ہیڈلائن

سپریم کورٹ کے 27ویں چیف جسٹس گلزار احمد کو اپنے دور میں کن کن چیلنجز کا سامنا ہو گا؟

Share
جسٹس گلزار احمد (بائیں) کو سپریم کورٹ کے ستائیسویں چیف جسٹس ہونے کا اعزاز حاصل ہے اور ان کی مدت ملازمت یکم فروری 2022 تک ہے

سپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس گلزار احمد نے جب وکالت کی دنیا میں قدم رکھا تو جنرل ضیاالحق کی حکومت تھی، جب وہ سندھ ہائی کورٹ کے جج تعینات ہوئے تو جنرل پرویز مشرف اقتدار میں تھے اور اس وقت جب انھوں نے یہ منصب سنبھالا ہے تو موجودہ فوجی سربراہ قمر جاوید باجوہ کی توسیع اور پرویز مشرف کی پھانسی کی سزا کے فیصلے سپریم کورٹ کے سامنے ہوں گے۔

سنیچر کی صبح صدرِ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے جسٹس گلزار احمد سے سپریم کورٹ کے 27ویں چیف جسٹس کا حلف لے لیا ہے۔ جسٹس گلزار کی بطور چیف جسٹس مدت یکم فروری 2022 تک ہے۔

چیف جسٹس گلزار احمد کا تعلق کراچی سے ہے اور وہ دو فروری سنہ 1957 میں ایڈووکیٹ نور محمد کے گھر پیدا ہوئے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم گلستان سکول سے حاصل کرنے کے بعد ایس ایم لا کالج سے قانون کی ڈگری حاصل کی اور سنہ 1986 میں ہائی کورٹ کے وکیل رجسٹر ہوئے اور دو برس بعد ہی ان کی سپریم کورٹ میں انرولمنٹ ہو گئی۔

جسٹس گلزار احمد سولِ کارپوریٹ شعبے کے وکیل رہے ہیں اور وہ کئی بین الاقوامی کمپنیوں اور بینکوں کے قانونی مشیر بھی رہ چکے ہیں۔

معزولی سے سپریم کورٹ تک کا سفر

جسٹس گلزار احمد جب سنہ 2002 میں ہائی کورٹ کے جج بنے تو دو سال قبل ہی جنرل پرویز مشرف کے جاری کیے گئے عبوری آئینی حکم کے تحت سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے اکثر جج صاحبان حلف اٹھا چکے تھے۔

جسٹس گلزار
جسٹس گلزار احمد سول کارپوریٹ شعبے کے وکیل رہے ہیں اور وہ کئی ملٹی نیشنل کمپنیوں اور بینکوں کے قانونی مشیر بھی رہے چکے ہیں

صرف پانچ سال کے بعد یعنی سنہ 2007 میں انھیں بھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا جب دوبارہ عبوری آئینی حکم کے تحت حلف لینے کا حکم آیا تاہم وہ سندھ ہائی کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس صبیح الدین احمد کے ساتھ ان ججوں میں شامل رہے جنھوں نے یہ حلف اٹھانے سے انکار کر دیا تھا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے قیام کے بعد جب سندھ ہائی کورٹ میں ججوں کی بحالی کا سلسلہ شروع ہوا تو وہ ان ججوں میں شامل تھے جو دوسرے مرحلے میں بحال ہوئے۔

سنہ 2011 میں وہ سپریم کورٹ کے جج تعینات کیے گئے۔ اس وقت افتخار محمد چوہدری چیف جسٹس تھے۔

نامزد چیف جسٹس گلزار احمد کے سامنے چیلینج

صحافی اور تجزیہ نگار مطیع اللہ جان کا کہنا ہے کہ جنرل پرویز مشرف کو پھانسی کی سزا کا حکم اور آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کی مدت ملازمت پر نظر ثانی کی درخواستیں سماعت کے لیے چیف جسٹس گلزار ہی کے پاس آنی ہیں۔

قمر جاوید باجوہ
آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کی مدت ملازمت پر نظر ثانی کی درخواستیں جسٹس گلزار کے پاس ہی آنی ہیں

انھوں نے مزید کہا ’یہ چیف جسٹس شپ پاکستان کے سیاسی اور سول ملٹری تعلقات کی تاریخ میں ایک بڑا اہم موڑ ہو سکتی ہے۔‘

سپریم کورٹ بار کے سابق صدر یاسین آزاد کہتے ہیں کہ آرمی چیف کی ملازمت میں توسیع اور پرویز مشرف کو پھانسی کا معاملہ بہت سنجیدہ معاملات ہیں جن کو آگے لے کر چلنا ہے اور آنے والا وقت مشکل ہے۔

لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ سپریم کورٹ نے ہمیشہ آئین اور قانون کے مطابق ہی فیصلے دیے ہیں اور نتائج کی پرواہ کیے بغیر معاملات کو آگے لے کر جایا گیا ہے۔

پانامہ کیس میں اختلافی نوٹ

جسٹس گلزار احمد پانامہ لیکس میں میاں نواز شریف کو نااہل قرار دینے والے بینچ میں شامل رہے ہیں۔

انھوں نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا تھا کہ ’عوامی عہدیدار کی حیثیت سے یہ میاں محمد نواز شریف کی ذمہ داری تھی کہ وہ لندن فلیٹس کے بارے میں صحیح حقائق سے قوم اور اس عدالت کو آگاہ کرتے لیکن وہ ایسا کرنے میں بری طرح ناکام رہے اس لیے وہ آئین کی شق 62 کے تحت صادق اور امین نہیں رہے۔‘

اسی پانامہ کیس سمیت میاں نواز شریف کے خاندان کے خلاف مختلف مقدمات میں اپیلیں ان کے ہی سامنے آنی ہیں۔

نواز شریف
جسٹس گلزار احمد پانامہ لیکس میں میاں نواز شریف کو نااہل قرار دینے والے بینچ میں شامل رہے ہیں

شہری اور عسکری اداروں پر برہمی

سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور جسٹس ثاقب نثار کی طرح جسٹس گلزار احمد بھی میڈیا کی سرخیوں میں رہتے آئے ہیں اور اس کی وجہ ان کے کراچی اور اسلام آباد کے شہری معاملات پر ریمارکس ہیں۔

کراچی میں ایمپریس مارکیٹ، گارڈن مارکیٹ سمیت غیر قانونی تجاوزات کے خلاف آپریشن ان کے ہی حکم پر جاری کیا گیا تھا۔

انھوں نے حکام کو مخاطب ہو کر کہا تھا ’جائیں شہر میں تمام وہ تجاوزات منہدم کریں جو چالیس برس قبل کے ماسٹر پلان کے خلاف ورزی میں تعمیر کی گئیں ہیں۔‘

ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی پر ریمارکس دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ان کا بس چلے تو پورے سمندر پر شہر بنا لیں، ڈی ایچ اے والے سمندر میں تجاوزات بنا کر کے امریکا تک اپنا جھنڈا لگا دیں، یہ سوچ رہے ہیں کہ انڈیا میں کیسے گھسیں۔‘

انھوں نے کراچی میں تمام عسکری زمینوں پر تجارتی سرگرمیاں ختم کرنے کا حکم جاری کیا تھا اور ساتھ یہ بھی سوال اٹھایا تھا کہ ’کیا نیوی، سول ایوی ایشن جیسے اداروں کا کام شادی ہال چلانا ہے؟ یہ شادی ہال اور سینما چلا رہے ہیں۔‘

وفاقی ترقیاتی ادارے سی ڈی اے پر بھی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’اسلام آباد کا حشر بگاڑ دیا گیا، یہ آدھا شہر اور آدھا دیہات بن گیا ہے۔‘

پبلک ٹرانسپورٹ کے فقدان پر تبصرہ کرتے ہوئے انھوں نے ریمارکس دیے تھے کہ ’ایک ہلتی ہوئی میٹرو چل رہی ہے، یہاں کوئی رکشہ نہیں، رکشے لے کر آئیں اور لوگوں کو اپنی ثقافت دکھائیں۔‘

کراچی میں حالیہ بارشوں میں ہلاکتوں کے خلاف درخواست کی سماعت پر جسٹس گلزار نے ریمارکس دیے تھے ’کے الیکڑک ابراج گروپ کے لیے سونے کا انڈہ دینے والی مرغی ہے، یہ پانچ پیسے کے بدلے پانچ کروڑ کا منافع لیتے ہیں، کیا کبھی کسی نے اس ادارے کا آڈٹ کیا۔‘

’میری نواسی گھر سے سکول جاتی ہے تو واپسی تک میری اہلیہ پریشان رہتی ہیں، شہر میں بارش میں بجلی سے 22 بچوں کی ہلاکتیں رپورٹ ہوئی ہیں، ہو سکتا ہے اس سے بھی زیادہ بچے ہلاک ہوئے ہوں۔‘

از خود نوٹس کا اختیار

سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور ان کے بعد جسٹس ثاقب نثار نے آرٹیکل 183(3) کے تحت حاصل اختیارات کے تحت کئی اہم سیاسی اور آئینی معاملات کا از خود نوٹس لیا۔

وکلا برداری اور سیاست دان کچھ نوٹسز پر خفا بھی نظر آئے لیکن رخصت ہونے والے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ان اختیارات کا استعمال نہیں کیا۔

ثاقب نثار
سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے بھاشا دیا میر ڈیم کی تعمیر کے لیے راہ ہموار کی اور اس کے لیے ایک فنڈ قائم کیا، جسٹس گلزار احمد اس مہم کا حصہ رہے

تجزیہ نگار اور صحافی مطیع اللہ جان کا کہنا ہے کہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اتنا جوڈیشل ایکٹیوازم نہیں دکھایا۔

’انھوں نے از خود نوٹس کے بارے میں قواعد بنانے کی کوشش کی تھی لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوئے، اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ جسٹس گلزار سمیت ان کے ساتھی ججز اس چیز کو ماننے کے لیے تیار نہیں تھے کہ جب ان کی باری آ رہی ہے تو ازخود نوٹس کے اختیارت کو کم کر دیا جائے۔‘

سپریم کورٹ بار کے سابق صدر یاسین آزاد کا خیال ہے کہ جسٹس گلزار از خود نوٹس کا استعمال کریں گے کیونکہ اس سے قبل وہ کراچی تجاوزات اور زمینوں پر قبضوں کے مقدمات میں ایسا کر چکے ہیں۔

ماڈل کورٹس کا مستقبل

سپریم کورٹ کے حال ہی میں رخصت ہونے والے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے مقدمات کی سماعت میں اور فیصلوں میں تیزی لانے کے لیے ضلعی سطح پر ماڈل کورٹس متعارف کرائے تھے۔ بعض سینیئر وکلا اس کو آئین کے خلاف سمجھتے ہیں اور ان وکلا میں یاسین آزاد بھی شامل ہیں۔

ان کے مطابق یہ عدالتیں آئینی تقاضے پورا نہیں کر رہی ہیں اور اب جسٹس گلزار اس نظام کو جاری رکھتے ہیں یا ختم کرتے ہیں یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔

سپریم کورٹ

بار اور بینچ کا رشتہ

جسٹس گلزار احمد نے بار کی سیاست میں بھی سرگرم کردار ادا کیا۔ وہ سنہ 1999 میں سندھ ہائی کورٹ بار کراچی کے سیکرٹری بھی رہ چکے ہیں۔

گذشتہ ہفتے انھوں نے کراچی بار سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ’بار اور بینچ کا ایک رشتہ ہے جو ہر وقت چلنا ہے اور اس کو نہ کوئی روکے گا اور نہ کوئی بگاڑ سکتا ہے۔ اگر اس میں بگاڑ آ گیا تو اس میں دونوں کا ہی نقصان ہے۔‘

وہ عدلیہ میں خواتین ججز کی تعداد میں اضافے کے بھی خواہشمند ہیں۔ حال ہی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ سمیت تقریباً تین ہزار سے زائد جج ہیں اور دستیاب اعداد و شمار کے مطابق ان میں خواتین ججوں کی تعداد تقریباً 500 ہے جو تشویش کا باعث ہے۔

’ہم بطور ادارہ تجویز دیتے ہیں کہ جتنا ممکن ہو پاکستان کی عدلیہ میں خواتین کی شمولیت کے لیے اقدامات کیے جائیں۔‘

بھاشا، دیامیر ڈیم

سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے بھاشا دیا میر ڈیم کی تعمیر کے لیے راہ ہموار کی اور اس کے لیے ایک فنڈ قائم کیا۔ جسٹس گلزار احمد اس مہم کا حصہ رہے اور انھوں نے اسی دوران امریکہ میں چندہ مہم میں شرکت کی تھی۔

وہ اس ڈیم کی تعمیر کی پیشرفت کا بھی جائزہ لیتے رہے ہیں۔ نیشنل بینک نے جب ڈیم فنڈ کی 12 ارب روپے کی رقم سے سرمایہ کاری کی تو انھوں نے اس پر برہمی کا اظہار کیا۔

انھوں نے سٹیٹ بینک آف پاکستان کو ہدایت کی کہ وہ ان ’رکاوٹوں‘ کو دور کرے جو بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ڈیم فنڈ میں عطیات منتقل کرنے سے روک رہی ہیں۔