور تھا۔لڑکیاں جوناتھن کی جنسی استحصال کو عام زندگی کا حصہ سمجھ کر اس کی حرکتوں کو نظر انداز کر رہی تھیں۔ اس کے علاوہ اپنے والدین سے جوناتھن کی حرکتوں کو بتانے سے بھی ڈرتی تھیں۔ تاہم لڑکیوں نے یہ بھی کہا کہ اسکول میں ان کا دھیان زیادہ تر صرف بیلی ڈانس پر ہوتا تھا جس کی وجہ سے وہ جوناتھن کی جنسی پیش قدمی کو اس کے عہدے کی دباؤ میں برداشت کرتی تھیں۔
میں نے ہندوستان اور پاکستان میں بھی ایسی باتوں کو عام پایا ہے۔ گاہے بگاہے مجھے ایسی باتیں سننے کو ملتی ہیں جس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ جوناتھن جیسے درندے جو اپنے عہدے کی طاقت کے بنا پر لڑکیوں اور لڑکوں کی زندگی سے کھلواڑ کرتے ہیں۔ہندوستان اور پاکستان کے کچھ پروفیسر اپنے عہدے کی طاقت کا فائدہ اٹھا کر طلباء پر کافی دباؤ ڈالتے ہیں اور جس کے بدلے میں وہ خطیر رقم کے ساتھ جنسی خواہشات بھی پورے کرتے ہیں۔ ایک پروفیسر کے بارے میں یہاں تک سنا گیا کہ وہ اکثر رات کو اپنے طلبا کو فون کرتے اور منٹو کا ’ٹھنڈا گوشت‘ پڑھنے کی خواہش ظاہر کرتے۔یہی نہیں بیرون ممالک کا دورہ کر کے ایسے پروفیسر اپنی جھوٹی شان بگھارتے ہوئے وہاں کے یونیورسیٹیوں اور دانشوروں کو گمراہ بھی کرتے ہیں۔ یہاں بھی ایک بات عام ہے اور وہ ہے پروفیسر کا عہدہ جس کی بدولت وہ اپنی پوزیشن کا غلط استعمال کرتا ہے۔
جوناتھن کو اپنی حرکتوں سے استعفیٰ تو دینا پڑا لیکن ابھی دیکھنا ہے کہ اسے سزا ہوتی ہے یا نہیں۔ اور اگر ہوتی ہے تو کس قسم کی۔ جس کے لیے ابھی برطانیہ کے قانون کی قدروں کا امتحان ہونا باقی ہے۔